(مندرجہ ذیل دستاویز، چوتھی انٹرنیشنل کی قیادت کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ امسال چوتھی انٹرنیشنل کی عالمی کانگرس بلجئیم میں منعقد کی جا رہی ہے۔ یہ ڈرافٹ دستاویز کی تیسری قسط ہے۔اس دستاویزپر کانگریس میں بحث کی جائے گی۔ ترجمہ عدیل اعجاز،فاروق سلہریا)
دائیں بازو کے چیلنجز: نیو لبرل جمہوریتیں، مزدور اور مظلوم افراد
2008 کے بحران کے بعد سے، اور 2016 کے بعد صریح انداز میں، دائیں بازو کی نئی قوتوں کا ایک جھرمٹ ریاستوں اور معاشروں پر پیش قدمی کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس کا ہراول نسل کش بنیامین نیتن یاہو اور اس کی نسل پرست جنگی حکومت ہے۔
یورپ میں: اٹلی میں یہ قوتیں حکمران ہیں۔ نیدرلینڈز اور سویڈن میں شریکِ حکومت ہیں۔ جرمنی میں یہ طاقتور ہو رہے ہیں۔میکرون کی مدد سے، فرانس کے اداروں پر خطرناک گرفت بڑھ رہی ہے۔ اردگان کی آمرانہ حکومت ترکی میں شدومد سے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہے۔ دائیں بازو کی پارٹی فیدس 2010 سے ہنگری کا عصائے حکمرانی تھامے ہوئے ہے۔ پولینڈ میں، پی آئی ایس آٹھ سالوں سے اقتدار میں ہے اور ایوان صدارت اس کے پاس ہے۔ بلغاریہ میں، قدامت پسند پاپولسٹ سمر-ایس ڈی نے قانون سازاسمبلی کے انتخابات جیتے اور دائیں بازو (ایس این ایس) کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔
لاطینی امریکہ میں: برازیل میں بولسونارو کے تباہ کن چار سالوں (2018-2022) کے بعد، پیرو میں دو سال پہلے ڈینا بولوارٹے (Dina Boluarte)نے فوجی بغاوت کر دی۔ دائیں بازنے ارجنٹینا میں بھی فتح کے جھنڈے گاڑھے۔ارجنٹینا میں مزدورتنظیموں اور عوامی تحریکوں کی حالت کافی اچھی تھی۔ فار رائٹ اب ان کے خلاف اعلان جنگ کر چکا ہے۔
پوری دنا کو ان سے خطرہ ہے جبکہ امریکہ میں اس بات کا امکان ہے کہ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس کا کنٹرول حاصل کر لیں گے[یہ دستاویز امریکی انتخابات سے قبل لکھی گئی تھی: مترجم]۔
ایشیا میں یہ قوتیں حقیقی خطرہ ہیں۔ بونگ بونگ مارکوس، ڈکٹیٹر فرڈینینڈ مارکوس کا بیٹا، فلپائن پر حکومت کررہا ہے۔ دائیں بازو کے ہندو قوم پرست نریندر مودی، جو 2014 سے بھارت پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے شہری آزادیوں، مزدور طبقے اور ماحولیاتی حقوق کو محدود کیا ہے ساتھ ہی کشمیر کے علاقے کی آئینی خود مختاری کو بھی کم کیا ہے۔ انڈونیشیا میں، دائیں بازو کے پرابوو سبیانتو صدر بن گئے ہیں۔
اکیسویں صدی کی دائیں بازو کی قوتوں نے انتخابی فتوحات کے ذریعے اپنی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور استحکام حاصل کیاہے۔انتخابی کامیابیوں کے بعد انھوں نے سماجی آزادیوں اور سماجی حقوق کو محدود کرنے کے اقدامات اٹھائے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ”نظام مخالف” کے طور پر پیش کرتے ہیں (منافقانہ انداز میں وہ موجودہ سیاسی نظاموں کو بدتر حالت، بدعنوانی اور غیر یقینی صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں)، حالانکہ وہ بالکل بھی نظام مخالف نہیں ہیں۔ اپنی انتہائی نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ یا بعض اوقات زینوفوبک قوم پرستی کا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے، وہ رجعت پسند اور روایتی بیانئے کو فروغ دیتے ہیں۔عمومی طور پر ان قوتوں کی بنیاد پرست مذہبی حلقوں میں بھی حمایت موجود ہوتی ہے۔
