نقطہ نظر

امتحان ملتوی نہ کرنا طلبہ کا مستقبل تباہ کرنا ہے: زینب احمد

حارث قدیر

زینب احمد کہتی ہیں کہ تحریک انصاف کے وفاقی اور صوبائی وزرا انٹرمیڈیٹ کے ’سمارٹ سلیبس‘ کے نا م پر جھوٹ بول کر سب کو گمراہ کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ امتحانات لینے کی ضد کی وجہ سے اگر کسی طالبعلم کی زندگی ضائع ہوئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہو گی۔

زینب احمد پشاور سے تعلق رکھنے والی انٹرمیڈیٹ سال دوم کی طالبہ ہیں۔ وہ گزشتہ چند ماہ سے امتحانات کے انعقاد کے خلاف طلبہ کی طرف سے جاری احتجاجی تحریک کی سرگرم رکن ہیں۔ زینب احمد نے امتحانات کے انعقاد کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک منظم مہم چلائی ہے۔ انکی ویڈیوز لاکھوں کی تعداد میں دیکھی جا رہی ہیں۔ گزشتہ روز ’روزنامہ جدوجہد‘ نے انکا ایک خصوصی انٹرویو کیا جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

آپ نے ایک ٹویٹ میں کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والی اموات کا ذکر کیا جس کی وجہ سے بہت سے طلبہ کی ذہنی حالت اچھی نہیں۔ کورونا وبا کے باعث آپ کے خاندان میں کتنی اموات ہوئیں اور اسکے آپ پر کیا اثرات پڑے؟

زینب احمد: میں نے اپنی ویڈیو میں بھی بتایا تھا کہ رواں سال کورونا وبا کی وجہ سے میرا خاندان بہت متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے میں بالکل بھی تیاری نہیں کر سکی۔ رواں سال کے چند مہینوں کے دوران میرے دادا جان، خالہ، ماموں اور نانی کی کورونا کی وجہ سے موت واقع ہوئی۔ ہمارا پورا خاندان کورونا وبا سے بری طرح سے متاثر ہوا جس کی وجہ سے میں بالکل بھی پڑھائی پر توجہ نہیں دے سکی۔ ایسے میں امتحانات لینے کا مطلب یہ ہے کہ میرے کیریئر کو برباد کر دیا جائے۔ ہمارے وزرا یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں، انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔ لاکھوں طلبا و طالبات کی زندگی کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے۔

آن لائن تعلیم کے کیامسائل تھے اور کیوں طلبہ آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے باوجود امتحانات سے کترا رہے ہیں؟

زینب احمد: آن لائن تعلیم کے حوالے سے بے شمار مسائل تھے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ میں آن لائن تعلیم دینے کیلئے تکنیکی اہلیت کا فقدان تھا۔ اساتذہ طلبہ سے گائیڈ لائنز لیکر آن لائن تعلیم دے رہے تھے، کوئی ایک میڈیم بھی مستقل استعمال نہیں کیا جا رہا تھا۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت کے فقدان کی وجہ سے طلبہ کلاسز بھی نہیں لے سکے۔ آن لائن تعلیم کا سلسلہ بھی مستقل استعمال نہیں کیا گیا، کبھی کالجز کھول دیئے جاتے تھے اورکبھی دوبارہ آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا جاتا تھا۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آن لائن تدریس کے دوران اردو، انگریزی، مطالعہ پاکستان وغیرہ جیسے مضامین پڑھائے گئے اور ان کا چالیس فیصد نصاب بھی کم کیا گیا۔ سائنس مضامین کی تعلیم دی ہی نہیں گئی اور اب سائنس مضامین کا امتحان لینے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے جس کی بنیاد پر انگریزی، اردو اور مطالعہ پاکستان وغیرہ کے نمبر بھی دیئے جائیں گے۔

یہ فیصلہ طلبہ کے ساتھ سراسر دھوکہ اور فراڈ ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ 3 مضامین کا امتحان لیا جائے گا اور نصاب بھی نصف کیا گیا ہے پھر امتحان دینے میں کیا حرج ہے؟

زینب احمد: وفاقی اور صوبائی وزرا جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں نے جیسے پہلے کہا کہ نصاب صرف اردو، انگریزی اور مطالعہ پاکستان وغیرہ کا کم کیا گیا۔ سائنس مضامین کا نصاب کم نہیں کیا گیا اور نہ ہی سائنس مضامین ہمیں اس طرح سے پڑھائے گئے ہیں۔ سائنس مضامین کے نصاب میں 5 فیصد کمی کی گئی ہے جو اصل میں دیکھا جائے تو 5 فیصد بھی نہیں ہے۔ اس طرح جو کچھ ہم نے پڑھا ہی نہیں اس کا امتحان دیکر ہمیں اس کے بھی نمبر ملیں گے جو ہم نے پڑھا ہوا ہے لیکن اسکا امتحان نہیں دینا پڑے گا۔

انٹری ٹیسٹ کے شیڈول کا اعلان بھی ہو رہا ہے، جب انٹرمیڈیٹ کے امتحان ہی نہیں ہونگے تو انٹری ٹیسٹ کون دیگا؟

زینب احمد: یہ بات ہمیں بھی نہیں سمجھ آرہی ہے۔ 50 لاکھ سے زائد طلبہ نے امتحانات دینے ہیں، انٹری ٹیسٹ کا شیڈول بھی جاری ہو چکا ہے۔ جب ہمارے پاس رزلٹ کارڈ ہی نہیں ہونگے تو ہم انٹری ٹیسٹ کیسے دینگے۔ ایک ہی وقت میں انٹری ٹیسٹ اور امتحان کی تیاری بھی ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے ہم کہہ رہے ہیں کہ انٹری ٹیسٹ بھی انٹرمیڈیٹ کی بنیاد پر ہی ہو گا، لہٰذا ہمیں سابقہ نتائج کی بنیاد پر اگلی کلاس میں ترقیاب کیا جائے تاکہ ہم انٹری ٹیسٹ کی تیاری کر سکیں اور وہاں طلبہ کی انٹرمیڈیٹ کی کارکردگی بھی سامنے آجائے گی۔ جس طرح سے امتحانات کا شیڈول جاری کیا گیا ہے اس حساب سے لاکھوں طلبہ کا ایک سال ضائع ہو جائے گا، ہمارا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ابھی ہی بہت سارے اداروں میں داخلوں کی حتمی تاریخ گزر چکی ہے، جن طلبہ نے سکالر شپس پر بیرون ملک جانے کا پلان کر رکھا تھا وہ بھی اب نہیں جا سکتے کیونکہ ہر جگہ پر داخلے بند ہو چکے ہیں۔

اگر حکومت ہر صورت امتحانات لینے کے فیصلے پر عملدرآمد کرواتی ہے تو اس کے طلبہ پر کیا اثرات پڑیں گے؟

زینب احمد: اگر حکومت یہ فیصلہ واپس نہیں لیتی تو شاید بہت سارے طلبہ ایک سال ضائع ہونے کا دھچکا قبول کر لیں گے لیکن ایسے بہت سارے طلبہ ہیں جو خودکشیاں کرنے پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میری ایک کلاس فیلو ہے جس نے میٹرک میں شاندار نتائج حاصل کئے تھے۔ چند روز قبل اس کے والد کی کورونا کی وجہ سے موت ہوئی ہے اور وہ شدید پریشانی میں ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اگر امتحانات لئے جاتے ہیں تو اس کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچ جاتا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی طالبات ہیں جو اس طرح کا سنگین اقدام اٹھا سکتی ہیں لیکن ہمارے حکمران اس اہم ترین معاملہ کو سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں۔ 50 لاکھ سے زائد طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبر اور زور زبردستی سے ہمیں اپنے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔

آپ کی حمایت کون کون کر رہا ہے، والدین اور اساتذہ کیا کہتے ہیں؟

زینب احمد: اس وقت تو ہمیں میڈیا اینکرز، کچھ اپوزیشن کے سیاستدان اور طلبہ کی حمایت مل رہی ہے۔ فاروق طارق ہماری مسلسل رہنمائی کر رہے ہیں اور ہمارے ساتھ احتجاج کا حصہ ہیں، اس کے علاوہ والدین اور اساتذہ کی بھی ایک بڑی تعدادہمارے ساتھ ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود اور صوبائی وزرا کے بیانات کی وجہ سے اکثرطلبہ پر والدین بھی پریشر ڈال رہے ہیں۔ گمراہ کن بیانات کی وجہ سے والدین طلبہ پر یقین کرنے سے گریزاں ہیں۔ جہاں جہاں بھی والدین طلبہ کی بات پر یقین نہیں کر رہے، ان طلبہ پر دباؤ زیادہ ہے اور انہیں کی طرف سے سنگین اقدامات کا خدشہ بھی ہے۔ جن طلبہ کو والدین کی حمایت حاصل ہے وہ پھر بھی اپنے حق کیلئے لڑنے پر آمادہ ہیں۔

آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اساتذہ اور والدین سمیت اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود وزرا اور محکمہ تعلیم امتحانات لینے پر بضد کیوں ہیں؟

زینب احمد: میرے خیال میں 300 ملین کے فنڈز امتحانات کیلئے مختص کئے گئے ہیں اور یہ فنڈز امتحانات کے دوران طلبہ کو سہولیات دینے کی بجائے حکمرانوں اور افسروں کی عیاشیوں پر خرچ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ لگتی ہے کہ اس بھاری رقم پر ہاتھ صاف کرنے کیلئے طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑکیا جا رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں طلبہ کو اگلی کلاسوں میں ترقیاب کر دیا گیا ہے، یہی اصول ہم بھی چاہتے ہیں لیکن ہماری بات تسلیم کرنے کی بجائے مسلسل جھوٹے بیانات دیئے جا رہے ہیں جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ مالی مفادات پوشیدہ ہیں۔

اگر آپ کے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو پھر آپ کا کیا لائحہ عمل ہو گا؟

زینب احمد: ظاہر ہے ریاست طاقتور ہے۔ ہم نے اپنے حق کیلئے جدوجہد کی ہے اور جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے اور جبری طور پر ہم سے امتحانات لئے جاتے ہیں تو ہم کوشش کریں گے کہ اپنا قیمتی سال اور مستقبل بچانے میں کامیاب ہوں۔ تاہم ہم اب اپنے حقوق کی جدوجہد کو کسی طور پر ترک نہیں کرینگے۔ ہم نے یہ ضرور سیکھ لیا ہے کہ یہاں حق لینے کیلئے لڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ آج اگر ہم کامیاب نہ بھی ہو سکے تو مستقبل میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