ناصر اقبال
راقم کی شعوری سیاسی زندگی کا آغاز 2001ء سے لیبر پارٹی پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہوا۔ 1997ء میں پارٹی کی بنیاد رکھی گئی اور راقم کو اسکے بانی ممبر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جزوقتی اور بعدازاں 2001ء سے 2008ء تک کل وقتی کارکن ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ لیبر پارٹی پاکستان2001ء تک اپنے ارتقا کا خاصا سفر تیزی سے طے کر چکی تھی۔ ہفت روزہ مجلہ مزدور جدوجہد، مزدور ونگ، کسان ونگ، خواتین اور یوتھ ونگ، نیشنل کمیٹی، صوبائی و ضلعی کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ پارٹی پاکستان میں حقوق کی تحریک اور دیگر سول سوسائٹی کے محاذوں پر صف اوّل میں متحرک تھی۔ پارٹی اگرچہ اپنے حجم میں کم لیکن بااثر اور متحرک ہونے میں بڑھ کر تھی اور گرفتاریاں، قیدوبند جیسی قربانیوں سے بھی گزر چکی تھی۔ ترقی پسندی کے دائرہ کار میں اپنے دور کی کم و بیش سب سے بڑی پارٹی شمار کی جاتی تھی۔ پارٹی کی طرف سے سوشلسٹ سکول اور سٹڈی سرکل بھی باقاعدگی سے منعقد کیے جاتے۔ پارٹی ممبران میں باہمی بحث و مباحثہ کا کلچر عام تھا۔ رائے اور اختلاف رائے کے مسئلہ پر پارٹی قیادت کی طرف سے کوئی قدغن نہ تھی۔ پارٹی عالمی سطح پر مختلف ترقی پسندی گروپس اورپارٹیوں سے متعارف و منسلک بھی تھی۔ ان میں یورپ اورلاطینی امریکہ کے گروپ سرفہرست تھے۔ ساؤتھ ایشیا میں پارٹی باقاعدہ افغانستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال میں برپا ہونے والی انقلابی اور حقوق کی تحریکوں کا حصہ رہی اور خاص طورپر نیپال میں 90ء کی دہائی سے شروع ہونے والی کامیاب کمیونسٹ تحریک کے ساتھ بھی وابستہ رہی۔ واضح رہے کہ یہاں پارٹی کی خدمات کا ذکر نوحہ کنائی کے طور پر نہیں کیا جا رہا بلکہ 9/11 کے واقعہ سے قبل اور بعد کے حالات کو واضح کرنا ہے۔
9/11 کے بعد دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی فکری اتھل پتھل کا عمل شروع ہوا۔ چونکہ ترقی پسند تحریک کسی سرمایہ، جاگیر یا گروہی سیاست کی بنیاد پر نہیں بلکہ فکری اساس پر ہی کھڑی ہوتی ہے اسی لیے پاکستان میں ترقی پسند تحریک جوپہلے ہی سے یکجا نہ تھی بعدازاں مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ مثال کے طورپر لیبر پارٹی پاکستان فکری طورپر دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی۔ ایک دھڑے کاموقف تھا کہ انتہاپسندی ایک حقیقت ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے حجم اور تباہ کاریوں میں اضافہ ہوگا اوراس صورتحال میں ترقی پسند قوتوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا میں اپنے حصہ و جثہ کے مطابق اس کا مقابلہ کریں جبکہ دوسری طرف کا یہ موقف تھا کہ انتہاپسندی کا اپنا کوئی وجود نہیں۔ یہ سامراج اور اتحادیوں کا ہی پھلایا ہوا محض غبارہ ہے اور وہ حسب ضرورت اس میں ہوابھر رہے ہیں اور بعد میں پھوڑ کر ہوا نکال دیں گے اور دنیا سے انتہاپسندی خودبخود ختم ہو جائیگی۔ بعدازاں یہ بحث فری ٹریڈ اور فیئر ٹریڈ سے ہوتی ہوئی بالآخر 2004ء میں پارٹی کے ٹوٹنے پر ختم ہوئی۔ یہاں پر اگر غور سے دیکھا جا ئے تو دھڑا دوئم سازشی نظریات کاشکار نظر آتا ہے۔ سیاسی و سماجی تبدیلی کے ادنیٰ طالبعلم ہونے کے ناطے راقم کی ناقص رائے کے مطابق مذکورہ ٹوٹ پھوٹ اورمایوسی کی واضح وجہ سازشی نظریات کا سیلاب اور ارتقائی نظریات سے دوری ہے۔ بین اسی طرح میڈیا، قدامتی و رجعتی سیاسی حکومتی حلقے، نظریہ دان بھی اسی طرح تقسیم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کسی نے اسے اپنی جنگ قرار دیا (مشرف حکومت) تو کسی نے غیروں کی لڑائی اپنے گلے ڈالنے اور انتہا پسندوں کو اپنا بھائی تک قرار دیا۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ آج تک یعنی 2019ء میں بھی اسی طرح تقسیم ہے اور گومگو والی صورتحال سے دو چار ہے۔ جہاد افغانستان اوراسلامی انقلاب کی حمایت میں یکجا رجعتی حلقے بھی اس ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ نہ رہ سکے۔ شروع شروع میں فتوے بازی کے ذریعے سے خود کو جنگ سے الگ رکھنے کی کوششیں کی گئیں اورکسی نے طوطا چشمی سے کام لیا۔ نتیجتاً کچھ علما حضرات خود کش حملوں میں شہید ہوئے۔ کچھ بمشکل بچ پائے اور کچھ علما کامیابی سے بیرون ملک بھی فرار ہوئے۔
اسی تناظر میں ہماری پارٹی بھی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوئی۔ پیارے کامریڈ بچھڑنے کے بعد دربدر بھی ہوئے اور بعدازاں باقی ماندہ پارٹی عوامی ورکرز پارٹی کا حصہ بنی جو کہ اس وقت پاکستان کی لیڈنگ لیفٹ پارٹی کے طورپر پہچان رکھتی ہے۔ بحرحال سیاسی توڑ پھوڑ کے اس عمل سے راقم کاحاصل وصول صرف سازشی اورارتقائی نظریات سے آگاہی کی صورت میں ہوا۔ بقول شری کبیر داس ”مورکھ کو کچھ حاصل ہونے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا اور حاصل نہ ہونے کا دکھ البتہ جاتے جاتے ایک نئی پیاس ضرور دے دیتاہے۔“ چنانچہ مزید جانکاری کا سفر شروع ہوتاہے اور بڑے دلچسپ حقائق سے واسطہ پڑتا ہے۔
ہم یہاں یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ ہمارا نقطہ نگاہ یا مخاطب صرف ترقی پسند تحریک ہے اور محسوسات ہمارے ذاتی ہیں اور غلطی کا امکان بھی خاصہ ہے۔ لہٰذا دوستوں سے معذرت اور درستگی کی استدعا ہے۔ ہمارا حلقہ احباب تقریباً ترقی پسند حضرات پر ہی مشتمل ہے اور روزانہ کی بات چیت سے ہم اس نتیجے پرپہنچے کہ ماسوائے چند ایک کے تحریک کا غالب حصہ سازشی نظریات کا شکار ہے البتہ کچھ دوست عام سازشی نظریات میں ترمیم کر کے کام کو چلاتے ہوئے بھی پائے گئے۔ مثلاً مولوی حضرات جہاں یہود و ہنود کو سازش کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں وہاں ترقی پسندوں نے انہیں نکال کران کی جگہ سرمایہ داری گروہ، ریاستی ادارے اور حتیٰ کہ سرمایہ داری کے بحران کو فٹ کر کے تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے وغیرہ۔ یوں سازشی و ارتقائی نظریات کے حوالے سے شیخ و رند ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
