خبریں/تبصرے

عالمی این جی اوز کو سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں سے روک دیا گیا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) 75 لاکھ ڈالر خرچ کرنے اور انسانی امداد فراہم کرنے کیلئے 7 لاکھ 77 ہزار 666 لوگوں تک پہنچنے کے بعد بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو متاثرہ اضلاع میں امدادی سرگرمیاں انجام دینے میں پابندیوں کا سامنا ہے۔

’ڈان‘ کے مطابق اگرچہ پاکستان نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ تباہ کن سیلاب سے نمٹنے کیلئے عالمی امداد شروع کرے، تاہم حکام اب بھی پاکستان میں پہلے سے کام کرنے والی بین الاقوامی این جی اوز کو اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان ہیومینٹیرین فورم (پی ایچ ایف) کے کنٹری کوآرڈی نیٹر سید شاہد کاظمی نے کہا کہ 2005ء کے زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب میں بین الاقوامی این جی اوز نے شاندار کردار ادا کیا۔

انکا کہنا تھا کہ ”اس بار تباہی بہت بڑی ہے، بہت سی بین الاقوامی این جی اوز ملک میں موجود نہیں ہیں۔ ایسی پالیسیوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے، جو بین الاقوامی این جی اوز کے کام میں رکاوٹ اور تاخیر کا باعث بنتی ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں سرفہرست ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کیلئے انتہائی خطرے سے دوچار ہیں اور موجودہ انسانی بحران سے بہتر طریقے سے نمٹنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بین الاقوامی این جی اوز کو سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔“

انہوں نے کہا کہ ”حکام کو فی الوقت بین الاقوامی این جی اوز اور مقامی این جی اوز کو عدم اعتراض سرٹیفکیٹ (این او سی) کی شرائط سے مستثنیٰ قرار دینا چاہیے اور انہیں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے آفت زدہ علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دینی چاہیے، جیسا کہ کورونا وبا کے دوران اپنایا گیا تھا تاکہ فوری طور پر امداد فراہم کی جا سکے۔

انکا کہنا تھا کہ ”اس کے علاوہ پاکستان میں نئی بین الاقوامی این جی اوز کیلئے فوری رجسٹریشن کے عمل کی ضرورت ہے تاکہ ضرورت مندوں کو تیز رفتاری سے انسانی امداد فراہم کی جا سکے۔“

واضح رہے کہ پی ایچ ایف 38 بین الاقوامی این جی اوز کا ایک نمائندہ ادارہ ہے جو وزارت داخلہ سے رجسٹرڈ ہے اور پاکستان میں مختلف انسانی اور ترقیاتی اقدامات کیلئے کام کر رہا ہے۔

تازہ ترین اعداد و شماراس با ت پر روشنی ڈالتے ہیں کہ مجموعی طور پر 33 ملین افرادحالیہ سیلاب اور غیر معمولی موسمی پیٹرن سے متاثر ہوئے ہیں اور تقریباً 6.4 ملین افراد کو بنیادی ضروریات کی اشد ضرورت تھی، جن میں خوراک، رہائش وغیرہ شامل ہیں۔

بلوچستان کے 37 اضلاع، سندھ کے 33 اضلاع، خیبرپختونخوا کے 25 اضلاع، پنجاب کے 7 اضلاع، پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان کے 4 اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے 4 اضلاع میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے۔

اس کے علاوہ 9 لاکھ 49 ہزار 858 سے زائد مکانات بری طرح تباہ ہوئے ہیں، 20 لاکھ ایکٹر فصلیں متاثر ہوئی ہیں اور 7 لاکھ 19 ہزار 558 مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔

پی ایچ ایف کے اراکین سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈی نیٹر جولین ہارنیس نے کہا کہ اتنے بڑے بحران کے اجتماعی، مربوط اور موثر رد عمل کیلئے قومی اور بین الاقوامی یکجہتی کی ضرورت ہے۔

پی ایچ ایف کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین فرحان احمد خان نے کہا کہ لوگوں کو معمولی زندگی میں واپس لانے کیلئے ہر سطح پر بڑے پیمانے پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو بین الاقوامی این جی اوز اور انسانی ہمدردی کے اداروں کو سہولیات فراہم کرنی چاہئیں، جنہوں نے اس آزمائشی وقت میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔

22 این جی اوز میں ایکشن اگینسٹ ہنگر، کیئر انٹرنیشنل، ہیلپ ایج، ایچ ایچ آر ڈی، ہیلویتاس، ہیومن اپیل، آئی ایم سی، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی، اسلامک ریلیف، مسلم ایڈ، این سی اے، قطر چیریٹی، ریلیف انٹرنیشنل، سیودی چلڈرن، ڈبلیو ایچ ایچ، ایس آئی ایف، سی بی ایم، اے کے اے ایچ، مرسی کارپس اور دیگر شامل ہیں،جنہوں نے وسیع رد عمل فراہم کرتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ 1 لاکھ 53 ہزار 898 افراد تک انسانی امداد پہنچائی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts