نقطہ نظر

”یہ وہ پاکستان نہیں جسے میں جانتی ہوں“: ڈاکٹرانیتا واعظ سے گفتگو

قیصر عباس

کچھ عالمی دانشور ملکوں کا ایک یا دوبار ہی دورہ کر کے اس کے محقق ہونے کے دعوے دار بن جاتے ہیں۔ لیکن امریکی سکالر ڈاکٹر انیتا واعظ اس قسم کی دانشور ہر گز نہیں ہیں۔ وہ پاکستان اور اس کے مسائل پر عرصے سے لکھ رہی ہیں اور گزشتہ چالیس سالوں سے پاکستان جاتی ہیں، لوگوں کے درمیان گھل مل جاتی ہیں، ان کی تقریبات اور میلوں میں شرکت کرتی ہیں۔ یہی نہیں وہ اردو بھی بولتی ہیں تاکہ لوگوں سے ان کی زبان میں گفتگو کریں اور پھر ان کے مسائل کا تجزیہ کریں۔

ڈاکٹر انیتا نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے سے سماجی علوم میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ایک عرصے سے یونیورسٹی آف اوریگن میں بین الاقوامی امور کی پروفیسر ہیں۔ وہ اب تک پاکستان کی سیاست، معاشرت اور خواتین کے مسائل پر آٹھ کتابیں شائع کر چکی ہیں۔ ان میں اندرون شہر، لاہور کی ملازم پیشہ خواتین کے مسائل، جدیدیت اور صنفی حقوق، طاقت اور سول سوسائٹی کے علاوہ دیگر موضوعات پر تصانیف شامل ہیں۔

ان کی نئی کتاب Countering Violent Extremism in Pakistan: Local Actions, Local Vioces (Oxford University Press) جو پچھلے سال ہی شائع ہوئی ہے، پاکستان کی اس تصویر سے پردہ اٹھا تی ہے جو ابھی تک ہماری نظروں سے اوجھل تھی۔ کتاب شدت پسندی کے خلاف عام لوگوں کی خاموش مزاحمت پرایک تحقیقی نظر ڈالتی ہے۔ اس اچھوتی تصنیف میں وہ فنون لطیفہ، شاعری اور تعلیمی اداروں کے ذریعے کی جانے والی کوششوں پر سیر حاصل تبصرہ کر رہی ہیں۔ یہ کتاب گھر میں بیٹھ کر نہیں لکھی گئی، ملک کے کونے کونے میں عام لوگوں، دانشوروں، مردوں اور عورتوں سے ملاقاتوں کے بعد شائع کی گئی ہے۔ ڈاکٹر انیتا نے درجِ ذیل گفتگو میں اس تصنیف اور اس سے منسلک سیاسی اور معاشرتی امور پرروشنی ڈالی ہے۔

آپ کی نئی کتاب پاکستان میں جاری شدت پسندی کے خلاف عوامی ردعمل پر بھرپور نظر ڈالتی ہے جو عام لوگوں کی پرامن مزاحمت پر ایک اہم تحقیق بھی ہے۔ آپ کو اس موضوع پر قلم اٹھانے کا خیال کیوں کر آیا؟

جیسا کہ میں نے اپنی کتاب میں بھی کہا ہے کہ اس تحقیق کے پس پشت کئی محرکات تھے۔ اؤل تو یہ کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ میں جو کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے وہ صرف آدھی حقیقت پر مبنی ہے۔ جو لوگ پاکستان پر کام کر رہے ہیں اکثر انہیں نہیں معلوم کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔

دوسری بات یہ کہ جو کچھ ملک کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ میرے مشاہدے کے بالکل برعکس ہے۔ میں نے جو کچھ تحریر کیا اس میں ان لوگوں کو فوقیت دی ہے جنہیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

اس تحریک کا ایک اورمحرک دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور میں ہونے والا خود کش حملہ تھا۔ میرے نزدیک یہ وہ پاکستان نہیں تھا جسے میں جانتی ہوں۔ حملہ آور ہر بچے سے پوچھتے تھے کہ ان کے والد کیا کرتے ہیں اور فوج سے منسلک بچوں کو گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا۔ یہ سب میرے لئے ناقابل یقین تو تھا ہی لیکن سب سے زیادہ حیران کن سرکاری رویہ تھا۔ نواز شریف کا رویہ بہت عجیب تھا، انہوں نے سکول کا دورہ تک نہیں کیا۔

لیکن اس واقعے پر عام پاکستانی شہریوں کا رد عمل بہت مختلف رہا۔ عام تاثر یہ تھا کہ ہمیں ملک کو اس دہشت گردی سے باہر نکالنا ہو گا، یہ قومی اقدار کے خلاف ہے۔ میں پورے ملک میں جاری اس رد عمل کو سمجھنا چاہتی تھی۔ شروع میں تو میں خود ان موضوعات سے ناواقف تھی جو بعد میں میری کتاب کا حصہ بنے۔ اس مرحلے پر میں نہیں جانتی تھی کہ شاعری اور موسیقی کے ذریعے بھی احتجاج جاری ہے۔ یہ سب تو مجھے اپنے دوروں میں معلوم ہوا اور میں نے ان شعبوں پر قلم اٹھایا۔ جن لوگوں سے میں نے بات کی ان میں سے اکژ دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ لوگ وسیع پیمانے پر شدت پسندی کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ استقلال اور خلوص دل سے موسیقی، شاعری اور دوسرے طریقوں سے شدت پسندی کو رد کر رہے اور اسی لئے وہ میری تحقیق کا محور بنے۔

اس تصنیف میں آپ کا تحقیقی طریقہ کارلوگوں سے انٹرویو، غیر رسمی گفتگو اور سماجی سرگرمیوں کے ذاتی مشاہدے پر مشتمل ہے۔ یہ طریقہ کار اس قسم کے تحقیقی کام کے لئے کس حد تک موزوں ہے؟

میں ان ہی تحقیقی طریقوں سے ان موضوعات پر کام کر سکتی تھی۔ سماجی امورکے ماہر ہونے کی حیثیت سے ہم عام لوگوں کے طرز عمل اور ان کے رویوں کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں لوگوں سے گفتگو اور شائع شدہ مواد کو تحقیق کی بنیادبنایا جاتا ہے۔ اگر آپ لوگوں کی آرا جاننا چاہتے ہیں تو ان سے بات چیت کرنا ہو گی۔ اس کے علاوہ میں نے وسیع مطالعہ بھی کیا جن میں کتابیں، مضامین اور ادبی مواد شامل ہے۔ کتاب کا عنوان شروع ہی سے میرے ذہن میں تھا۔

کئی عالمی محقق اور ادارے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی سے کس طرح نبرد آزما ہوا جائے اور اسے ختم کیا جائے۔ اکژبیرونی ادارے فنڈنگ کے ذریعے اسی سوال کا جواب حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے ہی طریقوں کو آزما تے ہیں اور مقامی لوگوں کی تحریکوں اور ان کے تجربات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ میں نے اسکے برعکس لوگوں کے ہی تجربات اور ان کی کوششوں پر تحقیق کی تاکہ یہ جان سکوں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی ثقافت اور روایات کی پاسداری کرتے ہوئے دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

تو کیا آپ کو بھی اس تحقیقی کام کے لئے کسی فنڈنگ کا سہارا لینا پڑا؟

جی ہاں، اس تحقیق کی ابتدائی فنڈنگ تو میر ے ادارے، یونیورسٹی آف اوریگن کی جانب سے تھی۔ پھر مجھے ایک نجی ادارے Harry Frank Guggelnheim Foundation, (HFG) سے فنڈنگ حاصل ہوئی جس کا بینادی مقصد ”علم کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ“ کرنا ہے۔ میں سرکاری گرانٹ حاصل کرنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ لوگوں کے تحفظ کے پیش نظر اس قسم کی فنڈنگ صرف اسلام آباد اور کراچی جیسے بڑے شہروں تک ہی محدود ہوتی ہے۔ لیکن اس نجی گرانٹ میں اس قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی اور مجھے ہر جگہ آزادی سے جانے کا موقع ملا۔ اس رقم سے میں ایک پرانی کار خرید سکی اور میرے ڈرائیور حسنین رشید مجھے حفاظت سے ہر جگہ لے جاتے رہے۔

