خبریں/تبصرے

عمران خان نے الیکشن کمیشن سے اپنے اثاثے دانستہ چھپائے: فیکٹ فوکس

لاہور (جدوجہد رپورٹ) تحقیقاتی صحافتی ویب سائٹ ’فیکٹ فوکس‘ نے اپنی ایک تازہ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے دانستہ اپنے اثاثے مخفی رکھے۔ وزیر اعظم اور ان کی بہنوں نے ریاست سے ٹیکس چوری کرنے جیسے اقدامات بھی کئے ہیں۔

کرپشن ختم کرنے اور ٹیکس کے شفاف نظام کے دعوؤں پر اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم عمران خان کی آف شور کمپنی سے متعلق کیس میں دیئے گئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں اکاؤنٹس کے دیگر مقاصد کیلئے استعمال ہونے سے متعلق کھاتوں کا تفصیلی معائنہ نہ کئے جانے کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔

شمیسہ رحمان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نیازی کو مارچ 1996ء میں نگہت ارم کی جانب سے فیروز والا میں 500 کنال کا پاور آف اٹارنی دیا گیا۔

مذکورہ پاور آف اٹارنی کا استعمال کرتے ہوئے اکرام اللہ خان نیازی نے 2004ء میں اپنے بیٹے عمران خان اور چار بیٹیوں علیمہ خان، ڈاکٹر عظمیٰ خان، نورین نیازی اور روبینہ خان کو 70 لاکھ روپے میں زمین فروخت کر دی۔ اسی سال چاروں بچوں کے نام پر محکمہ مال کے ریکارڈ میں زمین کا انتقال بھی درج ہوا۔

تاہم وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اثاثوں کے سالانہ گوشواروں میں اس اراضی کو ظاہر نہیں کیا۔ اس دوران وہ 2002ء سے 2007ء تک قومی اسمبلی کے رکن رہے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد 2010ء میں عمران خان نے اس زمین کو وراثتی زمین قرار دیکر اثاثوں میں ظاہر کیا۔ قانونی ماہرین کے مطابق خریدی گئی زمین کو وراثتی زمین قرار نہیں دیا جا سکتا۔

رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کی بہنوں نے مذکورہ زمین کے ایک ٹکڑے کو 80 رجسٹریوں کے ذریعے ایک ہی شخص کو فروخت کیا۔ ایسا کرنے کے پیچھے انکا مقصد زمین کے خریدار سمیت خود کو ٹیکس کی ادائیگی سے بچانا تھا۔ 15 سال تک غلط بیانی کے بعد 2019ء میں عمران خان اور ان کی بہنوں نے یہ زمین 350 ملین روپے میں متین احمد بھولا نامی شخص کو فروخت کر دی۔

رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنا پشاور کا پلاٹ بھی کئی سالوں تک ٹیکس حکام سے چھپایا اور بالآخر ایک چیریٹی پراجیکٹ کو عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔ یہ پلاٹ عمران خان کو 2005ء میں بطور تحفہ ملا تھا، جس کی مالیت ان کے مطابق 50 ملین پاکستانی روپے تھی۔ 10 سال تک عمران خان نے اس پلاٹ کا اپنے گوشواروں میں ذکر نہیں کیا اور بالآخر 2015ء میں یہ پلاٹ ایک خیراتی ادارے کو دے دیا۔

رپورٹ کے مطابق 1987ء میں بھارت سے ٹیسٹ سیریز جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے ان کھلاڑیوں کیلئے پنجاب حکومت نے پلاٹ دینے کا اعلان کیا، جن کے پاس اپنا گھر یا پلاٹ موجود نہیں تھا۔ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کیلئے عمران خان نے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب (وقت) شہباز شریف کو درخواست دی اور یہ بیان حلفی بھی ساتھ منسلک کیا کہ پنجاب میں انکے پاس کوئی پلاٹ یا گھر موجود نہیں ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس وقت بھی عمران خان ویسٹ ووڈ ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک سے زیادہ پلاٹوں کے مالک تھے۔ تاہم انہوں نے حکومت پنجاب کے پاس جھوٹا بیان حلفی جمع کروا کر پلاٹ حاصل کر لیا۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ عمران خان کو آف شور کمپنی کیس میں اس بنیاد پر بری کر دیا گیا تھا کہ ’نیازی سروسز لمیٹڈ‘ کو صرف لندن اپارٹمنٹ کے انتظام کے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا، جسے انہوں نے ایمنسٹی سکیم کے تحت قرار دیا تھا۔

تاہم نیازی سروسز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس کی سٹیٹمنٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نیازی سروسز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس لندن اپارٹمنٹس کے علاوہ بھی دیگر مقاصد کیلئے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ لاکھوں پاؤنڈز کی ٹرانزیکشنز بھی ہوتی رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے توشہ خانہ کے تحائف حاصل کئے لیکن ان کی معلومات فراہم کرنے سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا ہے۔ 2021ء کے ٹیکس گوشواروں میں 11.60 ملین روپے کی قیمتی توشہ خان آئٹمز کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب ایک صحافی کی درخواست پر پاکستان انفارمیشن کمیشن کے توشہ خانہ کے تحائف کی معلومات فراہم کرنے کے احکامات کے خلاف حکومت اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم امتناعی کی درخواست دے رہی تھی۔ عدالت کی جانب سے تاحال حکم امتناعی جاری نہیں کیا گیا، نہ ہی عمران خان کی طرف سے توشہ خانہ سے حاصل کئے گئے قیمتی تحائف کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts