دانش ارشاد
11 مارچ کو ہندوستان میں فلم دی کشمیر فائلز ریلیز ہوئی جس میں دکھایا گیا ہے 1990ء میں کشمیر میں پنڈتوں پر ظلم ہوا۔ فلم کو بنیادی طور پر ہندؤ بنام مسلمان مقدمہ کے طور پرپیش کیا گیا ہے اور کشمیری مسلمانوں کو پنڈتوں کا مجرم بتایا گیا۔ فلم میں بتایا جاتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں نے پنڈتوں کی نسل کشی کی اور نہیں کشمیر سے ہجرت پر مجبور کیا۔ فلم کے بارے میں انڈین حکومت کہتی ہے کہ پہلی بار پنڈتوں کا سچ سامنے آیا ہے۔ جبکہ ایک بڑی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ یہ فلم مذہبی منافرت پھیلا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے بنائی گئی ہے۔ فلم کا ایک ڈائیلاگ ہے کہ”جھوٹی خبر دکھانا اتنا بڑا گناہ نہیں ہے جتنا کہ سچی خبر چھپانا“ لیکن اس فلم کے بعد پتا چلتا ہے کہ جھوٹ دکھانا بہت بڑا جرم ہے۔
فلم کے آغاز میں سرینگر کی گلیوں میں بندوق بردار گروہ دکھائے گئے ہیں جو کشمیری پنڈتوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ فلم کے آغاز میں ماحول بہت خراب دکھایا گیا ہے۔ یہ تو دکھایا گیا ہے کہ ماحول کشمیری پنڈتوں کیلئے خراب ہے لیکن یہ نہیں دکھایا گیا کہ ماحول کیوں خراب ہے؟ یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیر میں پنڈتوں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع تھا اور پنڈتوں کو مار کر کشمیر سے بھگا دیا گیا۔ حالانکہ حقیقت میں معاملہ پنڈت بنام مسلمان نہیں تھا بلکہ 90ء کی دہائی میں صرف پنڈتوں کی ہی نہیں بلکہ کشمیری مسلمانوں کو بھی قتل کیا گیا اور قتل کئے جانے والے مسلمانوں کی تعداد پنڈتوں کی نسبت کئی سو گنا زیادہ تھی۔ شورش زدہ ماحول میں 21 اگست 1989ء میں جو پہلا شخص قتل ہوا وہ مسلمان تھا اور اس کا نام یوسف حلوائی تھا۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ پنڈتوں نے کشمیر سے ہجرت کیوں گئے اور 1990ء میں کیا ہوا جس پر آج یہ فلم بنائی گئی ہے، حالانکہ کشمیر میں مسلمان اور ہندؤ صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے تھے۔ پٹھانوں، مغلوں، سکھوں اور ڈوگروں کا راج رہا لیکن کبھی ہندو مسلم فساد نہیں ہوئے۔ حتی کہ 1947ء میں تقسیم برصغیر کے وقت ہر طرف ہندؤ مسلم فسادات ہو رہے تھے وادی میں مکمل امن رہا اور کوئی مذہبی فسادات نہ ہوئے۔ کشمیر میں موجود تین فیصد پنڈتوں میں سے ایک بھی قتل نہ ہوا۔ اس کے بعد 1947ء سے 1990ء تک بھی کچھ نہیں ہوا لیکن پھر 1990ء میں اچانک ایسا کیا ہوا کہ پنڈتوں کو کشمیر سے جانا پڑا؟
تو اس کہانی کا آغاز 1984ء میں اس وقت ہوا جب فاروق عبداللہ نے اندرا گاندھی کی مرضی کے مطابق کام نہ کئے تو اندرا گاندھی نے فاروق عبداللہ کی حکومت ختم کر کے گل محمد شاہ کو وزیر اعلیٰ بنانے کا منصوبہ بنایا اورکشمیر کے گورنر بی.کے.نہرو کو عملدرآمد کیلئے کہا لیکن انہوں نے منع کر دیا جس پر اندرا گاندھی نے اپریل 1984ء میں جگموہن کو ریاست جموں کشمیر کا گورنر بنا کر سری نگر بھیجا۔ جگ موہن نے سری نگر آتے کی دہلی کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے فاروق عبداللہ کی حکومت کے خلاف سازش کی اور فاروق عبداللہ کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے غیر منتخب شخص جی ایم شاہ کو وزیر اعلیٰ منتخب کروا دیا۔ کچھ عرصہ بعد اندرا گاندھی قتل ہو گئیں اور راجیو گاندھی نے معاملات چلانا شروع کئے تو فاروق عبداللہ اور راجیو گاندھی کے درمیان معاملات طے ہو گئے کیونکہ فاروق عبداللہ اور راجیو گاندھی کے اچھے مراسم تھے۔ فاروق عبداللہ ور راجیو گاندھی ایکارڈ کے بعد پھر گل محمد شاہ کو ہٹانے کی بات کی گئی۔ جس کیلئے جگ موہن نے کشمیر میں ہندو مسلم فسادات کروانے کی کوشش کی، پہلے پہل کشمیر میں گوشت پر پابندی لگائی اور پھر اننت ناگ میں رام مندر کا تالا کھولنے پر دنگے اور فساد کروائے اور اس دوران مندروں سے مورتیاں باہر پھینکی گئیں۔ جب کہ ان حالات میں مقامی مسلمانوں نے پنڈتوں کا ساتھ دیا اور مندر کی مرمت کروانے میں بھرپور مدد کی۔ ان حالات کو بنیاد بنا کر جی ایم شاہ کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ ایک کشمیری صحافی کے مطابق جب یہ واقعہ پیش آیا تو مقامی ایم ایل اے میر عبدالرزاق وہ مورتیاں خود اندر رکھ رہے تھے، بعد ازاں جب اس واقعے پر انکوائری ہوئی تو فسادبرپا کرنے والے کانگریس کے کارکن نکلے۔ اس کے ساتھ جگموہن کے اقدامات سے مسلمان مخالف ہونے کا تاثر سامنے آیا اور طاقت کے بے دریغ استعمال کو بھی سیاست دانوں نے برا جانا اور رائے بنی کہ وہ جمہوری نظام کو ختم کرنے میں ماہر ہیں۔
اس کے بعد جموں کشمیر میں گورنر راج لگ گیا۔ تاہم کچھ وقت بعد فاروق عبداللہ کی حکومت بحال کر دی گئی۔ اس کے بعد 1987ء میں کشمیر میں انتخابات ہوئے جب نیشنل کانفرنس اور نیشنل کانگریس کے اتحاد کے سامنے ملکر مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے مقابلے میں تھیں۔ اس انتخاب میں دھاندلی ہوئی اور جب مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے لوگوں نے دھاندلی کے خلاف شکایت درج کروائی تو انہیں سننے کے بجائے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ جن کو جیل ڈالا گیا وہ سید صلاح الدین اور ان کے پولنگ ایجنٹ یاسین ملک تھے۔
اس کے بعد میں 1988ء میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے ریاست جموں کشمیر کی آزادی و خود مختاری کیلئے سیاسی جدوجہد کے بجائے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس جدوجہد کا سبب مذکورہ دھاندلی کو بتایا جاتا ہے تاہم اس کے کئی اور محرکات بھی تھے۔
اس وقت دہلی میں وی پی سنگھ کی حکومت تھی وہ کشمیر کو سمجھ نہیں پا رہے تھے اس لئے وہ کشمیر کے معاملے پر بی جے پی اور مفتی سعیدکی تجاویز پر عمل کرتے رہے۔بی جے پی ان پر روز دے رہی تھی کہ جگموہن کو کشمیر کا گورنر بنایا جائے لیکن فاروق عبداللہ نے کہا اگر جگ موہن کو کشمیر بھیجا گیا تو وہ استعفیٰ دیدیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا جب جگ موہن کو بطور گورنر کشمیر بھیجا گیا تو فاروق عبداللہ نے وزارت اعلی سے استعفیٰ دیدیا اور کشمیر میں گورنر رول نافذ کر دیا گیا۔ بھاجپا جانتی تھی کہ جگ موہن کشمیر میں جو اقدام کریگا اس سے تماشا لگے گا اور اسے ہندوستان میں ہندو ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہو سکے گی۔
اسی دوران جب لبریشن فرنٹ کی مسلح تحریک عروج کی طرف جا رہی تھی تو اس کے مقابل 1989ء میں حزب المجاہدین کو کھڑا کیا گیا، ان کے ذریعے عملی طور پر مذہبی منافرت پھیلائی گئی۔ جنوری کی ایک شام مساجد میں کشمیری پنڈتوں کو کشمیر چھوڑنے کی دھمکی دی گئی اور پھر 19 جنوری 1990ء کو ہزاروں پنڈت خاندان کشمیر چھوڑ کر جموں اور دوسرے انڈین شہروں میں چلے گئے۔
کشمیری پنڈتوں کو روکنے کیلئے جگموہن نے کوئی کام نہیں کیا بلکہ انہیں بھگانے میں کردار ادا کیا۔ تلوین سنگھ اپنی کتاب (Kashmir A Tragidy Of Errors) میں لکھتی ہیں کہ انہیں ایک پنڈت جے کشن بتاتا ہے کہ زیادہ تر ہندو جگموہن کی ہدایت پر رات کے اندھیرے میں چلے گئے ہیں لیکن وہ نہیں گیا کیونکہ اسے مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس وقت کے کشمیر کے کمشنر وجاہت حبیب اللہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے جگموہن سے کہا کہ وہ دور درشن پر پنڈتوں کو رکنے کیلئے کہیں جس پر جگموہن نے جواب دیا کہ پنڈتوں کیلئے جموں میں کیمپ بنائے جا رہے ہیں جہاں وہ حفاظت سے رہیں گے اور جو پنڈت کشمیر چھوڑ کر جائیں گے انہیں تنخواہ اور راشن ملتا رہے گا۔
فلم میں ایک جگہ کہا جاتا ہے کہ 800 ہندو کشمیر میں رہتے ہیں حالانکہ کشمیر میں 808 پنڈت خاندان یعنی 5 ہزار کے لگ بھگ پنڈت کشمیر میں رہتے ہیں۔ فلم میں بتایا جاتا ہے کہ 4 لاکھ پنڈتوں کشمیر سے نکلنا پڑا جبکہ 40 ہزار پنڈتوں کو قتل کیا گیا۔ ہندوستان کے سرکاری اعداد و شمار دیکھے جائیں تو پتا چلتا ہے کہ 1990ء سے ابتک 319 پنڈت مارے گئے لیکن پنڈتوں کی تنظیموں کا ماننا ہے کہ گزشتہ تیس سالوں میں شورش کے دوران مارے جانے والے پنڈتوں کی تعداد 650 کے لگ بھگ ہے۔ اس کے ساتھ پنڈت اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ 19 جنوری 1990ء کی رات ایک پنڈت بھی نہیں مارا گیا۔ تاہم جموں کشمیر پولیس کے مطابق سال 1990ء میں مختلف واقعات میں 89 پنڈت مارے گئے جبکہ اسی سال 1635 مسلمان بھی مارے گئے جن کا فلم میں ذکر تک نہیں۔ 1990ء سے 2000ء تک کشمیر چھوڑ جانے والے پنڈتوں کی تعداد 1 لاکھ کے لگ بھگ ہے جنہوں نے جموں اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کی۔ لیکن فلم میں بتایا گیا ہے کہ ایک رات جلوس نکلا اور لوگ مارے گئے باقی ہجرت کر گئے۔
ایک کتاب (Kashmiri Pandits) میں ایک کشمیری پنڈت اشوک بھان بتاتے ہیں کہ پنڈتوں کے کشمیر چھوڑنے کی مخالفت دو لوگوں نے کی تھی جن میں میر واعظ مولوی فاروق اور فاروق عبداللہ شامل تھے۔ اسی کے کچھ عرصہ بعد مئی 1990ء میں میر واعظ کا قتل کر دیا گیا تھا۔ میر واعظ کے جنازے پر سیکورٹی فورسز نے فائرنگ کی اور بی بی سی کے مطابق 100 لوگ مارے گئے حتی کہ دو گولیاں میر واعظ کی لاش کو بھی لگیں۔
19 جنوری کی رات کے بارے میں اشوک دھر اپنی کتاب (Kashmir I See It) میں لکھتے ہیں کہ جب 19 جنوری 1990ء کو جگ موہن نے گورنر کا چارج سنبھالا تو اسی رات 300 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور تلاشی کے دوران خواتین سے بدتمیزی پر لوگ اشتعال میں تھے جس پر 20 جنوری کو پورے شہر میں احتجاج ہوئے۔ لیکن جگموہن کا کردار یہ تھا کہ 19 جنوری کو پنڈت نکلے اور 20 جنوری کو دور درشن پر وہ کشمیریوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ”سدھر جاؤ ورنہ میں ٹھیک کر دوں گا“۔ پھر 21 جنوری 1990ء کو گاؤ کدل سانحہ پیش آیا۔ مختلف رپورٹس کے مطابق اس واقعے میں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے 52 سے 100 تک عام شہری (مسلمان) مارے گئے۔
فلم میں ایک منظر دکھایا گیا ہے کہ ایک پنڈت جج کو قتل کیا گیا ہے لیکن یہ نہیں دکھایا جاتا کہ مولانا محمد سعید مسعودی کو بھی انہی دنوں قتل کیا گیا، نیشنل کانفرنس کے کئی لوگوں کو قتل کیا گیا اور ریڈیو کشمیر کے کئی لوگوں کو مارا گیا۔ کیونکہ فلم میں کشمیری پنڈت بنام کشمیری مسلمان دکھایا گیا ہے۔
فلم میں انوپم کھیر کا ایک ڈائیلاگ ہے۔ ”ہم اقلیت میں تھے اوردو فیصد تھے“۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 98 فیصد مسلمان دو فیصد ہندؤں کے خلاف کھڑے ہو جاتے تو کیا کوئی پنڈت زندہ بچتا؟ جب فلم کو ہندو بنام مسلمان دکھایا گیا ہے تو اتنے مسلمان کیوں مارے گئے؟ اس فلم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئی بی کے لوگوں کو مارا گیا تو اے ایس دلت جو اس وقت ہندوستان میں آئی بی کے چیف تھے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں آئی بی کے لوگوں کو مارا گیا اس میں پنڈت اور مسلمانوں کے علاوہ ہندوستان سے آئے ہوئے لوگ بھی شامل تھے۔
فلم میں یکطرفہ طور پرپنڈتوں کو مارا جانا اور ہجرت کرنا دکھایا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ جو واقعات ہوئے جن میں ہزاروں مسلمان مارے گئے وہ واقعات نہیں دکھائے گئے۔
