فاروق سلہریا
بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور بھارتی کرکٹ میں اوتار کا درجہ رکھنے والے مہندر سنگھ دھونی نے 3 اگست سے 3 ستمبر تک ٹیم کے ہمراہ ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے کی بجائے کشمیر میں فوجی ڈیوٹی پر جانے کو ترجیح دی۔ وہ 31 جولائی سے 15 اگست تک کشمیر میں فرائض سر انجام دیں گے۔ یاد رہے مہندر سنگھ دھونی کو 2011ء میں بھارتی فوج کی طرف سے اعزازی لیفٹیننٹ کرنل کا عہدہ دیا گیا تھا۔بھارتی فوج کی طرف سے جاری ہونے والی اطلاعات کے مطابق مہندر سنگھ دھونی ’106 Territorial Army Battalion‘ کے ہمراہ پٹرولنگ، گارڈ اور پوسٹ ڈیوٹی کے لئے تعینات کیے جائیں گے۔
اس خبر کو بعض بھارتی اخبارات میں نمایاں جگہ دی گئی۔ 28 جولائی کے ہندوستان ٹائمز کے مطابق سابق بھارتی بلے باز اور اس سال بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا رکن بننے والے گوتم گمبیر نے مہندر سنگھ دھونی کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ”میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ دھونی نے اگر وردی پہننی ہے تو اسے ہندوستانی فوج کے ساتھ وقت گزارنا چاہئے۔“ گوتم گمبیر کے مطابق مہندر سنگھ دھونی کے اس عمل سے بھارتی نوجوانوں کو یہ تحریک ملے گی کہ وہ ہندوستانی فوج میں شامل ہوں۔ ان کے بقول مہندر سنگھ دھونی کے اس اقدام سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے مخلص ہیں۔
کرکٹ کی ملٹرائزیشن کا بد ترین بھارتی اظہار اس سال کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل مارچ میں دیکھنے میں آیا جب ہندوستان میں جاری آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے دوران ایک روزہ میچ کے دوران پوری بھارتی ٹیم نے فوجی ٹوپیاں پہنیں۔ 8 مارچ کو رانچی میں ہونے والے اس میچ میں فوجی ٹوپیاں پہن کر بھارتی ٹیم نے پلوامہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کے ساتھ یہ علامتی اظہار ِیکجہتی کیا تھا۔ اس موقع پر بھارتی ٹیم نے اپنی میچ فیس پلوامہ دھماکے کا شکار ہونے والے فوجیوں کے خاندانوں کے لئے دان کرنے کا اعلان کیا۔ نہ صرف بھارتی کرکٹ ٹیم نے فوجی ٹوپیاں پہنیں، کمنٹری باکس میں سنیل گواسکر بھی فوجی ٹوپی پہنے دیگر کمنٹیٹرز کو فوجی ٹوپیاں بانٹتے دکھائی دئیے۔ گو کمنٹری باکس میں موجود آسٹریلین کمنٹیٹر نے تو ٹوپی نہیں پہنی مگر تمام بھارتی کمنٹیٹرز فوجی ٹوپی پہن کر کمنٹری کرتے رہے۔ رائٹرز کے مطابق فوجی ٹوپی پہننے کا خیال مہندر سنگھ دھونی نے پیش کیا تھا (کوئی حیرت کی بات؟)۔
اتفاق سے بھارت یہ میچ ہار گیا جس پر پاکستانی ناقدین نے جی بھر کر میمز بنائیں۔ سرکاری سطح پر پاکستانی کرکٹ بورڈ نے عالمی کرکٹ بورڈ (آئی سی سی) سے احتجاج کرتے ہوئے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ بھارتی کرکٹرز کا فوجی ٹوپیاں پہننا آئی سی سی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ آئی سی سی قوانین کے مطابق کوئی بھی ٹیم صرف اپنے ملک کی نمائندگی کرنے والی ٹوپی یا ٹی شرٹ پہن سکتی ہے۔ پاکستانی اعتراض بالکل درست تھا لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس بابت پاکستان کا اپناریکارڈ بھی بھارت سے زیادہ اچھا نہیں ہے۔
پاکستانی کرکٹ کی ملٹرائزیشن
پچھلے سال اپریل میں واہگہ اٹاری سرحد پر ہونے والی پرچم لپیٹنے کی تقریب کے موقع پر پاکستانی کرکٹر حسن علی پریڈ ایریا میں پہنچ گئے اوربھارتی بارڈر فورس کو للکارتے ہوئے نہ صرف وکٹ لینے کے بعد کے اپنے مخصوص انداز میں خوشی کا اظہار کیا بلکہ پہلوانوں کے انداز میں اپنی ران پر ہاتھ مار کر بھارتی فوج کو للکارتے ہوئے نظر آئے۔ اس واقعے پر نہ صرف ہندوستان نے احتجاج کیا بلکہ بھارتی میڈیا میں اسے خوب اچھالا گیا۔ حسبِ توقع پاکستانی میڈیا میں حسن علی کے اس عمل کو خوب نمایاں کیا گیا۔ حسن علی کے جواب میں بھارت نے وراٹ کوہلی کو اسی تقریب میں بلا لیا۔ گووراٹ کوہلی نے حسن علی کے جواب میں بھنگڑا تو نہیں ڈالا مگر انہوں نے بھارتی فوج کی ٹوپی ضرور سر پر سجا رکھی تھی۔
