رائے فضل رسول رضوی
جب کسان گندم اور چاول کی تیار فصل کو فروخت کے لیے پیش کرتا ہے،تب اس فصل کا وزن سیبے کی بوریوں یا پلاسٹک کے تھیلوں میں ڈال کر کیا جاتا ہے، جسے باردانہ کہا جاتا ہے۔
اب دیکھا جائے تو پلاسٹک کے تھیلے کا وزن 100 سے 125 گرام تک ہوتا ہے،جب کہ سیبے والی بوری کا وزن تقریباً 1 کلو گرام ہوتا ہے،لیکن فصل خریدنے والا فی تھیلا 1 کلو گرام اور فی بوری 2 کلو گرام باردانہ کٹوتی کرتا ہے۔
مثال کے طور پر’دھان‘ کی فی بوری بھرائی 67 کلو کی جاتی ہے لیکن اس کا وزن 65 کلو گرام شمار کیا جاتا ہے۔
اسی طرح گندم کی بھرائی فی تھیلا 51 کلو گرام کی جاتی ہے،لیکن اسے 50 کلو گرام شمارکیا جاتا ہے۔یعنی 55 تھیلے خریدنے والا تاجر کٹوتی کے نام پرکسان سے ایک تھیلا زیادہ گندم لے اڑتا ہے۔
آپ اگر اس کٹوتی سے بچنے کے لئے باردانہ استعمال کیے بغیر اپنی فصل بڑے ”کنڈے“ پر بھی وزن کروائیں،تب بھی آپ سے یہ کٹوتی کی جائے گی۔اس کے علاوہ فصل کا وزن کرنے والی لیبر بھی فصل خریدنے والا ہی لاتا ہے۔ اس لئے اس لیبر کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر بوری یا تھیلے میں وزن سے زیادہ فصل ڈالی جائے،یعنی ترازو کے برابر ہو جانے کے بعد بھی اس میں مزید فصل ڈالی جاتی ہے۔جس کا مقصد برابر کی بجائے جھکتا ہوا تولا جانا ہے،جسے ہمارے ہاں ’جیوندا‘ تول کا نام دیا جاتا ہے۔
اب یہ کسان کی قسمت ہے کہ ترازو کے برابر ہو جانے کے بعد ترازو کو جھکانے کے لئے تول کرنے والا شخص فی تھیلا آدھا کلو گرام زائد فصل ڈالتا ہے یا 1 کلوگرام زائد ڈالتا ہے۔
کسانوں سے کیے جانے والے اس ظلم کی اصل وجہ فلور ملز یا رائس ملز والے ہوتے ہیں،کیوں کہ تمام فصل آخر کار وہیں پہنچتی ہے۔اب اگر کوئی آڑھتی یا تھرڈ مین اس کٹوتی سے بچنا بھی چاہے تو ملز والوں سے خود کو نہی بچا پائے گا اور اسے یہ کٹوتی دینی ہی پڑے گی۔
اس لئے اگر فصل کے خریدار اپنے مفاد کے لئے متحد ہو سکتے ہیں تو کسانوں کو بھی مشترکہ طور پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
کسان کے مفاد اور حقوق کیلئے بھی کمیٹی ہونی چاہیے،جو فصل پر آنے والی لاگت کے حساب سے نرخ مقرر کرے۔آخر محنت کش کسان کے ساتھ ہی زیادتی کیوں ہو رہی ہے۔کسانوں کو اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا ہوگی تاکہ نہ صرف حکمرانوں کو کسانوں پر ہونے والے مظالم کی جانب متوجہ کیا جا سکے، بلکہ کسانوں کے حقوق چھین کر لیتے ہوئے اس ظالم کا خاتمہ کیا جاسکے۔