پوری فلم میں وی پی سنگھ کو نہیں دکھایا گیا حالانکہ یہ سب وی پی سنگھ کے دور میں ہوا۔ فلم میں راشن تقسیم ہونے کا سین ہے جس میں پنڈت عورتیں کہہ رہی ہیں کہ سارا راشن مسلمان عورتوں کو مل رہا ہے اور ان کو راشن نہیں دیا جا رہا۔ اس حوالے سے سابق وزیر کھملاتا ویکھلواپنی کتاب ”Kashmir Behind The White Curtian“ میں لکھتی ہیں کہ جب جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے راشن کی تقسیم اپنے ہاتھوں میں لی تو دونوں طبقوں یعنی مسلمانوں اور پنڈتوں کو برابر اناج دیا گیا۔ پوری فلم میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کبھی کہیں کشمیری پنڈتوں کے مسائل پر بات نہیں کی گئی۔ لیکن جموں کشمیر حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق پنڈت خاندانوں کو ماہانہ فنڈز دئے جاتے ہیں۔ فلم میں آرٹیکل 370 پر بھی بات آتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ دفعہ 370 نے پنڈتوں کو دوبارہ اپنے گھروں میں جانے سے روک ر کھا ہے جسے کشمیری پنڈت ختم کروانا چاہتے تھے۔
فلم کا مرکزی کردار جے این یو کے ایک طالبعلم پنڈت کرشنا کو دکھایا گیا ہے جبکہ ولن جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین فاروق ملک (یاسین ملک) کو قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے ساتھ فاروق عبداللہ کی حکومت اور مقامی مسلمانوں کا کردار بھی ولن کے طور پر ہی دکھایا گیا ہے، فلم میں فاروق عبداللہ کو یاسین ملک سے ملتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے اور فاروق ملک یعنی یاسین ملک سے کئی اعترافات کروائے گئے ہیں جن کے مطابق کئی افراد کے قتل کا ذمہ دار اسے قرار دیا گیا ہے۔
فلم کے ناقدین کا ماننا ہے کہ 1990ء کا آدھا سچ بتا کر ہندو مسلم فسادات کروانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ بی جے پی اس فلم کو 2024ء کے انتخابات میں انتخابی مہم کے طور پر استعمال کر سکے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس فلم کو بنیاد بنا کر یاسین ملک کو پھانسی دیے جانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے تاکہ اسے کشمیر کی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیکر پھانسی دی جائے اور اسے انتخابی اسٹنٹ کے طور پر استعمال کیا جائے۔
شائد یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو ہندوستان میں سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور اسے پورے ہندوستان میں ٹیکس فری کر دیا گیاہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس فلم کو ایک ایسا سچ قرار دیا، جس پر تیس سالوں سے بات نہیں ہو رہی تھی اور یشونت سنگھ نے کہا ہے کہ جو ہندوستانی اس فلم کو نہیں دیکھے گا اسے دو لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے۔ فلم دیکھنے کے بعد ردعمل دینا فطری بات ہے اور اس فلم کو جن سینما ز میں لگایا گیاہے وہاں نصب کئے کیمروں کی فوٹیجز میں عوامی ردعمل کو مین سٹریم میڈیا پر دکھا کر مسلمانوں کے خلاف محاذ بنایا جا رہا ہے۔
حقیقت سے انکار نہیں لیکن آدھا سچ پورے جھوٹ سے کئی زیادہ خطرناک ہوتا ہے جس کا اثر کچھ عرصہ بعد تصویر کا ایک رخ دکھائے جانے پر ہندوستان میں ردعمل کے طور پر سامنے آئے گا۔ یہ فلم کشمیر کی تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فلم میں سچ کے نام پر سچ کو چھپایا گیا ہے اور اسے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہندوستان ایک فلم کی بنیاد پر یاسین ملک کو پھانسی دے گا اور یہ کہا جائے گا کہ اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے پھانسی دی گئی ہے جس طرح افضل گورو اور مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تھی؟
اس فلم کے ریلیز ہونے کے بعد گجرات سمیت ماضی میں بھارت میں ہونے والے فسادات پر فلمیں بنائے جانے کے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔َ