نقطہ نظر

ٹراٹسکی کی نئی سوانح حیات: مہیب اشتعال انگیزی پر تاریخ کے خلاف خالی ہاتھ لڑائی

ڈیو کیلوے

ترجمہ: فاروق سلہریا

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں نئے سوشلسٹ کارکنوں نے مارکسی تحریک کے لئے لیون ٹراٹسکی کی خدمات بارے آئزک ڈشر کی تحریر کردہ لازوال سوانح عمری کے ذریعے جانکاری حاصل کی۔ ٹراٹسکی کی زندگی بارے یہ کتاب تین جلدوں پر محیط تھی:

(۱) The Prophet Armed
(۲) The Prophet Unarmed
(۳) The Prophet Outcast

یہ کہنا درست ہو گا کہ ٹراٹسکی بارے بہت سے لوگوں نے ٹراٹسکی کے نظریات بارے اس کی تحریریں پڑھ کر اتنی جانکاری حاصل نہیں کی ہو گی جتنی مندرجہ بالا سوانح عمری کے ذریعے۔

آج کے دور میں جو لوگ تحریک کا حصہ بن رہے ہیں، وہ اس طرح کی روایات اور عمل سے گزر کر نہیں آتے جو ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کا خاصہ تھا۔ یوں ایلن ٹاڈ کی یہ کتاب وقت کی اہم ضرورت تھی۔ تقریباً دو سو صفحات پر مشتمل یہ سلیس اور جامع کتاب نہ صرف ٹراٹسکی کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے بلکہ اس کے مرکزی نظریات کا عمدہ خلاصہ بھی پیش کرتی ہے۔

اس کتاب میں ٹراٹسکی کی شخصیت اور سیاسی اختلافات کی باہمی چپقلش کو بہت اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ تاریخ کی تشکیل بڑی شخصیات نہیں کرتیں ہاں البتہ ان شخصیات کا رجحان کیا تھا اور لوگوں کے ذہنوں میں ان کی کیا شبیہہ تھی، بعض سیاسی حالات پر ضرور اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ سٹالن کے ہاتھوں ٹراٹسکی کی شکست کی وجوہات بلا شبہ معروضی تاریخی حالات کا نتیجہ تھی۔ یہ حالات کیا تھے؟ روسی معیشت کی پسماندگی، خانہ جنگی کے بعد انقلابی قوتوں کا تھک جانا اور انقلاب روس کی عالمی تنہائی…مگر ٹراٹسکی کی حد درجہ خود اعتمادی، بلا کی ذہانت، کسی حد تک مغرور ہونا، باقیوں سے بنا کر نہ رکھنا، یہ ایسے شخصی پہلو تھے جن کا بھر پور فائدہ سٹالن نے اٹھایا جو پارٹی آپریٹس کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں خوفناک مہارت رکھتا تھا۔

ایلن ٹاڈ کو اپنی تحقیق کے لئے آئزک ڈشر کے کندھے دستیاب تھے۔ ٹاڈ کی کتاب میں بے شمار حوالے اور بیانات ڈشر کی کتاب سے نقل کئے گئے ہیں ہاں البتہ ڈشر کی تحقیق اور دعوؤں کا نئے سرے سے جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹاڈ نے ٹراٹسکی کی حال ہی میں لکھی گئی ایک سوانح عمری کے بخئے بھی ادھیڑے ہیں۔ مذکورہ سوانح عمری کے مصنف رابرٹ سروس نے تحقیق کا کافی تیا پانچہ کیا ہے۔ بقول شخصے رابرٹ سروس نے کہا تھا: ”اگر ٹراٹسکی آئس پک (Ice Pick) سے ہلاک نہ ہوا ہوتا تو میں اسے (اپنی کتاب کے ذریعے) ہلاک کر دیتا“۔ کیمونسٹ مخالف رابرٹ سروس جیسے لوگوں کے لئے سٹالن اور ٹراٹسکی میں کوئی فرق نہیں۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ٹراٹسکی کو شکست نہ بھی ہوتی تو بھی کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔ ٹاڈ کی کتاب ثابت کرتی ہے کہ 1923ء کے بعد سٹالن کے ابھار اوربعد ازاں، لیفٹ اپوزیشن کی تشکیل تک، دونوں رہنماوں کے مابین اخلاقی، نظریاتی اور سیاسی اختلافات بنیادی نوعیت کے تھے۔