مسلسل پھیلتے ہوئے اور غیر منظم سوشل نیٹ ورکس (سماجی روابط)،جس کا ستعمال انہوں نے باقی قوتوں سے پہلے شروع کر دیا تھا، اپنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے (ان پلیٹ فارمز پر عمومی طور پر، بے دھڑک جھوٹ بولنا اور بے بنیاد الزامات لگانا ممکن ہوتا ہے)، وہ بالعموم مزدوروں کے حقوق اور بالخصوص خواتین کے حقوق، ایل جی۔بی۔ٹی۔کیو۔پلس افراد، نسلی یا مذہبی اقلیتوں (یا اکثریتوں)، مہاجرین، نسلی امتیاز کا شکار افراد اور ماحولیاتی کارکنوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔ ہر قسم کی سائنسی تحقیق کی نفی کرتے ہوئے، وہ ماحولیاتی تحریکوں اور ان تمام افراد کے خلاف کھلی جنگ میں ملوث ہیں جو موسمیاتی تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔
شدید نیو لبرل ازم اور بنیاد پرست روایت پرستی کا یہ امتزاج سرمایہ دارانہ نظام کے لئے انتہائی مفید ہے۔یہ امتزاج دنیا بھر کے بورژوا طبقے کی اس کوشش کا اظہار ہے کہ وہ نظام کے ساختیاتی بحران سے نپٹنے کے لئے، اقتصادی، سیاسی اور نظریاتی طور پر ”پیچھے کی طرف“سفر کر رہے ہیں۔ مختلف ممالک کے سرمایہ داروں کے یہ حصے حکومتیں گرا نا چاہتے ہیں،سماجی حقوق چھین لینا چاہتے ہیں (گویا فلاحی ریاست کی ہلکی سی پرچھائی بھی مٹا دینا چاہتے ہیں)، خواتین کو گھر کی چار دیواری تک واپس لانا چاہتے ہیں (تا کہ لیبر پاور کی بنیادی سطح پر ری پروڑکشن ہوتی رہے)، نسلی اور جنسی بنیادوں پر لوگوں میں تخصیص چاہتے ہیں،عوامی تحریکوں کو آہنی ہاتھ کے ذریعے دبانا چاہتے ہیں،بے رحمی کے ساتھ معاشی لوٹ مار ایڈجسٹ منٹس کرنا چاہتے ہیں،بالخصوص کسان طبقے اور اجتماعی زندگی کی ہر طرح کی باقیات مٹا دینا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے کرنا چاہتے ہیں تاکہ انتشار سے پاک معاشرہ قائم کیا جا سکے اور سرمایہ دارانہ منافع کی پرانی شرح کو دوبارہ بحال کیا جا سکے۔
انتہائی دائیں بازو کے اس جھرمٹ کا عروج اور پیش قدمی (نیو لبرل) جمہوریتوں اور ان کے اداروں کے دہائیوں سے جاری بحران کا نتیجہ ہے (جس میں تمام روایتی جماعتیں شامل ہیں، حتیٰ کہ ”بائیں بازو“ کی جماعتیں بھی جو نیو لبرل ازم کے تحت ریاستوں کا انتظام چلاتی رہی ہیں)۔ نیو لبرل ازم پر عمل درآمد کرنے والی ان حکومتوں اور نظاموں نے عدم مساوات، بدعنوانی، عدم تحفظ کے ساتھ ساتھ عالمی جنوب میں غربت، جنگوں اور ماحولیاتی آفات میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں شمال کی طرف نقل مکانی کی ترغیب ملی ہے۔ انہوں نے عوام اور مزدوروں کی امنگوں کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ اس طرح، انہوں نے درمیانے طبقے، مراعات یافتہ تنخواہ دار طبقے (سفید پوش ملازمین) اور یہاں تک کہ سب سے زیادہ غیر محفوظ طبقات کے کچھ حصوں کو آمرانہ متبادل کی طرف مائل کرنے میں مدد دی۔ مختصر یہ کہ فار رائٹ کا گروہ 40 سالہ نیو لبرل ازم کے مسلط کردہ سماجی ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ، 2008 کے بعد سے بگڑتے ہوئے بحران کے پیش نظر محروم معاشرتی طبقات کی مایوسی کا پیچیدہ نتیجہ ہے، جس میں (اول) ”ترقی پسند نیو لبرل“ دایاں بازو بھی ناکام ہوا اور سماجی لبرل ازم اور ”پروگریسو ازم“پر مبنی ”متبادل“بھی جن کے نتیجے میں جنوب کے ممالک میں غربت، ملازمت کی غیر یقینی صورتحال، جرائم کے مقابلے میں عدم تحفظ اورمائگریشن پر قابو نہیں پایا جا سکا اور (دوم)متبادل راستہ پیش کرنے والی انقلابی عوامی متبادل کی عمومی کمی شامل ہیں۔
یہ صورتحال ”فورتھ انٹرنیشنل”کو تمام میدانوں میں انتہائی دائیں بازو کی قوتوں، آمرانہ طرز حکومت اور روایت پسند نیو فاشزم کے خلاف ہی نہیں بلکہ ان نیو لبرل اور رجعت پسند پالیسیوں کے خلاف بھی، جنہوں نے ان کو جنم دیا اور ان پر اثر انداز ہوئیں، ان کے نیست و نابود ہونے تک جنگ کی چتاونی دیتی ہے۔
دائیں بازو کی پیش قدمی کی گہری جڑوں کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف انتخابات اور جدوجہد میں انہیں شکست دینے کے لئے اتحاد پر مبنی پالیسیوں کو اپنایا جائے اور دوسری طرف ان عبوری اور ماحولیاتی سوشلسٹ(ecosocialist) مطالبات کو آگے رکھا جائے، جو نیو لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی تذویراتی شکست یقینی بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
مزدوروں، مظلوم طبقات اور دنیا کے عوام نے متحرک ہو کر ردعمل ظاہر کیا۔ اور اب؟
اس صدی میں کم از کم تین دفعہ جمہوری اور نیو لبرلزم مخالف تحریکیں ابھریں (موجودہ صدی کی شروعات میں، 2011، 2019-2020 میں)۔ تحریک نسواں نئے سرے سے ابھری۔ امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف تحریک ابھری۔ پوری دنیا میں ماحولیاتی انصاف کے لیے جدوجہد کی تحاریک کا ایک جھمگھٹ نظر آیا۔ معروضی طور پر،ایک طرف تو یہ تحریکیں نیو لبرل سرمایہ داری اور حکومتوں کے خلاف تھیں،دوسری طرف،کام کی نوعیت میں جو ساخیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں،اس کے مخمصے بھی ان تحریکوں میں واضح تھے: مغرب میں صنعتی مزدور کا سماجی وزن کم ہو گیا ہے، محروم حلقے، نوجوان اور عارضی نوکریاں کرنے والے مزدور پائیدار بنیادوں پر منظم بھی اور عام طور پر ٹریڈ یونین کے ساتھ اتحاد ان کو مشکل نظر آتا ہے۔
2008 کے بحران کے بعد، دنیا بھر میں عوامی تحرک کا دوبارہ ابھار دیکھا گیا۔ عرب بہار،آکوپائی وال اسٹریٹ، میڈرڈ میں پلازا ڈیل سول، استنبول میں تقسیم چوک، برازیل میں جون 2013، فرانس میں Nuit Debout اور پیلے واسکٹ والی تحریک، بیونس آئرس، ہانگ کانگ، سانتیاگو، بنکاک میں سیاسی طور پر سرگرمی دیکھنے میں آئی۔
