خبریں/تبصرے

نور مقدم قتل کیس: ملزمہ کی درخواست ضمانت اسکے عورت ہونے کی وجہ سے منظور

لاہور (جدوجہد رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے 27 سالہ خاتون نور مقدم کے بہیمانہ قتل کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی ہے۔ ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے جج نے ریمارکس دیئے کہ کیس کے میرٹ کی بنیاد کی بجائے ملزمہ کے عورت ہونے کی بنیاد پر انہیں ضمانت دے دیتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹنے مشاہدہ کیا کہ دو ملزمان عصمت آدم جی اور ذاکر جعفر (جو مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین ہیں) کو فری ٹرائل کا حق دیا جانا چاہیے۔

’ٹربیون‘ کے مطابق جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ ملزم کے والدین اکٹھے تھے جبکہ بیٹے کے ساتھ ان کی بات چیت بھی ہوئی اور بظاہر ماں اس واقعے کے بارے میں باپ جتنا ہی جانتی تھی۔ جسٹس منظور کا مزید کہنا تھا کہ ”آئیے ہم اسے اس بنیاد پر ضمانت دیتے ہیں کہ وہ ایک عورت ہے۔ آئیے میرٹ کی بنیاد پر اس معاملے میں نہ جائیں۔“

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے ضمانت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا تھا۔

والد اور والدہ نے اپنے وکیل کے ذریعے سپریم کورٹ میں دو الگ الگ درخواستیں دائر کر رکھی تھیں، تاہم والد نے اپنی درخواست ضمانت واپس لے لی۔ پاکستان کے ملٹری افیئرز کی ماہر سمجھی جانیوالی مصنف اور محقق عائشہ صدیقہ نے عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور فیصلے کے پیچھے موجود طبقاتی کردار کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

عائشہ صدیقہ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ”سپریم کورٹ کے جسٹس بندیال نے عصمت جعفر کو ضمانت دی ہے کیونکہ وہ ایک خاتون ہیں۔ یہ وقت ہے کہ سپریم کورٹ اسے ترجیح کے طور پر استعمال کرے اور جیل میں موجود ہر عورت کو رہا کیا جانا چاہیے۔ اس میں یہ بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ آسیہ بی بی کو ایک خاتون ہونے کے باوجود اتنا عرصہ جیل میں کیوں رکھا گیا، یا عصمت کوئی زیادہ عورت ہے؟ لگتا ہے پیسہ چلتا ہے۔“

Roznama Jeddojehad
+ posts