اس کتاب میں چار موسیقاروں کا تذکرہ بھی ہے جن میں سندھ کے سیف سمیجو اور پنجاب کے تیمور رحمان پاکستانی موسیقی اور مغربی موسیقی کے امتزاج میں مہارت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب پشتو موسیقار کرن خان اور گلاب خیل آفریدی اپنی لوک موسیقی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں ان دونوں اقسام میں کون سی موسیقی شدت پسندی کی مزاحمت زیادہ موثر طریقے سے کرتی ہے؟

یہ سب ہی موثر کو ششیں ہیں اور یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سی تحریک زیادہ کامیاب ہے۔ گلاب خان آفریدی ایک منفرد اور جدت پسند موسیقار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رباب اور اس کی موسیقی خیبر پختون خواہ کے ہر گاؤں میں انتہائی مقبول ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ”مشہورکیا گیا ہے کہ پٹھان بندوق کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ تصور کہاں سے آیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم بندوق کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں، رباب کے بغیر نہیں۔“ اس طرح وہ موسیقی کے ذریعے اپنی ثقافت کو زندہ رکھ رہے ہیں۔

آپ نے اس تحقیقی کام کی تکمیل میں کچھ ایسے لوگوں سے بھی ملاقات کی جو انتظامیہ کی نظروں میں مقبول نہیں ہیں۔ اس دوران کیا آپ کو دھمکیوں یا سنسرشپ کا سامنا بھی کرنا پڑا؟

جی نہیں۔ یہ ضرور یاد رکھئے کہ میں گزشتہ چالیس سال سے پاکستان جارہی ہوں۔ میں اب جانتی ہوں کس طرح بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا تحقیق کام جاری رکھوں اور کسی کی دکھتی رگ پر ہاتھ بھی نہ رکھوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ پشتون تحفظ موومنٹ، پی ٹی ایم میرے لئے شجر ممنوعہ ہے جس کے بارے میں لکھنا مشکل ہے۔ اس پس منظرمیں میں نے فیصلہ کیا کہ میں تحریک کی اعلیٰ قیادت کے بجائے عام اراکین سے بات کروں۔ ان لوگوں کو میں عرصے سے جانتی بھی ہوں اور کسی کو اس بات پر اعتراض بھی نہیں ہو سکتا کہ میں نے ان سے کیوں بات کی۔ اس کے علاوہ میں نے تحریک کے بانی منظور پشتین اور دوسرے رہنماؤں کے مضامین اور تبصروں کا مطالعہ بھی کیا جن میں سے کچھ نیویارک ٹائمز میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔

آپ کی تحقیق میں بلوچستان یا اس کے لوگ شامل نہیں کئے گئے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟

میں موجودہ سیاسی حالات کی بنا پر بلو چستان نہیں گئی۔ میں وہاں لوگوں سے بات کر کے ان کے لئے مشکلات پیدا کرنا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن میں نے کچھ پشتو شاعروں سے بات ضرور کی جن کا تعلق بلوچستان سے ہے اور وہ اب پشاور یا اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔

کیا کتاب میں شامل مزاحمتی شاعری کے تجزیے سے یہ نتیجہ اخذکرنا درست ہے کہ آج کی پشتو شاعری اپنے سماج کے بارے میں اس غلط تاثر پر احتجاج کر رہی ہے کہ یہ وہ ایک متشدد معاشرہ ہے۔ جب کہ سندھی شاعری بنیادی طور پر تصوف اورلوک روایات کی شاعری ہے؟

یہ بہت اچھا سوال کیاآپ نے کیونکہ یہاں آپ ایک ہی ملک میں دو مختلف ثقا فتی ورثوں کی بات کر رہے ہیں۔ بنیادی طورپر پشتو موسیقی احتجاج کر رہی ہے کہ آپ ہماری جو تصویر پیش کرتے ہیں وہ غلط ہے۔ ہم شدت پسند نہیں ہیں مگر آپ ہمیں اسی رنگ میں دکھارہے ہیں۔