اسی سلسلے میں پروفیسر جمیل عمر مرحوم سے چند ملاقاتوں کا احوال بھی قابل ذکر ہے۔ پروفیسر صاحب ایک صاحب رائے دانشور مختلف سائنسی علوم پر مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ انتھک سیاسی و سماجی راہنما اور کارکن تھے۔ مرحوم 2009ء میں چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے چنانچہ نظریہ ارتقا اورشطرنج ہماری قربت کا سبب بنی۔ مرحوم شطرنج کے اعلیٰ درجے کے کھلاڑی بھی تھے۔ بقول پروفیسر صاحب کے پاکستان کی ترقی پسند تحریک مجموعی طورپر ارتقائی نظریات یا سیاسی طریقہ کار و نظریہ میں ارتقائی اصولوں کے اطلاق سے قطعی ناواقف ہے البتہ اگر کہیں ارتقائی نظریات سے افادہ کیا گیا ہے تو لامارک کے نظریہ ارتقا کو فوقیت دی گئی ہے جو کہ ایک متروک نظریہ ہے۔ یہاں ایک اور دلچسپ بحث بھی موجود ہے کہ پاکستان میں ڈارون کے نام پر لامارک کے نظریہ کو فروغ دیا گیا۔ چنانچہ ہم دونوں نے ارتقائی نظریات کے پھیلاؤ کے لیے ارادہ باندھا۔ احباب کا ایک آدھا مشاورتی اجلاس بھی بلایا گیا جس کی صدارت پروفیسر عزیزالدین احمد نے کی۔ اجلاس میں کچھ سلیبس وغیرہ بھی تجویز کیا گیا مگر بوجہ اس پر کوئی خاطرخواہ کام نہ ہوسکا۔ 2014ء میں پروفیسر صاحب کی ناگہانی وفات کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوا۔ اسی تلاش کے دوران راقم کو چلی کے مشہور ترقی پسند شاعر اور راہنما پابلو نارودا کی ایک تنقیدی تحریر بھی پڑھنے کو ملی۔ پابلو لکھتے ہیں کہ ترقی پسند ادب اور خاص طورپر تیسری دنیا میں لکھا جانے والا ادب اس مفروضے کی بنا پر لکھا گیا ہے کہ انسانوں کے آبا و اجداد بھی انسان ہی تھے اور اس بات کاشائبہ بھی نہیں ملتا کہ حیوانات نباتات اور جمادات بھی کبھی اجداد کا حصہ رہے ہیں۔ یہاں پابلو نے ایک بڑا سوال کھڑا کردیا ہے۔ واضح رہے کہ پابلو کی تنقید ترقی پسند ادب کے حوالے سے ہے اور ہم جیسے پراپیگنڈا پر ہی یقین کرنے والے سیاسی کارکنوں کو برا منانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔
انجمن ترقی پسند منصفین کو چاہیے کہ وہ پابلو کے سوال کامناسب جواب دینے کی کوشش کرے۔ علاوہ ازیں ہمارے ترقی پسند اساتذہ بھی کہیں کہیں ارتقائی نظریات کی مخالفت کرتے بھی پائے گئے۔ ان کے خیال میں ارتقائی نظریات سامراج کو مضبوط کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ’Evolution‘ کو ’Revolution‘ کی ضد قرار دے کر رد کرتے اور فرماتے کہ ارتقا این جی اوز کا مسئلہ ہے اور انقلابی لوگوں کو ارتقائی نظریات سے دور رہنے کی ضرورت ہے وغیرہ۔ اس طرح کی 72 سالہ پریکٹس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے کامریڈوں کی اکثریت مولویوں کی طرح سوچتی ہے اور جن لوگوں نے سازشی نظریات کا مقابلہ کرنا تھا وہ سوشل میڈیا کی خبروں پر یقین کر کے لایعنی باتوں کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