طنز و مزاح

عمران خان کے لاشعور اور شعور کا نفسیاتی تجزیہ!

قیصر عباس

اتوار کے دن امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے پروگرام جی پی ایس کے میزبان فرید زکریا نے وزیر اعظم عمران خان کا انٹرویو نشر کیا تھا۔ انٹرویو میں افغانستان، طالبان، بھارت پاکستان کے تعلقات اور چین میں مسلمانوں کی حالت زار پر کئی سوالات شامل تھے۔

روزنامہ جدوجہد نے اس انٹرویو میں نشر کئے گئے چند جوابات کا ایک ماہر نفسیات سے تجزیہ کرایا جنہوں نے ہمارے رہنما کے شعور اور لاشعو کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ پیش کیاہے۔ ماہر نفسیات نے، جن کا نام ان کی ذاتی حفاظت کے پیش نظر خفیہ رکھا جا رہا ہے، عمران خان کے جوابات کا ان تصورات سے موازنہ کیا ہے جو اس وقت ان کے لاشعورمیں گردش کر رہے تھے۔

یہاں وزیر اعظم کے نشر شدہ (شعوری) بیانات سرخ رنگ میں دئے جا رہے ہیں جن کے بعد ان کے لاشعوری جوابات ہیں جو ہمارے ماہر نفسیات نے تشکیل دئے ہیں۔ ادارے کا ماہر نفسیات کے اس تجزیے سے متفق ہونا قطعی ضروری نہیں ہے۔

افغانستان

ہمارے پاس کیا آپشنز ہیں؟ کیا طالبان کے علاوہ دیگر کوئی متبادل (افغانستان میں) اس وقت موجود ہے؟ نہیں ہے۔ کیا یہ امکان موجود ہے کہ اگر طالبان کو نکال کر باہر کر دیا جائے، اگر ان کی حکومت ختم کر دی جائے تو وہاں تبدیلی بہتری کا موجب بنے گی؟ نہیں، لہٰذا، واحد متبادل جو اس وقت ہمارے پاس موجود ہے وہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔

میرا یقین کریں فرید، مجھ سے بہتر طالبان کو کون سمجھ سکتا ہے۔ میں ماضی میں ان کا نمائندہ بھی رہا ہوں اور ہر سطح پر ان کی حمایت کرتا رہا ہوں۔ یہاں تک کہ خیبر پختون خواہ کے صوبے میں اپنی برسر اقتدار جماعت پی ٹی آئی کے ذریعے ان کے مدارس کو بھرپور فنڈنگ بھی میں نے ہی فراہم کی تھی۔ امریکہ اور مغربی ملکوں کو چاہئے کہ وہی کریں جو میں کہتا ہوں۔

طالبان کس ثقافت کے نمائندے ہیں؟

یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ طالبان ایک بہت مضبوط نظریاتی تحریک ہے، طالبان ایک ایسی ثقافت کے نمائندے ہیں جو مغربی معاشروں کے لئے اجنبی ہے۔ کہیں نہ کہیں کچھ لے اور کچھ دے کر کام چلانا پڑے گا۔

میرے نزدیک تو طالبان ہی ہمارے شمالی علاقوں کی ثقافت کے صحیح نمائندے ہیں۔ یہ ثقافت مغربی ممالک کے لئے اجنبی ہو سکتی ہے میرے لئے نہیں۔ دیکھئے فرید یہ میری حکومت ہی ہے جس نے حال ہی میں ان سے مذاکرات بھی شروع کئے تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب انہوں نے ہمارے لوگوں پر پھر حملے شروع کر دئے ہیں لیکن مجھے ان کی قیادت پر پورا بھروسہ ہے۔ انشااللہ ہمارے درمیان تعلق قائم رہے گا۔ آخر ہم بھی تو کہیں لے اور کہیں دے کر حالات پر قابو پا رہے ہیں تو مغرب کوبھی اسی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔

چین میں مسلمانوں کی حالت زار

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے سفیر سنکیانگ گئے، ان کے مشاہدے کے مطابق صورت حال ایسی نہیں ہے جیسی تصویر کشی مغربی میڈیا میں کی جا رہی تھی۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ گذشتہ تقریباً پینتیس سال میں، اگرچہ اعداد و شمارمیں کچھ فرق ہے، ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ کشمیریوں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔

مجھ سے زیادہ کشمیر کو کون جانتاہے آج! بات بالکل صاف ہے، اگر مغربی ممالک کشمیر کے مسئلے کو نظر انداز کر سکتے ہیں تو ہمیں بھی چین میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں اور ظلم کو نظر انداز کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اور پھر ہمارے سفیر نے تو تصدیق بھی کی ہے کہ وہاں سب ٹھیک ٹھاک ہے! یہ سب مغربی ممالک کا پروپیگنڈہ ہے۔

بھارت اور کشمیر

پانچ اگست 2019ء سے بھارت نے یک طرفہ طورپر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔

آپ اگر میری سیاسی حکمت عملی پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ میں ’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘کا عادی ہوں۔ ہم نے بھارت کے جواب میں کشمیر کے متنازعہ علاقے گلگت بلتستان کو بھی پاکستان کا صوبہ بنانے کے اقدامات کئے ہیں۔ ہم نے حال ہی میں اپنے دستو رمیں اہم تبدیلی کی ہے اور انشااللہ جلد ہی یہ علاقے پاکستان کا پانچواں صوبہ بن جائیں گے۔

ہندو پاک امن

میں ان لوگوں میں شامل ہوں جو دنیا بھر میں بہت سے پاکستانیوں کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ بہتر جانتا ہے اور سمجھتا ہے۔ بھارت میں میری دوستیاں ہیں اور مختلف لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں…ہم نے اقتدار میں آتے ہی بھارت سے رابطہ کیا۔ میں نے کہا کہ آپ ایک قدم بڑھائیں ہم دو قدم آپ کی جانب بڑھائیں گے۔

میں ایک بڑے عرصے سے بھارت سے کرکٹ کھیلتا رہا ہوں۔ میں ان کی رگ رگ پہچانتا ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ بھارت کی سرحدیں چین کے علاوہ جرمنی سے بھی ملتی ہیں۔ میں شاید دنیا کا واحد وزیر اعظم ہوں جس نے امریکہ اور بھارت کے تعلقات کا بھانڈہ بیچ چوراہے پر پھوڑا ہے مگر بھارت سے امن مذاکرات بھی جاری رکھے۔

بھارت میں اقلیتوں سے سلوک

دراصل نسل پرستی کا نظریہ بھارت پر مسلط کر دیا گیا ہے…جس کی بنیاد نفرت، نسلی برتری اور مسلمانوں، اقلیتوں، مسیحوں اور یقینا پاکستان سے نفرت پر ہے۔ اس طرح جو بھارت میں ہو رہا ہے وہ خود ان کے لئے نقصان دہ ہے۔

بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں اور انہیں پورے حقوق حاصل ہیں۔ میں ہمیشہ سے نسل پرستی اور مذہبی منافرت کے خلاف ہوں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ یہ میں ہی تھا جس نے قومی اقتصادی کونسل میں ایک احمدی ماہر اقتصادیات کو شامل کیا تھا۔ اگرچہ بعض ناقابل بیان وجوہات کی بنا پر مجھے انہیں ہٹانا پڑا تھا مگر میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کروں۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