نقطہ نظر

پاکستان میں صرف مدرسے ہی نہیں کوئی جگہ بچوں کیلئے محفوظ نہیں ہے: افتخار مبارک

حارث قدیر

افتخار مبارک کہتے ہیں کہ ”پاکستان میں صرف مدرسے (مذہبی درسگاہیں) ہی نہیں کوئی جگہ بھی بچوں کیلئے محفوظ نہیں ہے، 18 سال سے کم عمر کے لڑکے اور لڑکیاں جنسی تشدد کیلئے سب سے کمزور ہدف ہیں۔ تحفظ کیلئے ایک سائنسی ڈھانچہ تیار کرنے کی ضرورت ہے“۔

وہ بچوں کے تحفظ کے سلسلہ میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’سرچ فار جسٹس‘ کے ساتھ منسلک ہیں اور بچوں کے تحفظ کیلئے قانون سازی اور ایک محفوظ ماحول قائم کرنے کے سلسلہ میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

حال ہی میں مفتی عزیز الرحمن کے حوالے سے جو واقعہ سامنے آیا ہے، اس کے سیاق و سباق میں گزشتہ روز ’روزنامہ جدوجہد‘ نے انکا ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

پاکستان میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے سالانہ کتنے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور طریقہ کار کیا ہے؟

افتخار مبارک: گزشتہ سال کے اعداد و شمار کو اگر دیکھا جائے تو بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے 2960 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایک غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ نے مرتب کئے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ اعداد و شمار سال بھر میں قومی اور علاقائی اخبارات میں رپورٹ ہونے والے واقعات کی بنیاد پر مرتب کئے جاتے ہیں۔ ان واقعات میں 18 سال سے کم عمر بچے اور بچیاں دونوں ہی تقریباً ایک ہی جتنے متاثر ہو رہے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکیاں جنسی تشدد کے واقعات کا زیادہ شکار ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی ایک کمزور ہدف ہیں۔

جنسی تشدد کے حقیقی اعداد و شمار کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے؟

افتخار مبارک: سالانہ رپورٹ ہونے والے واقعات کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں سب سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، سندھ دوسرے، خیبرپختونخوا تیسرے اور بلوچستان چوتھے نمبر پر ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں آبادی بھی زیادہ ہے، ایک عنصریہ بھی ہو سکتا ہے کہ پنجاب کے اخبارات میں اس طرح کے واقعات کی رپورٹنگ بھی زیادہ ہوتی ہو، دیگر صوبوں کے دیہاتوں میں شاید میڈیا اسطرح نہیں ہے، یا اس طرح کے واقعات کو تعلیم کی کمی اور دیہی جرگہ کلچر کی وجہ سے اخبارات میں رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ تاہم یہ ضرورت ہے کہ جو اخبارات میں رپورٹ ہونے والے واقعات ہیں یہ حقیقت میں رونما ہونے والے واقعات کا ’عشر عشیر‘ بھی نہیں ہیں، یعنی حقیقت میں بہت زیادہ واقعات ہوتے ہیں لیکن وہ رپورٹ نہیں ہوتے اور نہ ہی اس طرح کے واقعات کے اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی میکنزم موجود ہے۔ دیہی علاقوں میں سے واقعات زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، پوش علاقوں میں واقعات کو چھپانا زیادہ آسان دیکھا گیا ہے۔ حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے کہ شہروں میں شرح خواندگی زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہاں واقعات زیادہ رپورٹ ہونے چاہئیں، آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے واقعات کی شرح بھی زیادہ ہونی چاہیے لیکن اس کے برعکس دیہی علاقوں میں یہ واقعات زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پوش علاقوں میں لوگوں کے سماجی تعلقات اس طرح سے نہیں ہوتے جس طرح کے دیہاتوں میں ہوتے ہیں جہاں ہر انسان دوسرے انسان کو جانتا اور پہنچانتا ہے۔

وہ کون سے مخصوص حالات اور ماحول ہے جہاں بچے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں؟