اس پہلی لہر کے بعد 2018 اور 2019 کے درمیان بغاوتوں اور دھماکوں کی دوسری لہر آئی۔اس کوکرونا وباء نے کسی طور روک دیا: امریکہ اور برطانیہ میں جارج فلائیڈ کی موت کے بعد نسل پرستی مخالف بغاوت، دنیا کے کئی حصوں میں خواتین کی تحریک بشمول ایران کی بہادر خواتین کی جدوجہد، بیلا روس میں آمرانہ حکومتوں کے خلاف بغاوت (2020)، بھارتی کسانوں کی بڑی تحریک جس نے 2021 میں کامیابی حاصل کی۔ 2019 میں ایک سو سے زائد ممالک میں مظاہرے، ہڑتالیں یا حکومتوں کے تختے الٹنے کی کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ ان میں سے چھ ممالک میں یا حکومتیں بدلیں یااصلاحات میں ترامیم کی گئیں۔ چار ملکوں میں حکومتوں کا تختہ الٹ دیا گیا۔ دوملکوں میں حکومتوں کو مکمل طور پر ریفارم کیا گیا (بحوالہ ’میڈیا پارٹ‘ 24/11/2019)۔
ایامِ وباء کے دوران فرانس میں میکرون کی پنشن اصلاحات کے خلاف تین ماہ کی مزاحمت اور چین میں مزدوروں، طلباء اور عوام کی بغاوت نے کمیونسٹ پارٹی کی کوویڈ زیرو پالیسی کو جس طرح شکست دی۔۔۔دونوں نمایاں مثالیں ہیں۔ امریکہ میں،پروڈکشن کی نئی شاخوں (اسٹار بکس، ایمیزون، یو پی ایس) میں یونین سازی اور جدوجہد کا عمل جاری ہے۔تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی ہڑتالیں ہوئیں۔ عام کارکنوں میں،ان ہڑتالوں کے دوران بیوروکریسی مخالف جذبات اہم عنصر تھے۔ 2022/2023 میں، ہالی ووڈ کے اسکرین رائٹرز اور اداکاروں کی بڑی ہڑتالیں نمایاں طور پر دیکھنے میں آئیں ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کی تین بڑی گاڑی بنانے والی کمپنیوں کے مزدوروں کی تاریخی اور کامیاب ہڑتالیں بھی ہوئیں۔
اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو مزدور طبقہ، جو فی الحال مصنوعی ذہانت کے اثرات کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہا ہے (جس کی مثال امریکی اسکرین رائٹرز اور اداکاروں کی ہڑتال میں دیکھی جا سکتی ہے)، اب بھی ایک جاندار اور بڑی قوت ہے۔ چین میں بڑے صنعتی کمپلیکس موجود ہیں۔ یہ بلکہ جنوب مشرقی ایشیاتک پھیل چکے ہیں۔ افریقہ، جنوبی ایشیا (بھارت اور پاکستان) اور ور لاطینی امریکہ میں کسان بھی سامراجی ایگرو بزنس کے خلاف بہادری سے مزاحمت کر رہے ہیں۔آدیواسی، جو دنیا کی آبادی کا 10% ہیں، اپنے علاقوں پر سرمایہ کی یلغار کی مزاحمت کرتے ہیں۔ آدیواسی ان مشترکہ قدرتی وسائل کا دفاع کررہے ہیں جو پوری انسانیت کی بقاکے لئے ضروری ہیں۔ عرب بہار کی شکست اور شامی المیہ، مشرق وسطیٰ میں عوام کی پسپائی کا سبب بنے مگر ایران میں خواتین اور لڑکیوں کی دلیرانہ بغاوت ابھری۔
قوتوں کا موجودہ توازن کسی بھی طرح جارحانہ نہیں ہے۔ یہ کروناوبا کے دوران بھی نہ تھا۔ اسی دوران تو”بلیک لائیوز میٹر“ تحریک ابھری(جو 2020 میں ٹرمپ کی شکست میں اہم ثابت ہوئی) اور فرانس میں پنشن اصلاحات کے خلاف ہڑتال ہوئی جو چند ماہ پہلے[2024 میں: مترجم] فرانسیسی بائیں بازو کی شاندار انتخابی کا باعث بنی۔
یہ کہنا کہ پچھلی جدوجہد کی لہر سرد پڑ گئی ہے اور یہ کہ انتہا پسند دائیں بازو کا ابھار اس وقت خطرناک اور بنیادی دشمن ہیں (گو دونوں باتیں درست ہیں)مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ دنیا کے استحصال زدہ اور مظلوم طویل عرصے کے لئے شکست کھا گئے ہیں مگر انہیں (اور ہمیں) تاریخی طور پر شکست خوردہ بہ بھی سمجھا جائے تو اس سے یہ طے نہیں ہو جاتا کہ یہ عہد انقلابی صورتحال کی یا کسی پیش قدمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ہاں ایک بات بہرحال واضح ہے کہ استحصال زدہ اور مظلوم سرمائے کے خلاف جدوجہد کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ نئی تنظیمیطریوہ کار کے تحت اور پہلے سے زیادہ مشکلات کے باوجودسرمایہ اور اس کی برائیوں کا مقابلہ کرتے رہیں، جنگوں، موسمیاتی تغیرات اور ایڈجسٹمنٹ منصوبوں کے درمیان اپنی بقا اور بہتر زندگی کے لئے لڑیں۔