اندریں حالات، بعض ٹراٹسکی اسٹ گروہ ہیں جو ٹراٹسکی کو ایک پیغمبر کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کی تحریریں ابدی سچائی کے مانند۔ موجودہ کتاب میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ٹراٹسکی کی تعلیمات عہد حاضر کے لئے بھی مرکزی حیثیت رکھتی ہیں مگر یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ ٹراٹسکی کی شخصیت کے کچھ پہلو اس کی طاقت تھے، کچھ پہلو اس کی کمزوری۔ ٹاڈ نے ایسے ہی ایک پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ کس طرح ٹراٹسکی کی ایک طاقت اس کی کمزوری بن جاتی ہے۔

روسی انقلابی ٹراٹسکی کو ’قلم‘ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ نہ صرف ٹراٹسکی بہت زیادہ لکھتا تھا بلکہ اس کی تحریروں میں دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیت بھی تھی۔ ٹراٹسکی 1905ء اور 1917ء میں پیٹروگراڈ سوویت کا رہنما بن کر ابھرا۔ انقلاب روس کے بعد اس نے سرخ فوج کی قیادت کرتے ہوئے کامیابی دلائی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی مہذب دانشور بھی تھا جسے کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ٹراٹسکی قلم اور نظریات کی طاقت میں بہت زیادہ یقین رکھتا تھا۔ بدقسمتی سے سیاست میں لازمی نہیں کہ قلم اور نظریات، چاہے درست ہی کیوں نہ ہوں، ایک ایسی منظم اپوزیشن کو شکست دے سکیں جس کے پاس مفادات سے جڑی سماجی بنیاد بھی موجود ہو۔ ٹراٹسکی نے اس بات کو بلا جواز اہمیت دی کہ سوویت روس کے درست تجزئیے کی بنیاد پر وہ پارٹی کو دوبارہ جیت لے گا۔ ٹراٹسکی کا خیال تھا کہ محدود سوچ رکھنے والا، خالی دماغ سٹالن کوئی خطرہ نہیں بن سکتا۔ ٹاڈ کے مطابق ٹراٹسکی کی غلطی کی بنیاد یہ نکتہ تھا کہ وہ پارٹی کے اتحاد کو مقدس سمجھتا رہا اور اس اتحاد کو برقرا رکھنے کے لئے وہ کھل کر سٹالن کی مخالفت میں نہیں آیا۔

ٹراٹسکی کی نظریات اور الفاظ کی طاقت میں یقین کا اظہار آج بھی بعض انقلابی گروہوں کے طرز عمل میں جھلکتا ہے جب وہ، بغیر کسی بڑے سماجی اثر و رسوخ کے، محنت کش طبقے کو ’عام ہڑتال‘ یا ’ٹوری حکومت‘ کے خاتمے کی اپیل کرتے ہیں۔ ایسی اپیلیں حقیقی زندگی میں موجود طبقاتی قوتوں کے مابین توازن کو پیش نظر رکھے بغیر کی جاتی ہیں۔

دوسری عالمی جنگ…جس کی ٹراٹسکی نے درست طور پر پیش گوئی کی تھی…سے کچھ پہلے ٹراٹسکی کو اعتماد تھا کہ جنگ کے بعد جب انقلابی ابھار آئے گا تو چوتھی انٹرنیشنل میں منظم چند ہزار کارکن سٹالنسٹ قیادت کا متبادل بن کر ابھریں گے کیونکہ ان کے نظریات درست ہیں۔ اگر ٹراٹسکی قتل نہ ہو جاتا تو ممکن ہے ٹراٹسکی اپنے اس تجزئیے پر نظر ثانی کرتا۔ ٹاڈ کی کتاب ٹراٹسکی کی زندگی کے مختلف عہدوں میں تقسیم کر کے پیش کرتی ہے۔

عہد جوانی اور ابتدائی ریڈیکل ازم

ابتدائی طور پر دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ٹراٹسکی نے ایک ایسے یہودی خاندان میں پرورش پائی جس کا تعلق زار شاہی روس میں شامل جنوبی یوکرین سے تھا اور یہ خاندان زراعت کے ساتھ منسلک تھا۔ ماں نے ٹراٹسکی کو پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی جانب راغب کیا تو والد کی بطور زمیندار کامیابی نے بھی ٹراٹسکی کو اعتماد دیا۔ گو یہ الگ بات ہے کہ ٹراٹسکی کو بعد ازاں اندازہ ہونے لگا کہ اس کی والد کی زمینوں پر انسانوں کے مابین عدم مساوات پائی جاتی ہے۔ اوڈیسا میں جب سکول جانا شروع کیا تو ادب اور مغربی یورپ سے شناسائی پیدا ہوئی۔ ٹراٹسکی کو اطالوی اُوپرا اور ادب سے پیار تھا۔ کلاس میں ہمیشہ ٹاپ کیا۔

سیاسی تربیت کا آغاز تب ہوا جب وہ ایک اور شہر میں سپینتسر خاندان کے ہاں رہنے لگے۔ یہ خاندان انتہائی مہذب تھا اور زار شاہی کا مخالف۔ ایک نرودنک گروپ کی رکنیت حاصل کی مگر مارکسزم سے تعارف اپنی پہلی بیوی سوکولوسکایا سے تعلق کے نتیجے میں ہوا۔ سوکولوسکایا عمر میں ٹراٹسکی سے بڑی تھی۔ گو ٹراٹسکی ایک لائق طالب علم تھا لیکن عملی سیاست میں حصہ لینے کے لئے ٹراٹسکی نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ ٹراٹسکی نے مقامی مزدوروں کو ساؤتھ رشین ورکرز یونین میں منظم کرنا شروع کر دیا۔ اس کام کی پاداش میں کرسان جیل میں قید کر دیا گیا جہاں سے اسے جلا وطن کر دیا گیا۔ ٹراٹسکی اپنے گروپ کے تمام اخبارات میں لکھتا بلکہ زیادہ تر مواد اسی کی تحریروں پر مبنی ہوتا۔ اوڈیسا کی جیل میں اس کا ٹاکرا ایک جیل کے وارڈن سے ہوا جو ٹراٹسکی کے نام سے مشہور تھا۔ بعد ازاں ٹرٹسکی نے اسی کا نام اپنا لیا۔ بیوی کے ہمراہ سربیا میں جلا وطنی کے لئے بھیجا گیا تو راستے میں لینن کی کتاب ’ڈویلپمنٹ آف کیپیٹلزم اِن رشیا‘ کا مطالعہ کیا۔

ٹراٹسکی کی زندگی بارے ایک اہم واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ٹراٹسکی اپنے کپڑے خود دھوتا جبکہ باقی کامریڈز اپنے کپڑے دھلنے کے لئے خواتین کامریڈز کو دیتے۔ ”ٹراٹسکی ایسے لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیتا جو روایتی بورژوا ہونے کی وجہ سے اس کام کا بوجھ اپنی عورتوں پر ڈال دیتے“ (ص:24)۔

جلا وطنی میں ٹراٹسکی نے یہ بڑا فیصلہ کیا کہ وہ فرار ہو جائے گا اور بیرون ملک متحرک جلا وطن سوشلسٹ تحریک میں شامل ہو جائے گا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ اپنے بیوی بچوں کو ایک مشکل صورتحال میں چھوڑ جانا۔ ٹاڈ کے مطابق رابرٹ سروس نے اس فیصلے کی بنیاد پر ٹراٹسکی کو ایک بے رحم شخص بنا کر پیش کیا ہے۔ ٹاڈ البتہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے ثبوتوں کی مدد سے دعویٰ کرتا ہے کہ ٹراٹسکی کے فرار کے فیصلے میں سوکولوسکایا بھی شامل تھی۔ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ سوکولوسکایا اپنے اس فیصلے پر پچھتائی ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سوکولوسکایا کے ٹراٹسکی کی دوسری بیوی سوڈووا کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے۔

