لاہور (جدوجہد رپورٹ) سندھ میں پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ میں زیر تربیت نرس کی درخواست پر ایک انتظامی عہدیدار کیخلاف جنسی ہراسانی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مذکورہ نرس نے اپنے اہل خانہ سمیت نواب شاہ میں دھرنا دیکر مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔
ادھر ڈی این اے فورانزک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ لاڑکانہ کی 2 خاتون ڈاکٹروں کا مبینہ قاتل ایک ہی شخص ہے۔ جامشورو کی فورانزک لیبارٹری کی ڈی این اے رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈاکٹر نوشین اورڈاکٹر نمرتا کے جسم اور کپڑوں سے ملنے والے نمونوں میں مشابہت ہے اوریہ ایک ہی شخص کے ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں گرلز ہاسٹل سے متعلقہ تمام مردوں کے نمونے لینے کی سفارش کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر نمرتاکی ستمبر 2019ء میں ہاسٹل میں ان کے کمرے کے پنکھے سے لٹکی لاش ملی تھی۔ اسی طرح نومبر 2021ء میں ڈاکٹر نوشین کاظمی کی بھی کمرے کے پنکھے سے لٹکی لاش ملی تھی۔ اس وقت پولیس اور انتظامیہ نے ان واقعات کو خودکشی قرار دیا تھا۔ تاہم ڈی این اے رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دونوں ڈاکٹروں کو نا صرف قتل کیا گیا تھا، بلکہ قاتل بھی ممکنہ طور پر ایک ہی شخص ہے۔
دوسری طرف نواب شاہ میں جمعرات کے روز زیر تربیت نرس نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ اس احتجاجی دھرنا میں سول سوسائٹی اراکین کے علاوہ قوم پرست تنظیموں کے افراد نے بھی شرکت کی۔ نرس کی درخواست پر انتظامی عہدیدار کے خلاف جنسی ہراسانی کا مقدمہ درج کرنے کے بعد ہاسٹل وارڈن کو بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے معطل کر دیا ہے۔
’بی بی سی‘ کے مطابق زیر تربیت نرس پیپلز میڈیکل کالج یونیورسٹی نوابشاہ میں ہاؤس جاب کر رہی ہیں۔ انکا موقف تھا کہ ایک انتظامی عہدیدار وقتاً فوقتاً جنسی تعلقات قائم کرنے کیلئے ہراساں اور پریشان کرتا رہتا تھا، سینئرکو شکایت کی گئی لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
انکا کہنا تھا کہ 9 فروری کی صبح 9 بجے وہ کمرے میں موجود تھیں کہ 3 خواتین کمرے میں داخل ہوئیں اور انکا گلا دبا کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انکا کہنا تھا کہ تشدد کرنے والی خواتین نے کہا کہ اگر تم نے فلاں انتظامی عہدیدار کے ساتھ جنسی تعلقات نہیں قائم کئے تو تمہیں مار کر لاش پنکھے سے لٹکا دی جائیگی۔
مذکورہ نرس کے چچا اوراہل خانہ سمیت نرس کی گفتگو سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ بشمول وائس چانسلر نے نہ صرف ان کی شنوائی نہیں کی بلکہ لیت و لعل سے کام لیا گیا۔
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے بھی انصاف کی یقین دہانی کروائی لیکن کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نرس نے الزام عائد کیا کہ ’ہمیں کہا جاتا تھا کہ ہم سے دوستی کرو، باہر ڈنر پر چلو ورنہ فیل کر دیں گے، سپلی لگائیں گے، داخلہ منسوخ کروا دیں گے، جب ہم ان کی ڈیمانڈ نہیں مانتے تو ہمیں مارا جاتا، ہراساں کیا جاتا۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’اگرمیں آج نہ بولتی تو میری بھی پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش ملتی۔‘
واضح رہے کہ سندھ سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کئے جانے کے واقعات تواتر کے ساتھ روایتی اور سوشل میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ طلبہ کا مطالبہ ہے کہ انٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بناتے ہوئے طالبات کو بھی ان میں نمائندگی دی جائے۔ تاہم حکومتوں کی طرف سے اس جانب تاحال کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی ہے۔
طلبہ تنظیم آر ایس ایف حیدر آباد کی سیکرٹری اطلاعات زارا حسین کا کہنا ہے کہ ’نمرتا اور نوشین کے ساتھ، زیادہ امکان ہے کہ جنسی زیادتی کی گئی اور انکا قتل کیا گیا، یہ کام ایک ہی شخص نے کیا۔ یہ وہ طالبات تھیں جنہوں نے مزاحمت کی اور انہیں قتل کر کے پنکھے سے لٹکا دیا گیا۔ ایسی نہ جانے کتنی اور طالبات ہونگی جو مسلسل ظلم کا شکار ہو رہی ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ’زیر تربیت نرس نے بھی جرات کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن یہاں حالات ایسے نہیں ہیں کہ ساری طالبات کھل کر اس ظلم کے بے نقاب کر سکیں۔ تعلیمی اداروں سے پولیس اور حکومت تک کوئی بھی انکا ساتھ نہیں دیتا۔ انہیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر نمبروں میں کٹوتی کرنے، امتحانات میں فیل کرنے سمیت ایسے بے شمار اختیارات ہوتے ہیں، جن کے ذریعے سے طالبات کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔‘
جنسی ہراسگی کے واقعات میں تعلیمی اداروں کی خواتین اساتذہ کی طرف سے بھی طالبات کو مدد فراہم کرنے کی بجائے ہراساں کرنے والے انتظامی عہدیداروں، اساتذہ اور دیگرسٹاف کا ساتھ دیا جانا معمول ہے۔
یونیورسٹی آف سندھ کے شعبہ انگریزی کی طالبہ سحر کاکہنا ہے کہ ’کچھ سال پہلے ہاسٹل سے طالبہ نائلہ رند کی لاش ملی، جسے انتظامیہ نے بغیر کسی تحقیقات کے خود کشی قرار دیا۔ نمرتا اور نوشین کاظمی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ آج پروین رند کے ساتھ بھی یہی کیا جا رہا تھا۔ وہ خود بتا رہی ہیں کہ اگر وہ جان بچا کر نہ بھاگتیں تو انہیں قتل کر دیا جاتا۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’ہراسمنٹ کی شکایت کرنے پر یہ خونی درندے طالبات کو قتل کر دیتے ہیں۔ تعلیمی ادارے قتل گاہ بن چکے ہیں اور کوئی اس جانب توجہ نہیں دے رہا ہے۔‘
تعلیمی اداروں اور ہاسٹلوں میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کے ساتھ ساتھ طالبات کو بلیک میل کر کے جسم فروشی پر مجبورکئے جانے کے انکشافات بھی ہو رہے ہیں۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے سابق طالبعلم رہنما سعید خاصخیلی کہتے ہیں کہ ’یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ ہاسٹل وارڈن کی بڑی تعداد پیشہ ور خواتین سے تعلق رکھتی ہے، جو طالبات کو پہلے تعلیمی اداروں کے انتظامی عہدیداروں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پرمجبور کرتی ہیں۔ پھر ان کو جسم فروشی پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ انکار کرنے والی طالبات کو مختلف طرح سے ہراساں کرنے کے علاوہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ شکایت کرنے پر قتل کرنے جیسی نوبت آجاتی ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’ایک طریقہ اساتذہ کے پاس امتحانات میں فیل کرنے سمیت دیگرایسے اختیارات ہیں، جن کے ذریعے سے طالبات کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ انکا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔‘
طالبات کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو جہاں مین سٹریم میڈیا میں اس طرح سے جگہ نہیں ملتی، وہیں صنفی تفریق کے خاتمے کیلئے کی جانیوالی مین سٹریم سیاست میں بھی طالبات کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کو اس طرح سے اجاگر نہیں کیا جاتا، جیسے اشرافیہ کی خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو سامنے لایا جاتا ہے۔
کچھ جامعات میں انٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں لیکن کسی کمیٹی کی طرف سے تاحال ہراسمنٹ کرنے والے کسی ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
سعید خاصخیلی کہتے ہیں کہ ’جن انٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں میں طلبہ کی نمائندگی ہی نہیں ہے اور وہ صرف یونیورسٹی انتظامیہ پر ہی مشتمل ہیں تو وہ کیسے اپنے خلاف کوئی کاروائی کر سکتے ہیں۔ انٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں میں طالبات کو نمائندگی دی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ طلبہ یونین کے انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ طلبہ خود اپنے مسائل کے حل کیلئے سیاسی میدان میں سامنے آسکیں۔‘
سحر کا بھی کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت نے طلبہ یونین بحالی کا اعلان تو کیا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ فوری طور پر طلبہ یونین کے انتخابات کروانے چاہئیں، تاکہ طلبہ خود اپنے مسائل حل کر سکیں۔‘