افتخار مبارک: ویسے توبچے ہر جگہ ہی غیر محفوظ ہیں اور سب سے زیادہ غیرمحفوظ وہ اپنے گھروں میں ہیں، اس کے علاوہ مذہبی درسگاہوں، مدرسوں، بورڈنگ سکولوں، روایتی تعلیمی اداروں، مساجد کے علاوہ کام کاج کی جگہوں پر بھی بچے غیر محفوظ ہیں۔ مدرسوں اوربورڈنگ سکولوں میں بچے زیادہ غیر محفوظ یا آسان شکار اس لئے ہوتے ہیں کیونکہ وہ وہاں پر مستقل رہائش رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ روایتی سکولوں میں کسی حد تک اساتذہ یا بچوں کو ہینڈل کرنے والے عملہ کی تربیت کا نظام ہے لیکن یہ سلسلہ مدرسوں میں نہیں ہوتا۔ نہ ہی وفاق المدارس یا مدارس کو ریگولیٹ کرنے والا کوئی اور ادارہ اس طرح کا میکنزم بناتا ہے۔ دوران تدریس تشدد کا عنصر بھی مدارس میں زیادہ پایا جاتا ہے لیکن مدارس کو اس کے تدارک کیلئے ذمہ داری لینی ہو گی۔ اس طرح کے واقعات جب منظر عام پر آتے ہیں تو عموماً ادارے کی طرف سے لا تعلقی اختیار کر لی جاتی ہے۔ متاثرہ طالبعلم قانونی جنگ نہ لڑ سکنے کی وجہ سے انصاف حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اکثر مدرسوں میں غریب گھرانوں کے طالبعلم آتے ہیں اور بالخصوص بڑے مدرسوں میں دیگر شہروں اور صوبوں کے طالبعلم تعلیم حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں جو اس مخصوص جگہ پر نہ صرف اکیلے ہوتے ہیں بلکہ شہر اور صوبے کی حد تک بھی تنہا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے آسان شکار ہوتے ہیں اور اپنا دفاع نہیں کر پاتے، نہ ہی انہیں اپنے تحفظ کیلئے نصابی طور پر کوئی تربیت دی جاتی ہے۔

مدارس میں بچوں کو مار پیٹ کا نشانہ بنانے یا جنسی تشدد کے واقعات سے اکثر لا تعلقی اختیار کی جاتی ہے اور مدارس خود تادیبی کارروائی کرنے اور قانونی کارروائی کا ذمہ اٹھانے سے کتراتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟

افتخار مبارک: حال ہی میں لاہور کے ایک مدرسے سے منظر عام پر آنے والے ایک واقعے میں ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ ملزم ایک سیاسی شخصیات اور ایک سیاسی مذہبی جماعت کے عہدیدار ہیں۔ اس لئے یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ مدرسہ کی انتظامیہ نے طوطہ چشمی اختیار کی اور واقعہ کی ذمہ داری لینے کی بجائے ملزم کو مدرسہ سے برطرف کر کے خود برالذمہ ہو گئے۔

مدرسے کی انتظامیہ کو اس کی ذمہ داری لینی چاہیے تھی، قانونی کارروائی کیلئے تحریک کرنی چاہیے تھی، ملزم نے جو جوابی الزام لگایا ہے اس کی تحقیق میں بھی مدرسے کی انتظامیہ کو خود آ گے ہو کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تحریک کرنی چاہیے تھی۔ اگر مدرسے کے مہتمم اعلیٰ اپنی مدعیت میں ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کرواتے تو مدرسے کی نیک نامی بھی ہوتی اور اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا۔ وفاق المدارس نے بھی کوئی منصفانہ ایکشن نہیں کیا، انہیں قانونی عمل کی قیادت کرنی چاہیے تھی، اگر غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیق کے بعد ملزم بے گناہ ثابت بھی ہوجاتا تب بھی کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس کی وجہ سے شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت نہیں ہے۔

آج تک مدرسوں، روایتی تعلیمی اداروں اور دیگرمقامات سے رپورٹ ہونے والے واقعات میں کتنے فیصد لوگوں کو سزا ہو سکی ہے، جو بری ہوئے اسکی کیا وجہ ہے؟

افتخار مبارک: جتنی ایف آئی آر درج ہوتی ہیں اتنے کیس اختتام تک نہیں جاتے۔ اکثریتی کیسوں میں درمیان میں ہی صلح ہو جاتی ہے، جس کے بعد متاثرہ پارٹی کیس کی پیروی ہی چھوڑ دیتی ہے۔ قانونی اور تکنیکی پہلو اس طرح کے بن جاتے ہیں جن سے ملزم کو فائدہ ملتا ہے اور وہ اکثر بری ہو جاتے ہیں یا ریلیف مل جاتا ہے۔ جتنے کیس درج ہوتے ہیں اتنی سزائیں نہیں دی جاتی ہیں۔ البتہ جن کیسوں کی عدالت میں درست طریقے سے پیروی کی جاتی ہے وہاں سزائیں بھی ہوتی ہیں لیکن اس کا تمام تر انحصار متاثرین کی مالی اور سماجی حیثیت پر ہوتا ہے۔ متاثرہ پارٹی غریب ہو اور وہ کیس کی پیروی کرنے اور سماج میں اس طرح کے کیس کا سامنا کرنے کی سماجی حیثیت نہ رکھتی ہو تو پھر اسے انصاف بھی نہیں مل سکتا۔ دوسرے لفظوں میں انصاف خریدنا پڑتا ہے۔

آپ کے بقول رپورٹ نہ ہونے والے واقعات بہت زیادہ ہیں تو رپورٹ نہ کرنے کی بڑی وجوہات ہیں؟

