پاکستان

گلگت بلتستان: فرقہ پرستی کی آگ بھڑکائی گئی تو کئی نسلیں بھی بجھا نہ پائیں گی

شیر نادر شاہی

گلگت بلتستان ہماری دھرتی ہے۔ یہاں کے لوگ صدیوں سے اکھٹے رہ رہے ہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، رہن سہن، تہذیب و تمدن، تاریخ، جغرافیائی و قانونی حیثیت، زبانیں اور کلچر سب مشترک ہیں۔ یہ بروشال کے زمانے سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ پھر بلورستان اور دردستان کے زمانے بھی ایک ساتھ ملّی یکجہتی کے ساتھ گزار چکے ہیں۔ انہوں نے مہا راجہ کشمیر سے لے کر سردار عالم تک کے زمانے بھی ایک ساتھ گزارے اور ایسے اتحاد و اتفاق کے ساتھ گزارے کہ سب رشک کریں۔

اب چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ گھر بیٹھے انگلی کی ایک ٹِک ٹِک سے حالات و واقعات ایک دم بدل جاتے ہیں جس کا بعض غیر ذمہ افراد کو بالکل بھی احساس نہیں ہے۔ گھر بیٹھ کر پوسٹ کرنا یا شیئر کرنا بہت ہی آسان ہے…مگر ایک پوسٹ یا انگلی کی کلک سے پیدا ہونے والے ناخوشگوار واقعات کو سنبھالنا کئی دہائیوں تک آسان نہیں ہوتا۔

حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان میں رونما ہونے والے حالات و واقعات بھی اسی تیز اور جدید سوشل میڈیا کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئے ہیں۔ ہوا یوں کہ کسی نے آغا صاحب کی گھنٹوں پر محیط ویڈیو کو ایڈیٹ کرنے کے بعد اپنے مقصد کی بات کو سوشل میڈیا میں وائرل کر دیا۔ اس کے بعد طوفان کھڑا ہو گیا۔ بات مذاکرے اور مباہلے تک آن پہنچی۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند کرنے پر غور کیا گیا۔

اس کھیل میں وہ لوگ بھی شامل ہو گئے جو مذہب میں تو کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، نہ ہی مذہب کا کوئی علم ہے لیکن ایسے حالات میں جلتی پر تیل چھڑکنے کے لئے صف اؤل میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔

1988ء کے بعد گلگت بلتستان کے اندر فرقہ وارانہ فسادات کا جو اندوہناک اور افسوسناک کھیل کھیلا گیا اس سے شائد کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ تین دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی ہمارے زخم تازہ ہیں۔ ان ماؤں کے زخم ابھی نہیں بھرے جن کے بچے اس فرقہ وارانہ فسادات کے نذر ہوئے۔ ان بچوں کے مستقبل ابھی تک بردباد ہیں جو ان سانحات کی وجہ سے یتیم ہوئے۔ ان سہاگنوں کے زخم ابھی تازہ ہیں جن کے شوہر اس ظالمانہ تعصبات کی نذر ہوئے۔

ابھی تک وہ نو گو ایریاز ختم نہیں ہوئے جو ان فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے تعمیر ہوئے تھے۔ ابھی تک دو مسلکوں کے نوجوان ان فسادات کی وجہ سے ایک دوسرے کے دل میں کینہ اور نفرت لئے بیٹھے ہیں اور اب ہم ایک اور میدان سجانا چاہتے ہیں جس سے نقصان نہ صرف ہمارا بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کا بھی ہو گا۔ اگر ہم نے یہ محاذ کھولنے کی کوشش کی اور اس کو روکنے کی بجائے اس کو پھیلانے کی کوشش کی تو یہ نفرت کی آگ نہ صرف گلگت بلتستان کو جلا کر راکھ کر دے گی بلکہ دور تک پھیلے گی۔

Sher Nadir Shahi
+ posts

شیر نادر شاہی کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ وہ سیاسی، سماجی، قانونی اور عوامی مسائل کے حوالے سے مختلف اخبارات میں لکھتے ہیں۔