جنگوں اور جغرافیائی سیاسی افراتفری کا دور۔ ورلڈ ؤرڈرکی تشکیل نو
بین الاقوامی جغرافیائی سیاسی صورتحال پر امریکہ(جو غالب سامراج ہے) اور چین(جوابھرتا ہوا سامراج ہے) کے درمیان تصادم کا غلبہ ہے۔ اس تنازع کی ایک خاص بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کا ایک دوسرے پر اعلیٰ درجے کا معروضی، اقتصادی انحصار ہے۔ یہ باہمی انحصارنیو لبرل گلوبلائزیشن کی میراث ہے۔ 2008 تک جیسی گلوبلائزیشن تھی،اب ویسی گلوبلائزیشن تو نہیں رہی مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ڈی گلوبلائزیشن ہو گئی ہے۔ جغرافیائی سیاسی تنازعات اس ساختیاتی بحران کی علامت ہیں۔ یہاں بھی ہم ا ن دیکھے اور انجانے رستوں پر چل رہے ہیں۔ مستقبل بارے حتمی بات کرنا مشکل ہے۔
موجودہ دور میں جس طرح کا ڈس ٹرڈر پنپ رہا ہے، اس کے نتیجے میں دنیامزید تنازعات کا شکار ہو گی،مزید خطرناک بن جائے گی۔ چند سال پہلے والی ”جغرافیائی سیاسی افراتفری“ ٹرمپ انتظامیہ کے ہاتھ عنان اقتدار آنے کے بعد چین کے ساتھ اقتصادی جنگ کی وجہ سے خطرناک شکل اختیار کر رہی تھی۔۔۔ لیکن فروری 2022 میں پوٹن کی زیر قیادت روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے ساتھ مزید خطرناک ہوئی۔اس خطرے نے دوسری جست لگائی جب اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائمکے تحت غزہ میں نسل کشی شروع ہوئی۔ اس جنگ کی امریکہ نے کھل کر حمایت کی۔ یورپی سامراج نے مبہم انداز میں اس جنگ کی حمایت کی۔ گو سینکڑوں وں ہزاروں انسان جان سے گئے مگر اسلحہ فروشوں کوکھربوں ڈالر کا منافع بھی حاصل ہوا ہے۔
فروری 2022 کے بعد امریکی قیادت اور نیٹو کی بحالی کے باوجود،اسرائیلی جنگ کی حمایت کے باوجود امریکی hegemony میں نسبتی کمی آئی ہے۔ یاد رہے: اپنی طاقت میں کمی سے پریشان hegemon بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اب امریکہ کے پہلے سے زیادہ اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی حریف ہیں۔ نئی سامراجی طاقتیں اپنا زور جما رہی ہیں جیسا کہ روس۔یاابھرتا ہوا چین جو جنگی انداز میں ذرا کم اظہار کر رہا ہے۔ یہ ایک جاری تشکیلِ نو ہے جو عالمی سیاق و سباق میں عدم استحکام کا شکار ہے،کچھ بھی مستحکم نہیں۔ کسی بھی صورت میں، امریکی قیادت کے تحت بلاک کی یکطرفہ طاقت (سوویت یونین کے خاتمے کے بعد) اب موجود نہیں ہے۔ بھارت، تاہم، خود کو ایک علاقائی طاقت (یا کم از کم ایک ذیلی سامراجی طاقت) کے طور پر منوانے کی کوشش کر رہا ہے اور دوہرا کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ امریکہ کے ساتھ سیاسی اتحاد برقرار رکھتا ہے اور چین کے ساتھ مقابلہ بھی کرتا ہے، مگر روس کے ساتھ اقتصادی (تیل) اور تکنیکی (جنگی صنعت) تعاون کا ایک شدید تعلق بھی پرورش پاتا ہے۔