خبریں/تبصرے

نیا گلگت بلتستان: وزیر اعلیٰ کی ایل ایل بی کی ڈگری جعلی نکلی

لاہور (جدوجہد رپورٹ) وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کی بیچلر آف لا (ایل ایل بی) کی ڈگری جعلی نکلی ہے۔ وہ ایک سال قبل ہی انتخابات میں تحریک انصاف کی فتح کے بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے پر براجمان ہوئے ہیں۔

’ٹربیون‘ کے مطابق منگل کو یہ بات سامنے آئی کہ خالد خورشید نے اپنی ڈگری بیلفورڈ کے نام سے کام کرنے والی ایک ڈپلومہ ملز کے نیٹ ورک سے حاصل کی ہے، لیکن یہ نیٹ ورک حقیقت میں موجود ہی نہیں ہے۔

انہیں شاندار تعلیمی کامیابیوں کی وجہ سے ہی اس عہدے پر براجمان کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ سال انہیں بہترین انتخاب قرار دیا تھا۔

’ٹربیون‘ کی ویب سائٹ پر شائع کی گئی دستاویزات کے مطابق خالد خورشید نے جون 2009ء میں بیلفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے اپنی ڈگری حاصل کی تھی۔

ملک واپس آنے پر ان کے رشتہ داروں اور قریبی ساتھیوں نے انہیں بیرسٹر کہہ کر مخاطب کرنا شروع کر دیا تھا اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اس علاقے کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔

وکی پیڈیا کے مطابق بیلفورڈ یونیورسٹی کو 31 اگست 2012ء کو بند کر دیا گیا تھا اور اس کے مبینہ بانی سلیم قریشی کو 22.7 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

فیصلے نے یہ واضح کر دیا تھا کہ بیلفورڈ ہائی سکول اور بیلفورڈ یونیورسٹی جعلی سکول تھے اوران کا کوئی وجود نہیں تھا۔

وکی پیڈیا پر خالد خورشید کا الما میٹر کوئین میری یونیورسٹی لندن بتایا گیا ہے، جبکہ ان کا پیشہ سیاست دان یا بیرسٹر لکھا گیا ہے۔

نومبر 2011ء میں خالد خورشید نے اپنی سند گلگت بلتستان بار کونسل میں جمع کروائی تاکہ وہ ایک مصدقہ وکیل کے طور پر بار کونسل سے لائسنس حاصل کر سکیں۔

جمع کروائی گئی دستاویزات میں ان دستاویزات کی صداقت کی گواہی دینے والا ایک بیان حلفی بھی شامل تھا۔ تاہم ان جمع کروائے گئے دستاویزات میں بیچلرز آف آرٹس کی ڈگری شامل نہیں تھی، جس سے ان کے پروگرام کی تکمیل کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔

تاہم ذرائع کے مطابق جی بی بار کونسل نے ان کی دستاویزات پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کو بطور وکیل پریکٹس کا لائسنس جاری کر دیا۔

لائسنس ہونے کے باوجود خالد خورشید کبھی بھی فعال پریکٹس کرنے والے وکیل نہیں تھے، حالانکہ وہ باقاعدگی سے بار روم میں جاتے تھے۔

انہوں نے پہلی بار 2009ء میں آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا۔ 2015ء میں مسلم لیگ نواز نے انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تو وہ دوبارہ آزاد امیدوار کے طورپر لڑے اور ہار گئے۔

انہوں نے 2018ء میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور انہیں دیامر استور کا ڈویژنل صدر بنایا گیا۔

2020ء میں گلگت بلتستان کے عام انتخابات سے چند روز قبل پی ٹی آئی کے سابق صدر جسٹس جعفر شاہ فوت ہو گئے۔ ان کے اچانک انتقال سے پارٹی میں قیادت کا ایک خلا پیدا ہو گیا تھا۔

خالد خورشید کے رشتہ دار کلیدی عہدوں پر تھے، ایک رشتہ دار بیرون ملک اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے ساتھ کام کر رہا تھا، جو خالد خورشید کو اسد عمر اور سیف اللہ نیازی کے ساتھ بطور بیرسٹر متعارف کروانے میں کامیاب رہے۔ برطانیہ میں رہنے کی وجہ سے خالد خورشید کو انگریزی بولنا اچھا لگتا تھا، اس لئے انہیں اس عہدے کیلئے منتخب کیا گیا۔

اپوزیشن لیڈر امجد حسین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ خالد خورشید کی ڈگری جعلی ہے اور ان کے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ ’میں یہ جان کر حیران تھا اور اب بھی صدمے میں ہوں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ اپنی ذاتی فائدے کیلئے کوئی شخص ایسا کرے گا۔‘

انہوں نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہو جائیں، کیونکہ اب راز کھل یا ہے اور وہ آئین کے آرٹیکل 62 کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts