لاہور (جدوجہد رپورٹ) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر وزیر اعظم عمران خان، خاتون اؤل بشریٰ بی بی اور وفاقی وزرا پر تنقید کرنے اور مبینہ نامناسب مواد اپ لوڈ کرنے کے الزام میں 269 مشتبہ ٹرولز کی فہرست تیار کر لی ہے۔
ایف آئی اے کی پنجاب اور اسلام آباد میں کارروائیوں کے دوران ایک نیوز ایجنسی کے مالک محسن بیگ اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا کارکن صابر محمود ہاشمی سمیت 6 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ محسن بیگ، جو وزیر اعظم کے قریبی دوست میڈیا مالکان میں سے ایک سمجھے جاتے تھے، گزشتہ کچھ دنوں سے عمران خان کی حکومت کے خلاف میڈیا چینلوں پر تنقید کرنے والے تجزیہ کاروں میں شامل تھے۔ ان کے خلاف وفاقی وزیر مراد سعید کی شکایت پر ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مذکورہ مقدمہ میں محسن بیگ پر الزام عائد ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی کتاب کا حوالہ ایک پروگرام میں دیتے ہوئے غیر اخلاقی الزامات عائد کئے۔
تاہم اب محسن بیگ کے خلاف انسداد دہشت گردی کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق محسن بیگ کو گرفتار کرنے جانے والی ٹیم پر نہ صرف انہوں نے پستول تانی بلکہ انہوں نے فائرنگ کر کے ایک اہلکار کو زخمی بھی کیا۔ تاہم محسن بیگ کے ترجمان نے ایف آئی اے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ انہیں پولیس نے دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
ادھر ایف آئی اے کی جانب سے دیگر سوشل میڈیا کارکنوں کو گرفتار کرنے کیلئے بھی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ یہ کارروائیاں وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی طرف سے تیار کی گئی فہرست کے مطابق لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں کی جا رہی ہیں۔
’جیو نیوز‘ کے مطابق پیر کے روز سوشل میڈیا کارکن صابر محمود ہاشمی کو لاہور سے گرفتار کیا گیا۔ ان پر وزیر اعظم کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ٹرینڈ چلانے کا الزام ہے۔
قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی اجلاس میں سوشل میڈیا پر ہونے والے مبینہ ذاتی حملوں کو غیر مہذب اور ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے عناصر کو بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔
ادھر وزیر اعظم کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے مبینہ طور پرگھریلو تنازعہ کی وجہ سے بنی گالہ سے لاہور منتقل ہونے کی خبریں چلانے والے صحافیوں کے خلاف بھی سخت اقدامات اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا گیا ہے۔
جمعہ کے روز ایک صحافی نے دعویٰ کیا تھا کہ بشریٰ بی بی کا وزیر اعظم عمران خان سے جھگڑا ہوا ہے اور وہ اپنی سہیلی کے گھر رہنے کیلئے بنی گالہ سے لاہور چلی گئی ہیں۔ تاہم بعد ازاں ان کی سہیلی نے اس خبر کی تردید کر دی تھی۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم کے خلاف جس ’ٹرینڈ‘ کے چلائے جانے کی وجہ سے ایف آئی اے کی جانب سے گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس سے قبل تحریک انصاف کے ’سوشل میڈیا ٹرولز‘ کی جانب سے ایک نجی ٹی وی چینل کی خاتون اینکر پرسن کے خلاف اسی طرز کا ایک ’ٹرینڈ‘ چلانا شروع کیا تھا۔ جس کے بعد اپوزیشن کے ’ٹرولز‘ نے اسی طرز کا ایک ’ٹرینڈ‘ وزیر اعظم کے خلاف چلانا شروع کر دیا تھا۔
گزشتہ ہفتے کی شب خاتون اینکر پرسن کے خلاف اور وزیر اعظم کے خلاف چلنے والے دونوں ’ٹویٹر ٹرینڈ‘ پاکستان میں ’ٹاپ ٹرینڈ‘ رہے ہیں۔ تاہم ایف آئی اے اور آئی بی کی جانب سے کارروائی صرف وزیر اعظم سے متعلق ٹرینڈ چلانے والوں کے خلاف ہی کی جا رہی ہے۔ خاتون اینکر پرسن کی درخواست کے باوجود ان کو ٹرول کرنے اور ہراساں کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے بھی گرفتاریوں پر رد عمل دیتے ہوئے یہی نکتہ اٹھایا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت بالخصوص عمران خان کی ایما پر سوشل میڈیا پر نازیبا الفاظ کے استعمال، گالم گلوچ اور تضحیک و تذلیل کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ اپوزیشن رہنماؤں کو اور تنقید کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرنے کیلئے سوشل میڈیا سیل کام کرتے رہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ’عمران خان کوئی آسمان سے اتری ہوئی مخلوق نہیں جس کی شان میں گستاخی کرنے پر شہریوں کے گھروں پر دھاوا بولا جائے گا…آپ کی اہلیہ کا جو احترام ہے وہی میری آئی سی یو میں بے ہوش والدہ کا ہونا چاہیے تھا، مخالفین کی بہنوں اور بیٹیوں کا ہونا چاہیے تھا۔ عاصمہ شیرازی، ثنا بچہ اور غریدہ فاروقی کا ہونا چاہیے تھا، مگر اس وقت آپ نہ صرف خود اس گندے کھیل میں شامل تھے بلکہ اپنے جاہل وزرا کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔‘
خاتون اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے اس اقدام کو ’ایک نہیں دو پاکستان‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی درخواست پر کارروائی نہیں کی جا رہی۔ تاہم وزیر اعظم پر تنقید کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی خاتون صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ خاتون صحافیوں کو آن لائن ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کا یہ الزام تھا کہ یہ کام حکمران جماعت کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ تاہم حکمران جماعت کے ہراساں کرنے والے کارکنوں اور سوشل میڈیا سیل کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