پشتو صوفی روایات کے قدآور شاعر رحمان بابا اپنے کلام میں کہتے ہیں ”اپنا ہر قدم احتیاط سے رکھو کہ تم گلاب کے جن پھولوں پر چل رہے ہو وہاں کانٹے بھی ہیں“۔ وہ ہمیشہ اپنے کلام میں لوگوں کویاد دلاتے ہیں کہ وہ کیا ہیں اور ان کی شاعری اپنی ثقافت اور تاریخ پر فخریہ نظرڈالتی نظر آتی ہے۔ حسینہ گل کا تعلق مردان سے ہے اور وہ عصر حاضر کی ایک مقبول شاعرہ ہیں جنہیں سننے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ وہ اپنے سماج کی بات کرتی ہیں جسے آج تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ میں نے اپنی تصنیف میں ان جیسے اور کئی پشتو شعرا کا ذکر کیا ہے۔

دوسری جانب سندھ ایک الگ جگہ ہے۔سندھی اپنی اقدار کی پہچان اور تاریخی ورثے کی بات کرتے ہیں۔ میرے نزدیک وہ ایک مجموعی پہچان ’Syncretic Identity‘ کی نشاندہی کر رہے ہیں جو تاریخ اور اقدار کا امتزاج ہے۔ ہم شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شاعری میں اس مجموعی پہچان کی بنیادی اشکال دیکھ سکتے ہیں۔ سچل سرمست کا کلام قوالیوں کی شکل میں روزانہ ان کے مزار پر پیش کیاجاتا ہے۔ ان کاکلام ”میں نہ شیعہ ہوں نہ سنی، میں ایک انسان ہوں“ شاید دن میں کئی بار دہرایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری عدم تشدد کا پیغام ہے۔ یہی پیغام آج کے سندھی شاعرحفیظ نظامانی کے کلام کا حصہ بھی ہے۔ دونوں کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد نہیں، میں اس جہان میں بھی جنت دیکھنا چاہتا ہوں۔

بھٹائی کی شاعری اپنی زمین کا منظرنامہ پیش کرتی ہے جہاں سندھ اور اس کے باسیوں کا ذکر ہے۔ آج کی سندھی شاعری میں بھی یہی موضوعات عام ہیں۔ اگر آپ رحمان بابا، سچل سرمست اور بھٹائی کے کلا م کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گاکہ ان کے موضوعات بھی ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔

کچھ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے اردو یا پنجابی شاعری کی بات کیوں نہیں کی۔ دراصل میں انہیں مزاحمتی شاعری نہیں سمجھتی۔ پنجابی پہلے پہل گرمکھی اور بعدمیں اردو رسم الخط میں لکھی گئی۔ لیکن یہ مزاحمتی شاعری نہیں ہے۔ آج کی اردو شاعری اگرچہ ریاست کی مزاحمت کرتی ہے لیکن اس میں ثقافتی پہچان کہاں ہے؟ اس لحاظ سے سندھی اور پشتو شاعری میں ہم آہنگی اور اپنے سماج سے متعلق غلط تاثرات کی تردید انہیں انتہائی اہم اورطاقتور بناتی ہے۔

کتاب کے صفحہ نمبر 128 پر آپ نے لاہور کے کچھ منصوبوں کا ذکر کیا ہے جن میں آرٹ کے ذریعے مقامی داستانوں کو اجاگر کیا گیاہے۔ ایک پروگرام کے تحت بارہ رکشوں پر مقامی داستانوں کی تصویری جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ ان پر کچھ روشنی ڈالیں گی؟

