شکارپور(علی کھوسو)ہاری جدوجہد کمیٹی سندھ اور حقوق خلق پارٹی سندھ کے زیر اہتمام دریا ئے سندھ پر چولستان کینال سمیت 6 نئی نہروں کی تعمیر کے خلاف جہاز چوک سے شکارپور پریس کلب تک ’دریا بچاؤ مارچ‘ منعقد کیا گیا، جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔
اس مارچ کی قیادت ہاری جدوجہد کمیٹی سندھ کے کنوینر علی کھوسو، حقوق خلق پارٹی سندھ کے آرگنائزر عاشق ڈومکی، خلق یوتھ فرنٹ ضلع شکارپور کے آرگنائزر شعیب انڑ،منظور کھوسو، عرس چوہان، مشرف کھوسو، فہیم جمالی، عاجز عبدالغفور کھوسو، نظام الدین جوگی، عرفان دل اور دیگر کر رہے تھے۔
مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ایک سازش کے تحت سندھ اور بلوچستان کی عوام کی مرضی کے بغیر پنجاب کی حدود میں دریائے سندھ پر چولستان کینال سمیت 6نئی نہریں تعمیر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نئی نہروں کی تعمیر کا کام شروع کردیا ہے۔ نئی نہروں کا منصوبہ سندھ کے لیے کالاباغ ڈیم سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ان نئی نہروں کی تعمیر سے سندھ کی 36 لاکھ ایکڑ زرعی زمین غیر آباد ہوکر بنجر ہو جائے گی۔کوٹڑی بیراج سے ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہ جانے کی وجہ سے آدھا سندھ سمندر میں ڈوب جائے گا۔ پہلے ہی سندھ کو 1991 کے معاہدے کے تحت اپنے حصے کے مطابق پانی نہیں مل رہا۔ اپنے حصے سے پانی کم ملنے اور ڈاؤن اسٹریم میں پانی کم جانے کی وجہ سے سندھ کی 42 لاکھ ایکڑ زمین سمندر کے نیچے چلی گئی ہے، اور سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے غیر آباد ہے۔
اب اگر یہ نئی نہریں بن گئیں تو آدھا سندھ سمندر اور آدھا سندھ ریگستان بن جائے گا۔ زرعی پیداوار تو اپنی جگہ سندھ کی 7 کروڑ آبادی کو پینے کا پانی بھی نہیں مل پائے گا۔ پانی کی قلت کا ایک بڑا بحران جنم لے گا۔ دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر سندھ کی 7کروڑ آبادی کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اس پر سندھ کی عوام کوئی کمپرومائز نہیں کرے گی اور ہر محاذ پر بھرپور جدوجہد کی جائے گی۔
وفاقی حکومت کو اپنے اس غیر مقبول فیصلے کو فوری طور پر واپس لینا چاہیے۔بصورت دیگرہاری جدوجہد کمیٹی سندھ اور حقوق خلق پارٹی سندھ کے عوام کی کینال مخالف جدوجہد میں ان ساتھ کھڑی ہونگی اور کسی صورت ان عوام دشمن منصوبوں کو بننے نہیں دیں گی۔
آخر میں مارچ کے شرکاء نے قرار دادیں منظور کرتے ہوئے دریائے سندھ پر کینالوں کی تعمیر کو رد کیا اور وفاقی حکومت سے یہ منصوبے فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