اس سے قبل2016ء اور دوبارہ 2018ء میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے)میں جسمانی فِٹنس کی تربیت لی۔ 2016ء کے پی ایم اے سیشن کے بعد پاکستانی ٹیم نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران سنچری بنانے کے بعد پاکستانی کپتان نے فوجی انداز میں جب سیلوٹ کیا اور ڈنڈ نکالے تو ان کے پاکستانی مداحوں میں انہیں خاصی پذیرائی کی۔ اس سیریز کے دوران پاکستانی ٹیم نے سیلوٹ اور ڈنڈ نکالنے کوخوشی کے اظہار کے لئے اپنی علامت بنا لیا۔
اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ میں کھیلے جانے والے گزشتہ عالمی کرکٹ کپ میں ویسٹ انڈیزکے خلاف میچ میں پاکستانی اوپنر امام الحق شیلڈن کوٹرل کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ امام الحق کو پویلین کی راہ دکھاتے ہوئے کوٹرل نے فوجی سیلوٹ کیا۔ کوٹرل ماضی میں فوج میں رہ چکے ہیں۔
آئی سی سی کا شرمناک کردار
افسوس کی بات یہ ہے کہ آئی سی سی منافقت، بے اصولی اور دوہرے معیار سے کام لیتی ہے۔ اس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ جب ہندوستان کے خلاف پاکستان نے شکایت کی تو آئی سی سی کا جواب تھا: بھارتی بورڈ نے فوجی ٹوپیاں پہننے کی پیشگی اجازت لی تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ پلوامہ میں مارے جانے والے فوجیوں کے لئے چندہ جمع کیا جا سکے۔
بات یہ نہیں کہ مقصد کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ آئی سی سی کے اصولوں کی خلاف ورزی تھی یا نہیں؟ چونکہ بھارت کرکٹ کی سب سے اہم مالیاتی منڈی ہے لہٰذا آئی سی سی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی قانون کی دھجیاں اڑی یا نہیں۔
یاد رہے برطانوی کرکٹر معین علی کو اسی آئی سی سی نے فلسطین کی حمایت میں رِسٹ بینڈ پہننے پر سزا دی اور ان پر مختصر عرصے کے لئے پابندی لگا دی تھی (ویسے معین علی جیسے باریش انقلابیوں کی انقلابیت بھی قابلِ رشک ہے۔ انہیں فلسطین تو نظر آتا ہے مگر یمن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ فلسطین کی حمایت سے کیرئیر کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا نہ ہی فین کلب میں کوئی برا مناتا ہے)۔
اسی طرح پاکستان یا ویسٹ انڈیز کی جانب سے فوجی علامات پر تو آئی سی سی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، نہ ہی آئی سی سی کو اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ کھلاڑیوں کے یونیفارم مزدور دشمن اور ماحول دشمن ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہار بن گئے ہیں مگر اگر کسی دن کسی کھلاڑی نے چے گویرا کی شرٹ پہن لی تو اس پر جرمانہ اور پابندی عائد کیے جائیں گے جبکہ کارپوریٹ میڈیا بھی وہ شور مچائے گا کہ کان پھٹ جائیں گے۔
اختتامیہ
پہلی بات: جوں جوں برصغیر کی سیاست میں جنگی جنون در آیا ہے، توں توں کلچر کے مختلف پلیٹ فارم بھی جنگجو انہ رنگ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اگرنوے کی دہائی میں بھارت کے اندر بی جے پی کا ابھار اور بالی ووڈ میں پاکستان مخالف فلموں کا چلن ایک ساتھ دیکھنے میں آتا ہے تو پاکستان میں بھی پی ٹی وی اور لالی ووڈ پر جہاد کا پرچار کرنے والے ڈراموں اور فلموں کا چلن اَسی اور نوے کی دہائی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بہ الفاظ ِ دیگر حکمران طبقہ ثقافت کو بھی اپنی سیاست کا آلہ کار بنا دیتا ہے۔ ماضی میں اگر فلم اور ڈرامہ جنگی جنون پھیلانے کے لئے ان دونوں ملکوں میں استعمال ہوا تو اب کرکٹ کو اسی رنگ میں رنگا جا رہا ہے۔
دوم: ہمیں کرکٹرز کی جانب سے کوئی مزاحمت نظر نہیں آتی۔ الٹا وہ فوجیوں سے زیادہ فوجی بنے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ معاشرے میں پائے جانے والے غالب نظریات کھلاڑیوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات اہم ہے کہ کسی بھی قسم کی مزاحمت کا مطلب ہے کہ آپ کا کیرئیر ختم ہو سکتا ہے۔ خاص کر بھارت میں کرکٹر اتنا کرکٹ فیس سے نہیں کماتے جتنا کمرشل اشتہاروں سے کماتے ہیں۔ جنگی جنون کے ماحول میں گوتم گمبیریا مہندر سنگھ دھونی بننا زیادہ فائدہ مند ہے۔ امن کی بات کرنا کروڑوں کا نقصان ہے۔
سوم: آئی سی سی کا کردار منافقت اور دوغلے پن کا نمونہ ہے۔ کرکٹ اسٹیبلشمنٹ کو جنگی جنون یا کمرشل ازم سے کوئی مسئلہ نہیں۔ آئی سی سی کو منافع سے غرض ہے۔ امن سے کوئی دلچسپی نہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