لاہور (حارث قدیر) حکومت پاکستان کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات میں 30 روپے فی لیٹر تک کے تاریخی اضافے کے خلاف شدید عوامی رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی نمائندہ تنظیموں اور عوامی رہنماؤں نے اس اقدام کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے تمام تر بحران کا بوجھ غریب عوام اور محنت کشوں پر ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
پاکستان میں بھر میں محنت کشوں کو منظم کرنے والی معروف تنظیم پی ٹی یو ڈی سی کی جانب سے جاری بیان یہ کہا گیا ہے کہ ’حکومت وقت نے آخر کار آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے سرخم کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔ حکمران طبقے کی اپنی کمزوریوں اور عیاشیوں کی قیمت محنت کشوں اور غریبوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’یہ حکمران طبقے کی کمزوری اور تاریخی خصلت کا اظہار ہے کہ ملک بننے سے اب تک صنعتکاری سمیت قومی ریاست کی تشکیل میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اتنے سالوں میں معاشی خود کفیل ہونے کی بجائے عالمی مالیاتی اداروں کے سہاروں پر ریاست کو چلایا جا رہا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’یو این ڈی پی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں سرمایہ داروں کو 17 ارب ڈالر سے زائد کی مراعات سے نوازا جا رہا ہے۔ حالیہ کورونا بحران میں بھی غریبوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے گئے اور سرمایہ داروں کو نوازا گیا ہے۔
حقوق خلق پارٹی کے رہنما فاروق طارق نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ ’مشکل فیصلے ہمیشہ غریبوں کی جان نکالنے والے ہی کیوں ہوتے ہیں؟ سرمایہ دار طبقات کیلئے ایسے مشکل فیصلے کیوں نہیں کئے جاتے، جن سے ان کے پاس موجود اربوں کی رقم کا کچھ حصہ عوام کیلئے بھی ریاست کو مل جائے۔‘
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد موجودہ حکمرانوں اور سابق حکمرانوں کے ماضی کے بیانات سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ ماضی قریب میں تحریک انصاف کے قائدین پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کو وقت کی ضرورت قرار دیتے تھے اور دنیا کے دیگر ملکوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کو سستا ملک قرار دیتے تھے۔ تاہم اب تحریک انصاف کے قائدین اس اضافے کو ظلم قرار دے رہے ہیں۔
دوسری طرف ماضی میں اضافے کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والے، دیگر ملکوں کی فی کس آمدن اور مقامی کرنسیوں میں قیمتوں کو سامنے لاتے ہوئے تحریک انصاف کو آئی ایم ایف کے اشاروں پر ناچنے والی جماعت قرار دینے والے حکومتی اتحادی اب آئی ایم ایف کے معاہدوں، معیشت کو ہونے والے نقصانات کا حوالہ دے رہے ہیں۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق مرکزی صدر بشارت علی خان کہتے ہیں کہ ’نہ صرف ماضی کے حکمران جھوٹے، عوام دشمن اور سامراجی اداروں کے مطیع اور فرمانبردار تھے، بلکہ موجودہ حکمران بھی اسی روش کو اپنائے ہوئے ہیں۔ پٹرولیم قیمتوں سے سبسڈی کو ختم کرنے کیلئے جو جواز پیش کئے جا رہے ہیں، وہ انتہائی بے ہودہ اور گمراہ کن ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی سے امیرزیادہ مستفید نہیں ہوتے، بلکہ محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کو اشیائے صرف سے ٹرانسپورٹ تک میں ریلیف ملتا ہے۔ البتہ جب ڈائریکٹ ٹیکسوں میں کمی کرنے کے علاوہ سرمایہ داروں کو دی جانے والی مختلف مراعات کیلئے اربوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں، تب غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے اور سرمایہ داروں کو نوازا جاتا ہے۔ اسی طرح ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے، جو صرف اور صرف اس بحران کا تمام تر بوجھ غریب عوام کے کندھوں پر لاد کر سرمایہ داروں کو ریلیف فراہم کرنے کا ہی ایک طریقہ ہے‘۔
انکا کہنا تھا کہ ’جب تک سرمایہ داروں کے نمائندے اقتدار میں موجود ہیں، سرمایہ دار حکمران طبقہ کے طور پر موجود ہیں۔ تب تک کوئی پالیسی، کوئی آئین، کوئی قانون محنت کشوں کی فلاح اور بہبود کیلئے نہ بنایا جا سکتا ہے، اور نہ ہی اس پر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔ محنت کش طبقہ جب تک اقتدار اپنے ہاتھ میں نہیں لیتا تب تک اس کا مقدر نہیں بدلا جا سکتا۔‘
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے جوائنٹ سیکرٹری ڈاکٹر چنگیز ملک کا کہنا ہے کہ ’سبسڈیز چھین کر حکمران محنت کش طبقے کو بھکاری بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ صرف موٹر سائیکل اور رکشہ چلانے والے کو ہی غریب قرار دیکر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے نقصانات کا صرف انہیں شکار بتا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے اس ملک کے 20 کروڑ عوام مہنگائی میں خوفناک اضافے سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات میں سبسڈی فوری بحال کی جائے۔ آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے تمام بیرونی قرضوں کو ضبط کرتے ہوئے محنت کشوں کی فلاح کیلئے اقدامات کئے جائیں۔‘
چنگیز ملک کا کہنا ہے کہ ’سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنا ہو گا۔ محنت کشوں کو حقوق بھیک کی صورت دینے کے ہر منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافے، عدم روزگار کی صورت بیروزگاری الاؤنس کی فراہمی اور خوراک و ٹرانسپورٹ پر سبسڈیز کی فراہمی کیلئے جدوجہد کے میدان میں اترنا ہوگا۔ حقوق چھین کر لینے کا وقت آچکا ہے۔‘
پی ٹی یو ڈی سی کی جانب سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ’پارٹیاں اور چہرے بدلنے سے حالات نہیں بدلتے، عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد ناگزیر ہے اور یہ فریضہ صرف محنت کش ہی ادا کر سکتے ہیں۔‘