روس کی جلا وطن حزب اختلاف

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ٹراٹسکی لندن میں کنگز کراس کے قریب واقع ہالفورڈ اسکوائر میں لینن کے فلیٹ پر پہنچا اور علی الصبح لینن کو بستر سے نکل کر دروازہ کھولنا پڑا۔ تانگے کا کرایہ بھی ادا کرنا تھا۔ 1905ء کے واقعات تک، ٹراٹسکی روس کی مارکسی تحریک میں ابھرنے والے گروہوں، بالشویک اور مینشویک، کے مابین ہونے والے مباحث میں سرگرمی سے حصہ لیتا رہا۔ ان دھڑوں کے بیچ ہونے والے کچھ مکالمے برطانیہ کے انقلابی لیفٹ کے بیچ ہونے والی دھڑے بندیوں اورسپلٹس سے ملتے جلتے تھے۔ کسی حد تک ذاتی دوستیوں، بالخصوص مارٹوف کے ساتھ دوستی کی وجہ سے، ٹراٹسکی مینشویک دھڑے کے ساتھ رہا البتہ اس کی کوشش تھی کہ بالشویک دھڑے کے ساتھ اتحاد کی گنجائش نکالی جائے۔ پارٹی کے حوالے سے لینن کے ضرورت سے زیادہ ’سازشی‘ ماڈل سے بھی ٹراٹسکی خائف تھا۔ جب 1905ء میں انقلابی صورتحال بنی، جو کافی حد تک 1917ء کے انقلاب کا پیش خیمہ تھی، تو ٹراٹسکی نے دونوں دھڑوں کے ساتھ مل کر کام کیا اور بالشویک حلقوں میں بھی عزت و تکریم حاصل کی۔ بعد ازاں، سٹالن نے اس دور کے اختلافات کو یہ ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا کہ ٹراٹسکی کبھی بھی حقیقی بالشویک نہ تھا۔

1907ء تا 1917ء ٹراٹسکی ویانا میں رہا اور یہ دور ایسا تھا کہ ویانا یقینا رہنے کے قابل جگہ تھی۔ ان دنوں لینن، ٹراٹسکی، فرائڈ اور آڈلر کو اکثر مختلف کیفوں میں اٹھتے بیٹھتے دیکھا جا سکتا تھا۔ 1905ء میں ہونے والی شکست کے بعد یہ دور دونوں دھڑوں میں اتحاد کے لئے اور بھی مشکل تھا۔ ٹاڈ اس موقع پر ٹراٹسکی کی ایک کمزوری کو اجاگر کرتا ہے:

”بالشویک دھڑے کے حوالے سے، ٹراٹسکی نے معاملات کو اور بھی بگاڑ دیا کہ بالشویکوں پر تو اس نے ’پراودا‘یا دیگر اخبارات میں مضامین لکھ کر سر عام تنقید کی البتہ مینشویکوں پر اس کی تنقید ذاتی خطوط یا نجی محفلوں تک محدود رہی۔ یہ دور ثابت کرتا ہے کہ ٹراٹسکی دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور ہمدردوں کی بڑی ٹیم بنا کر کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا“ (ص:63)۔

پہلی عالمی جنگ کے موقع پر دوسری انٹرنیشنل کا انہدام ہو گیا کیونکہ مختلف ملکوں کی سوشلسٹ پارٹیوں نے اس جنگ میں اپنے اپنے ملک کی بورژوازی کی حمایت کر دی جس کا مطلب تھا کہ ایک ملک کے مزدور دوسرے ملک کے مزدوروں کا خون بہائیں۔ دوسری انٹرنیشنل کے اس موقف نے روس کے جلا وطن انقلابیوں پر بہت سی باتیں واضح کر دیں۔ ٹراٹسکی کے انٹرنیشنل ازم کے حوالے سے ٹاڈ کی کتاب میں ایک اہم واقعہ درج ہے۔ جب ٹراٹسکی روس واپس جا رہا تھا تو نووا سکوٹیا میں اسے پولیس نے گرفتار کر لیا اور زبردستی جنگی قیدیوں کے کیمپ میں بھیج دیا۔

”ہمیشہ کی طرح انقلابی، ٹراٹسکی…جنگی قیدی نمبر…1098نے جرمن زبان پر عبور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمن قیدیوں کو زمروالڈ مینی فیسٹو، جرمنی میں کارل لیبکنیخت کی جنگ مخالف مہم اور انقلاب روس کی اہمیت بارے بتانا شروع کر دیا۔ ٹراٹسکی کے انقلابی اثر و رسوخ سے کیمپ کے منتظمین اور جرمن افسروں، کو تشویش لاحق ہو گئی۔ سو ٹراٹسکی پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ مزید کسی قسم کی اجلاس سے خطاب نہیں کر سکتا۔ آخر کار، 29 اپریل کو ٹراٹسکی کو رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے وقت ٹراٹسکی کو رخصت کرنے کے لئے جرمن قیدیوں نے (مزدوروں کا عالمی ترانہ) انٹرنیشنل گایا“۔

انقلاب روس کا رہنما اور سرخ فوج کی قیادت

روس واپسی پر ٹراٹسکی نے لینن کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا کہ مینشویک سے اتحاد اب ممکن نہیں رہا۔ اپنے ’اپریل تھیسس‘کے ذریعے لینن نے بھی ٹراٹسکی سے اتفاق کیا کہ پرولتاری آمریت کی فوری ضرورت ہے اور سوشلسٹ انقلاب سے قبل بورژوا انقلاب کے مرحلے سے گزرنا ضروری نہیں۔ قارئین واقف ہیں کہ کس طرح لینن اور ٹراٹسکی، جو سوویتس کارہنما تھا، نے مل کر کام کیا۔ ٹاڈ نے بتایا ہے کہ خانہ جنگی کے دوران سپیشل ٹرین پر سوار ٹراٹسکی کا کردار کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ ٹراٹسکی نے سپاہیوں کو (فیصلہ سازی) میں شامل کرنے کے جو انقلابی اور غیر روایتی طریقے استعمال کئے ان کی وجہ سے حفظ مراتب کا خیال رکھنے والے بعض بالشویک رہنما بھی جز بز ہوئے۔ ٹاڈ نے ان سخت اقدامات اور ٹیرر پر مبنی پالیسی کا بھی ذکر کیا ہے جو ٹراٹسکی نے سرخ فوج میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لئے استعمال کی۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں ایسے طریقے معیوب نہیں سمجھے جاتے تھے۔ فرانسیسی فوج نے بھی ایسا کیا جیسا کہ کُبریک کی شاندار فلم ’پاتھس آف گلوری‘ میں دکھایا گیا ہے۔

سٹالن نے کیسے شکست دی؟

باب نمبر 7 میں ٹاڈ نے اس اہم تاریخی سوال کا جائزہ لیا ہے جو اکثر لوگ پوچھتے ہیں: سوویتس کے رہنما، سرخ فوج کے کمانڈر، اتنے ذہین انسان اور زبردست مقرر کو سٹالن جیسے شخص نے کیسے شکست دے دی؟ کسی حد تک تو سٹالن کا راستہ خود ٹراٹسکی نے اس فیصلے کی حمایت سے صاف کر دیا کہ ملٹی پارٹی جمہوریت کے ساتھ ساتھ جب پارٹی کے اندر بھی دھڑے بنانے پر پابندی لگا دی گئی۔ دسویں پارٹی کانگرس میں ٹراٹسکی نے ’ورکرز اپوزیشن‘ اور’ڈیسیمسٹس‘ (Decemists) کی مخالفت کی:

”ٹراٹسکی نے ان پر الزام لگایا کہ وہ مزدوروں کے اس حق کو کہ وہ اپنے نمائندے خود منتخب کر سکتے ہیں پارٹی پر فوقیت دے رہے ہیں…اور ٹراٹسکی کا استدلال تھا کہ عوام کے موڈ میں اچانک اگر وقتی طور پر کوئی بدلاؤ آ بھی رہا ہو تو بھی پارٹی ڈکٹیٹرشپ قائم رہنی چاہئے“(ص:116)۔

ٹراٹسکی نے ٹریڈ یونینز کی ملڑائزیشن اور ان پر مکمل پارٹی کنٹرول کی بات بھی کی۔ ٹاڈ کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں ٹراٹسکی کا نقطہ نظر خالصتاً انتظامی اور سنٹرلسٹ تھا اور اس نے اس کے سیاسی مضمرات کو نہیں بھانپا۔ دو سال بعد ٹراٹسکی سٹالن کے خلاف یہی الزامات دہرا رہا تھا۔

ٹراٹسکی یہ اندازہ بھی درست طور پر نہ لگا سکا کہ پارٹی میں جو تبدیلیاں آ رہی تھیں وہ کتنی اہمیت کی حامل تھیں۔ پرانے کارکن جنہیں ٹراٹسکی پارٹی کے اندر زوال پذیری کے خلاف ایک دیوار سمجھتا تھا، وہ کمزور ہو رہے تھے۔ ادہر، سٹالن جو نئی رکن سازی کر رہا تھا وہ سارے ارکان سٹالن کا ساتھ دیتے نہ کہ ٹراٹسکی کا۔ دیگر رہنماؤں کے ساتھ گھلنے ملنے سے پرہیز بھی ٹراٹسکی کی کمزوری ثابت ہوئی۔ سٹالن نے ٹراٹسکی کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کے ساتھ سماجی تعلقات قائم نہ کرنے کا فائدہ اٹھایا اور اس کی مخالفت کو ہوا دی۔ ٹراٹسکی کے خلاف ہر طرح کے جھوٹ پھیلائے۔ کامیابی اور بلا کی ذہانت کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ انسان کے ساتھیوں میں حسد پیدا ہو سکتا ہے۔