لاہور بینالے فاؤنڈیشن کی قدسیہ رحمان نے شہر کی روایات کواجاگر کرنے کے لئے کئی منصوبے تشکیل دئے۔ ان میں شامل ایک پروجیکٹ کے ذر یعے، جس کا میں نے کتاب میں بھی ذکر کیاہے، شہر کے بس سٹاپس کو خوبصورت بنانے اور ان میں لاہور کے باسیوں کی زندگی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ بدلتے ہوئے موسم کی سردی، گرمی اور بارشوں میں جب ایک مزدور یہاں بیٹھتا ہو گا تو اسے احساس ضرور ہوگا کہ کوئی ہے جو میرے دکھ سمجھتا ہے۔ یہ سماج میں منفی رویوں کو کم کرنے کی ایک اچھی کوشش ہے جس سے شدت پسندی ختم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

ایک اور پروجیکٹ کے ذریعے، جس کا آپ نے حوالہ دیا، رکشوں پر پینٹ کی گئی ثقافتی داستانوں سے متعلق تھا۔ پرانے شہر کے مختلف حصوں میں بارہ رکشوں کی نمائش کی گئی جن پر یہ کہانیاں رنگارنگ تصویروں کی صورت میں پیش کی گئی تھیں۔ ان منصوبوں کے تحت کوشش کی گئی کہ لوگوں کو اپنی لوک کہانیوں اور کلچر کا عکس دکھایا جا سکے۔ فاؤنڈیشن نے ایسے کئی منصوبوں پر عمل درآمد کیا جن کا ذکرمیں نے اپنی تصنیف میں کیا ہے۔

آخر میں یہ بتائیے کہ ان سب میں سب سے زیادہ موثر اور کامیاب تحریک کون سی ہے؟

میرے نزدیک سب تحریکیں موثر ہیں۔ یہ ان مقامی لوگوں کی کوششیں ہیں جو اپنی ثقافت اور اقدار کواجاگر کر رہے ہیں۔ مزاحمت سے زیادہ یہ اپنے سماج اور تہذیبی پہچان کی تحریکیں ہیں۔ اپنی کتاب میں میں نے صرف ان کوششوں کا تجزیہ کیا ہے جو مجھے بہت موثر نظر آئیں، ان کے علاوہ بھی بہت کچھ موجود ہے۔

مثال کے طورپرپانچویں باب میں میں نے ان ممتازعلما کا تذکرہ کیا ہے جو شدت پسندی کی مخالفت اورمذہبی ہم آہنگی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جب ایک عیسائی آبادی پر حملہ ہوا تو بادشاہی مسجد کے امام عبدالخبیرآزاد نے کرسچن جوزف کالونی میں مشتعل ہجوم کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلاکر کہا ”یہ اسلام کے خلاف ہے“۔ یہ ایک موثر قدم تھا۔ انہوں نے لاہور میں ایک تنظیم بنائی جس میں تمام مذاہب کے پیروکار شامل ہیں۔

پاکستان میں کئی روشن خیال علما ہیں جو مذہبی ہم آہنگی اور امن کے لئے کام کر رہے ہیں۔ لاہور ہی میں مولانا زبیر احمد زہیر گزشتہ پینتیس برسوں سے عیسائیوں کے حقوق کی حفاظت کے ’جرم‘ میں جیل کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ کونسل آف اسلامک آڈیالوجی کے چیئرمین ڈاکڑ قبلہ ایاز سماجی ہم آہنگی کے لئے سیمینار اور تقریبات کرتے رہتے ہیں۔ میں پاکستان کے طول و عرض میں جاری ان کوششوں پر قلم اٹھاتی ہوں۔

ان تمام لوگوں کی مشترکہ رائے ہے کہ سکولوں میں بچوں کو تمام مذاہب سے روشناس کرایا جائے۔ اپنے مذہب کی تعلیم تو وہ گھر پر بھی حاصل کر سکتے ہیں لیکن ضرورت ہے کہ انہیں سکھوں، ہندوؤں اور عیسائیوں کے بارے میں بھی بتایا جائے۔

آخر میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ اکثر لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ وہ میری کتاب کے ذریعے پہلی بار ا ن تحریکوں اور کوششوں سے واقف ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ ا دنیٰ سی کوشش قیامِ امن اور کسی حد تک شدت پسندی کے تدارک میں معاون ثابت ہو گی۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