افتخار مبارک: سب سے بڑی وجہ سے عزت، غیرت، شرم و حیا اور بدنامی وغیرہ کا خدشہ ہوتا ہے جو ایک عمومی معاشرتی کلچر بن چکا ہے۔ بالخصوص بچی کے ساتھ اگر جنسی تشدد کا واقعہ منظر عام پر آئے تو کیس کو زیادہ چھپایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انصاف کی فراہمی کا نظام بہت طویل، دشوار اور مہنگا ہے۔ متاثرہ شخص اورورثا کو کیس کے تمام اخراجات برداشت کرنے اور طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ یہ وہ چند وجوہات ہیں جن سے بچنے کیلئے لوگ جرگہ، دیہی پنچائب وغیرہ کے ذریعے صلح کر لیتے ہیں۔ قانونی طور پر بچوں کے خلاف جنسی تشدد کا کیس ناقابل راضی نامہ ہوتا ہے لیکن جرگہ اور پنچائت کے ذریعے صلح کرنے کے بعد ورثا یا متاثرہ پارٹی کیس کی پیروی نہیں کرتی جس کی وجہ سے شک کا فائدہ ملزم کو مل جاتا ہے اور وہ اکثر بری ہو جاتے ہیں۔ یہ کیس ناقابل راضی نامہ ہونے کے باوجود خانگی صلح اور راضی نامہ کرنے کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے اور اس کے تدارک کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا جاتا۔

بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے، صرف قانون پر عملدرآمد سے یہ کام ہو سکتا ہے؟

افتخار مبارک: جنسی تشدد کے واقعات کے بعد ملزمان کو سزا دینے کے لئے قانون سازی موجود ہے۔ تاہم بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کیلئے حفاظتی اقدامات پر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ بچوں کے تحفظ کا کام ’سنگل ڈوز‘ نہیں ہے، یہ ’ملٹی سٹیک ہولڈر انگیجمنٹ‘ کا کام ہے۔ اساتذہ، والدین، کمیونٹیز، اساتذہ اور دیگر پرتوں کو اس میں آن بورڈ لینا ہو گا۔ ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے کہ واقعات فوری رپورٹ ہو سکیں، مفت قانونی مدد فراہم کی جا سکے، بچوں اور ورثا کی نفسیاتی بحالی کیلئے کلینک بنانے کی ضرورت ہے تاکہ خاندانوں اور متاثرہ بچوں کو ٹراما سے نکالنے کیلئے کام کیا جا سکے۔

ہر طرح کے تعلیمی اداروں میں بچوں کے نصاب میں اس طرح کے مواد شامل کرنا پڑے گا تاکہ وہ خود کو محفوظ رکھنے سے متعلق پڑھ اور سیکھ سکیں، اساتذہ کو تربیت دینی پڑے گی اور بچوں کے ساتھ کام کرنے والے ہر طرح کے عملے کی تربیت کی ضرورت ہے۔

جہاں بچے رہائش پذیر ہوتے ہیں وہاں ہر طرح کے عملہ کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے۔ سٹاف کو تعینات کرنے سے قبل انکا ماضی کا ریکارڈ چیک کیا جانا ضروری ہے اور تربیت کا عمل بھی مسلسل ہونا چاہیے۔ بچوں کو بھی مسلسل تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ مخصوص حرکات و سکنات پر شکایت کر سکیں اور اس شکایت پر فوری کارروائی کے ذریعے اعتماد سازی بھی کی جانی چاہیے۔

اس طرح کا کوئی نظام روایتی یا دینی تعلیمی اداروں میں نہیں ہے۔ روایتی تعلیمی اداروں میں بچے دن کا کچھ وقت رہتے ہیں جس وجہ سے وہاں اس طرح کے واقعات کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے۔ مدارس میں چوبیس گھنٹے بچے رہائش پذیر ہوتے ہیں جس وجہ سے وہ زیادہ کمزور اور آسان ہدف ہوتے ہیں۔

لازمی رپورٹنگ کا قانون لانا پڑے گا تاکہ کسی بھی درسگاہ میں اس طرح کے واقعات رونما ہونے پر پرنسپل یا سربراہ ادارہ کی قانونی ذمہ داری ہو کہ وہ پولیس کو اطلاع دے اور اطلاع نہ دینا قانونی جرم ہو۔

اس طرح کی قانون سازی ہوتی تو لاہور واقعہ یا اس سے قبل لاہور ہی کے ایک اشرافیہ کے سکول میں سامنے آنے والے سکینڈل کے بعد مدرسے اور سکول کی انتظامیہ کے خلاف فوری قانونی کارروائی کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاقہ پولیس میں بھی چائلڈ فرینڈلی انوسٹی گیشن کا نظام وضع کرنا پڑے گا اور اس کیلئے خواتین پولیس اہلکاروں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے میں اس سب سے متعلق آگاہی مہم بھی وقت کی ضرورت ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