بارہویں پارٹی کانگر س میں بھی ٹراٹسکی سٹالن کے خلاف کھل کر محاذ کھولنے سے ہچکچا رہا تھا حالانکہ لینن اپنی وصیت میں کھل کر کہہ چکا تھا کہ سٹالن کو ہٹایا جائے۔ لینن کی موت کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ سٹالن کو پارٹی سے بعض دستاویزات خفیہ رکھنا آسان ہو گیا۔ حکمت عملی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ٹراٹسکی اپنے حامیوں کو منظم کرتا اور جو سرکاری عہدے پیش کئے جا رہے تھے، ان میں سے کوئی اہم عہدہ قبول کرتا۔ اس کے برعکس ٹراٹسکی نے اس بات کو اہمیت دی کہ وہ ’نیا راستہ‘ میں اپنا پروگرام شائع کرے۔ شائد وہ پھر یہی سمجھ رہا تھا کہ اس کے نظریات کی مدد سے سٹالن کو شکست دی جا سکتی ہے۔ ٹاڈ اس بات کا اعادہ بھی کرتا ہے کہ معروضی طاقتیں ٹراٹسکی کے خلاف تھیں:

”1921ء کے آتے آتے لوگ اکتا چکے تھے۔ ٹراٹسکی کی رومانی بیان بازی اور انقلاب پر اکساتی باتیں بے وقت محسوس ہو رہی تھیں۔ 1921ء کے بعد لینن ایسی خاموش طبع، لگن سے کام کرنے والی ایسی قیادت کی ضرورت تھی جو عوام کا سیاسی موڈ سمجھ سکتی تھی“ (ص:125)۔

خراب صحت بھی ٹراٹسکی کے راستے کی رکاوٹ بنی کیونکہ اہم موقعوں پر وہ بحالی صحت کے لئے چھٹی پر ہوتا۔ لینن کے جنازے کے موقع پر بھی ایسا ہوا گو اس موقع پر سٹالن نے جنازے کی تاریخ بارے ٹراٹسکی کو غلط اطلاع دی اور جنازے سے اس کی غیر موجودگی کو بعد ازاں پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا۔

تیرہویں پارٹی کانگرس کے موقع پر سٹالن نے اپنے بھرتی کئے ہوئے ڈیلی گیٹس کو جمع کر رکھا تھا۔ اس موقع پر بھی پارٹی بارے ٹراٹسکی کی خوش فہمیاں برقرار رہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ پارٹی ہی ٹھیک کہتی ہے اور اس نے تسلیم کیا کہ وہ پارٹی کے نظم و ضبط کو برقرار رکھے گا۔ ”حتمی تجزئیے میں پارٹی ہمیشہ درست ہوتی ہے…“۔ کامینف اور زینوف جب حزب اختلاف میں چلے گئے تو ان سے رابطہ کرنے میں بھی مشکلات رہیں۔ اس کے باوجود پارٹی میں ہنوز ٹراٹسکی کے لئے حمایت موجود تھی۔ ایک اجلاس میں دو ہزار لوگ ٹراٹسکی کو سننے آئے۔ حکام کی طرف سے جب جلسہ گاہ کی بجلی کاٹ دی گئی تو ٹراٹسکی نے موم بتیوں کی روشنی میں تقریر جاری رکھی اور طنزیہ کہا ”لینن نے کہا تھا سوشلزم نام ہے سوویتس اور بجلی کا۔ سٹالن نے سوویتس کا گلا تو گھونٹ ہی دیا ہے، اب بجلی بھی کاٹ دی ہے“ (ص:141)۔

سٹالن کو بار بار تاریخ نئے سرے سے لکھنی پڑی۔ جب آئین سٹائن کی فلم ’اکتوبر: دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے دس دن‘ ریلیز ہوئی تو رجیم کو اندازہ ہوا کہ فلم میں ٹراٹسکی کا کردار بہت بڑا دکھایا گیا ہے (گو حقیقت بھی یہی تھی)۔ سو فیصلہ ہوا کہ فلم نئے سرے سے ایڈٹ کی جائے۔

