فاروق سلہریا
میں ریاست جموں کشمیر کا باشندہ اور ایک سیاسی کارکن ہوں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ 5 فروری کو پاکستانی حکمران طبقہ ریاست جموں کشمیر کے نام پر چھٹی کیوں مناتا ہے۔ یہ سلسلہ غالباً نوے کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ بہرحال فی الوقت 5 فروری کی بابت پاکستان پیپلز پارٹی کے موروثی رہنما بلاول بھٹو کی مندرجہ ذیل ٹویٹ کا ذکر مقصود ہے جس میں انہوں نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی ایک ہندو سینیٹر،کرشنا کماری، نے سینیٹ کے اس سیشن کی سربراہی کی ہے جس کا مقصد جموں کشمیر سے اظارِیکجہتی کرنا تھا۔
ٹویٹ دیکھ کر فوراً منہ سے نکلا: یہ سب کیسے کر لیتے ہو؟ یہ درست ہے کہ سرمایہ دار حکمران طبقے ہر ملک میں ہی منافقت کا پیکر ہوتے ہیں مگر ’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘۔ پاکستان میں شرم و حیا کو جلا وطن کر دیا گیا ہے۔ شریف ہوں، عمران خان،جرنیل، مولوی یا زرداری…ایک سے ایک منافقت میں یکتا۔
پہلی بات: نام نہاد سینیٹ کا یہ سیشن اور اس کی ایک ہندو سینیٹر سے صدارت کا ’سیکولر‘ خیال اسی مہان ادارے کی کاروائی لگتی ہے جو طالبان، ٹی ایل پی اور سپاہ صحابہ کی بھی سرپرستی کرتا ہے۔ یقین کیجئے کل کلاں سینیٹ سے کسی ایسے اجلاس کی فرمائش کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ جبری مذہب کی تبدیلی کی تائید کی جائے تو اس کی صدارت بھی کرشنا کماری سے ہی کرائی جائے گی۔
دوم: بلاول صاحب سے درخواست ہے کہ کسی دن سینیٹر کرشنا کماری سے معزز سینیٹ کے کسی ایسے اجلاس کی بھی سربراہی کرائیے جس کا مقصد پاکستان کے ہندووں، مسیحیوں، احمدیوں، لاپتہ بلوچوں اور فوجی آپریشنوں کا شکار ہونے والے پشتونوں سے اظہارِ یکجہتی ہے۔ شائد یہ سب ممکن ہو تو کم سے کم ملک ریاض کے ہاتھوں اجڑنے والے سندھی گوٹھوں کے باسیوں سے ہی اظہار یکجہتی کے لئے کسی اجلاس کی صدارت سینیٹر کرشنا کماری سے کرا دیجئے۔
سوم: بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی جس پلوریلٹی کی بات کر رہے ہیں، اس کی حقیقت احمدیوں سے بھی پوچھ لی جائے۔
آخری بات: دو سال قبل مودی سرکار نے لداخ کو ریاست جموں کشمیر سے کاٹ کر ہماری ریاست کے ساتھ جو ظلم کیا، وہی ظلم بلالو بھٹو کے نانا نے گلگت بلتستان کی شکل میں کیا تھا۔ افسوس پاکستانی حکمران طبقے کے ہاں نہ شرم ہوتی ہے،نہ حیا۔