خبریں/تبصرے

کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوامِ متحدہ کی نئی رپورٹ جاری

حارث قدیر

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق بھارت و پاکستان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ ہائی کمشنر نے جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی آزادانہ عالمی تحقیقات کیلئے انسانی حقوق کونسل کے ممبر ممالک سے عالمی انکوائری کمیشن قائم کرنے کی اپیل کر دی ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفترسے شائع ہونے والی رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ گزشتہ بارہ ماہ میں متعدد سویلین اموات رپورٹ ہوئی ہیں جو گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ ہیں اور اقوام متحدہ کی گزشتہ سال جاری کی گئی رپورٹ میں اٹھائے گئے متعددخدشات کو دور کرنے کیلئے انڈیا اور پاکستان میں سے کسی نے بھی کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے۔ یہ رپورٹ پیر آٹھ جولائی کو اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کے مرکزی دفتر سے جاری کی گئی۔ رپورٹ بھارتی و پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ سال مئی سے رواں سال اپریل تک انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق ہے۔

ایک لمبے عرصہ کے بعد گزشتہ سال جون میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق پہلی رپورٹ شائع کی تھی۔

حالیہ رپورٹ تینتالیس صفحات پر مشتمل ہے جن میں سے پہلے تینتیس صفحات میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق خدشات کا اظہار کیا گیا ہے اور بہتری کیلئے سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ جبکہ دس صفحات پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بشمول گلگت بلتستان سے متعلق ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی اپنی ویب سائٹ پر شائع رپورٹ کے جائزے کے مطابق رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ رواں سال فروری میں پلوامہ کے مقام پر بھارتی سکیورٹی فورسزکو خودکش بمباری سے نشانہ بنائے جانے کے بعد کیسے کشیدگی میں شدت آئی ہے اور شہریوں کے انسانی حقوق بشمول زندہ رہنے کے حق پراس کے گہرے اثرات پڑے ہیں۔

مقامی سول سوسائٹی کی جانب سے جمع کیے گئے ڈیٹا کے مطابق رپورٹ کہتی ہے کہ ”2018ء میں تقریبا160 شہری مارے گئے ہیں جو گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ گزشتہ سال بھی تنازعہ سے جڑی سب سے زیادہ اموات رجسٹر ہوئی ہیں۔ 2008ء سے اب تک 586 افراد مارے جا چکے ہیں جن میں 267 مسلح گروپوں سے وابستہ افراد جبکہ 159 سکیورٹی فورسز اہلکار شامل ہیں۔“

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھارتی وزارت داخلہ نے دسمبر2018ء تک گیارہ ماہ میں جو کم سے کم اموات رپورٹ کی ہیں ان کے مطابق 37 عام شہری، 238 ”دہشت گرد“ اور 86 سکیورٹی فورسز اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

مقامی تنظیموں کی طرف سے رپورٹ کی گئی 160 سویلین اموات میں سے 71بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے مارے گئے۔ 43مبینہ مسلح گروہوں یا نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں اور 64 کنٹرول لائن کے علاقوں میں دو طرفہ شیلنگ اور فائرنگ سے مارے گئے۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں دو مسلح گروپوں پر بچوں کو بھرتی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے اور مسلح گروپ مبینہ طور پرجموں کشمیر میں سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد پر حملوں اور کم از کم چھ کارکنوں اور علیحدگی پسند قائدین کو قتل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اکتوبر 2018ء میں جب مقامی انتخابات کا شیڈول جاری ہوا تب مسلح گروپوں نے الیکشن میں شامل ہونے والے لوگوں کو دھمکیاں دیں اورامیدواران کو کاغذات نامزدگی واپس نہ لینے کی صورت سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔

رپورٹ میں کہا گیاہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے احتساب کا کوئی سلسلہ موجود نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ سکیورٹی فورسز اور مسلح گروپوں کے مابین انکاؤنٹرز سے عام شہریوں کی متعدد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ”فورسز کی بھارتی تعداد کے استعمال اور اس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں سے متعلق کسی بھی تازہ تحقیقات سے متعلق کوئی معلومات موجودنہیں ہیں۔ 2016ء میں ماورائے عدالت قتل سے متعلق شروع کی گئی پانچ تحقیقات کی موجودہ حالت سے متعلق بھی کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔ بھارتی ریاست نے 2017ء میں سویلین ہلاکتوں سے متعلق ایک بھی تفتیش شروع نہیں کی‘ نہ ہی کوئی استغاثہ قائم کیا گیا۔ یہ بھی نہیں ہوا کہ بھارتی سکیورٹی فورسز کو مجمع کنٹرول کرنے کے طریقہ کار یا قوانین میں کوئی تبدیلی کرنے کا کہا گیا ہو۔“