جلا وطنی اور قتل

ٹراٹسکی کے ساتھی ایک ایک کر کے سٹالن کے سامنے ہتھیار ڈالنے لگے۔ ٹراٹسکی کو جلا وطن کر دیا گیا۔ پہلے روس کے اندر، پھر ترکی۔ ترکی کے بعد اس کی حالت یہ تھی کہ اسے کوئی سرمایہ دار ملک سیاسی پناہ دینے پر تیار نہ تھا کہ وہ بھی اتنے ہی خوفزدہ تھے جتنا سٹالن۔ برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اس وقت سوویت روس سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کر سکتاجب تک ٹراٹسکی کو ”فائرنگ اسکواڈ کے حوالے نہیں کیا جاتا“ (ص:161)۔

گو ٹراٹسکی کے پاس کوئی سیاسی طاقت نہ بچی تھی لیکن اس کے باوجود اس نے جرمنی میں فاشزم کے ابھار کا بہترین تجزیہ پیش کیا۔ ٹراٹسکی نے شروع میں ہی یہ تجویز دی کی کہ تمام مزدور پارٹیاں مل کر فاشزم کا راستہ روکیں۔ اگر ایسا ہوتا تو شائد ہٹلر کا ہی راستہ روکنا ممکن نہ ہوتا، بلکہ دوسری عالمی جنگ کی تباہیوں سے بھی شائد بچا جا سکتا تھا۔ ٹراٹسکی کی تحریروں کی دور اندیشی اور ان میں پائی جانے والی وضاحت اس لئے بھی قابل ستائش ہے کہ وہ ان دنوں جرمنی میں تھا بھی نہیں۔ اسے فاشزم کے تجزئے کے لئے اس وقت کے پریس یا کامریڈز کے ساتھ خط و کتابت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔

آخر کار میکسیکو نے ٹراٹسکی کوسیاسی پناہ دے دی۔ وہاں اس کا فریدو کوہلو کے ساتھ کچھ دیر آفیئر چلا۔ تحقیقات کے بعد، ڈئیوی کمیشن نے ٹراٹسکی پر لگائے گئے سٹالن کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ سٹالن کا ایجنٹ رامون مرسادیر ٹراٹسکی کو قتل کر دیتا ہے۔ ٹراٹسکی کے آخری ایام اور قتل بارے دو بہترین کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ایک تو ہے کیوبن مصنف، لیوناردو پادورا، کی تصنیف ’دی مین ہُو لووڈ ڈاگس‘ (The Man Who Loved Dogs) اور دوسری ہے باربرا کنگ سلوور کی ’Lacuna‘۔

ایلن ٹاڈ کی کتاب ٹراٹسکی کی زندگی اور کام بارے بہترین تعارف ہے۔ پوری کتاب میں نظریات اور سیاسی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کو انسانی پہلووں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مجھے مندرجہ ذیل واقعہ بہت پسند آیا کہ جب انقلاب روس کے بعد ٹراٹسکی کا والد اسے ملنے آیا۔

”خانہ جنگی میں اپنی زمین کھو دینے کے بعد ٹراٹسکی کا والد ماسکو آیا۔ سوڈووا اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہے: ’باپ بیٹا ایک دوسرے کو گرم جوشی سے ملے…والد نے کہا: باپ بے چارے عمر بھر محنت کرتے ہیں تا کہ اپنے بڑھاپے کے لئے کچھ بچا سکیں۔ پھر بیٹے آ کر انقلاب کر دیتے ہیں۔“

ٹراٹسکی کو پتہ تھا کہ سٹالن اس کی جان لے لے گا پھر بھی اس کی انقلابی امید پرستی میں کبھی کمی نہیں آئی۔ اگر آپ کوئی تبدیلی نہیں لانا چاہتے تو مایوس ہونا آسان ہوتا ہے۔

”تاریخ کو اسی طرح لیا جائے جیسا کہ وہ ہے۔ جب تاریخ ایسے غیر معمولی اور مکروہ اشتعال انگیزیوں کی اجازت دیتی ہے تو پھر انسان کو چاہئے کہ خالی ہاتھ بھی اس کے ساتھ لڑئے“ (ص:195)۔

(بشکریہ: اینٹی کیپٹلسٹ رززٹنس ’Anti Capitalist Resistance‘ برطانیہ)

Roznama Jeddojehad
+ posts