غیرقانونی حراست اور نام نہاد محاصرے اورآپریشن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا موجب اور سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔ جیسا کے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں خصوصی اختیارات کے حامل ادارے کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ”آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ 1990ء (افسپا)احتساب کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ افسپا کی سیکشن سات سکیورٹی فورسز اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی سے روکتی ہے تاوقتیکہ بھارتی حکومت قانونی کارروائی کیلئے خصوصی اجازت نہ دے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں جب سے افسپا کا قانون جموں و کشمیر میں نافذ کیا گیا ہے ایک بھی سکیورٹی اہلکار کے خلاف قانونی کارروائی کیلئے مرکزی حکومت نے اجازت نہیں دی۔ بھارتی فوج بھی فوجی عدالتوں میں ہونے والے ٹرائل کی معلومات دینے میں رکاوٹ بنتی رہی جہاں سپاہی ابتدائی طور پر مجرم قرار دیئے گئے لیکن بعد میں اعلیٰ فوجی ٹربیونلز میں سے انہیں رہا کر دیا گیا۔“

رپورٹ میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ”1990ء سے اب تک ٹارچر، انسانی تذلیل اور غیر انسانی سلوک کے مرتکب کسی بھی سکیورٹی اہلکار کے خلاف سول عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا گیا۔“

سکیورٹی فورسز کی وجہ سے اموات اورزخموں سے مفلوج ہونے والوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافے پر عالمی تشویش کے باوجود مجمع کو کنٹرول کرنے کیلئے شارٹ گن کا استعمال بدستور جاری ہے۔ جبکہ مزید تعیناتیاں کرتے ہوئے مزید اموات اور شہریوں کو شدید زخمی کیے جانے کا سلسلہ جاری رکھاگیا ہے۔ حالانکہ بھارت میں کسی اور جگہ ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیاہے کہ 2016ء کے وسط سے 2018ء کے آخر تک 1253 افراد سکیورٹی فورسز کی جانب سے آہنی چھروں کے استعمال کے باعث اندھے ہو چکے ہیں جن میں پچیس نومبر کوپیلٹ گن کی فائرنگ سے اندھی ہونے والی ایک انیس ماہ کی بچی بھی شامل ہے جو گزشتہ سال پچیس نومبر کو دائیں آنکھ میں پیلٹ لگنے سے اندھی ہوئی۔ مذکورہ معلومات شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال سرینگر سے حاصل کی گئی ہیں جہاں اکثریتی پیلٹ گن متاثرین کا علاج کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کنٹرول لائن کی دوسری طرف مختلف نوعیت کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں بسنے والے لوگ بھی بنیادی انسانی حقوق خاص طور پراظہار رائے کی آزادی اور پر امن مجلس و انجمن سازی سے محروم ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ رپورٹ میں اجاگر کیے گئے مسئلوں، خاص کر کے سخت مسئلہ پیدا کرنے والی قانونی پابندیوں کو دور کرنے سے متعلق کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

”انسداد دہشت گردی کے قوانین کا غلط استعمال کرتے ہوئے سیاسی اپوزیشن اور سول سوسائٹی کارکنان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے… قوم پرست اور آزادی پسند سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہے۔ مقامی انتظامیہ اور خفیہ ایجنسیاں انکے کارکنوں کو گرفتارکررہی ہیں اور دھمکا رہی ہیں۔ ان کے خاندان اور بچوں کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔“

مخصوص معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ”پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں صحافیوں کو ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ہراسگی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔“

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ”اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفترکو پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے شہریوں کی جبری گمشدگیوں، خفیہ حراست جیسے واقعات کی معتبر معلومات ملی ہیں۔ تقریباً تمام کیسوں میں متاثرین نے الزام عائد کیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں گمشدگیوں کی ذمہ دار ہیں۔“

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کی جانب سے جون 2018ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کی سفارشات پر نہ تو بھارتی حکومت اور نہ ہی پاکستان کی طرف سے کوئی واضح اقدام اٹھایا گیا ہے۔ رپورٹ میں دوبارہ وہی سفارشات بشمول چند اضافی تجاویز دہرائی گئی ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سینتالیس ممبرممالک سے بھی نوٹس لینے کی اپیل کی گئی ہے کہ اگر ممکن ہو تو کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی آزاد انہ عالمی تحقیقات کیلئے ایک انکوائری کمیشن قائم کیا جائے۔

دوسری طرف خود اقوام متحدہ مسائل کی نشاندہی تو کرتی رہتی ہے لیکن مسئلہ کشمیر سے لے کے مسئلہ فلسطین جیسے تنازعات تک کو حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ بالخصوص امریکہ، یورپ اور اسرائیل کی سامراجی عالمی اور علاقائی ریاستوں کے سامنے یہ ادارہ نہ صرف بے بس بلکہ کئی حوالوں سے ان کے ہاتھوں میں کھیلتا نظر آتا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