لاہور (جدوجہد رپورٹ) بلوچستان کے ضلع چاغی میں سرحدی تجارت سے منسلک 200 سے زائد گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو گاڑیاں چھین کر صحرا میں پیدل چھوڑ دینے کی وجہ سے مبینہ طور پر 3 ڈرائیوروں کی ہلاکت اورسکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے باعث ایک ڈرائیور حمید اللہ کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
احتجاج کرنے والے مظاہرین پر بھی فورسز کی مبینہ فائرنگ کے باعث 7 مظاہرین بھی زخمی ہوئے ہیں۔ ’بی بی سی‘ کے مطابق حمید اللہ بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی کے علاقے ڈھک میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔ وہ زمباد گاڑی میں افغانستان سے واپس آ رہا تھا۔
حمید اللہ کے بھائی کا الزام ہے کہ اس کے سر پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ تاہم سکیورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ ڈرائیور نے سکیورٹی اہلکار کو ٹکر مار کر فرار ہونے کی کوشش کی جس پر دفاع میں کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوا۔
ادھر چاغی کے ہی ریگستان میں سرحد کے آر پار سامان کی ترسیل کرنیو الی 200 کے قریب گاڑیوں کے ڈرائیوروں سے سکیورٹی فورسز کی جانب سے بیٹریاں اور چابیاں نکال کر ڈرائیوروں کو پیدل سفر کرنے پر مجبور کرنے کا بھی الزام ہے۔ اس اقدام کے باعث ڈرائیوروں کا الزام ہے کہ 3 ڈرائیور صحرا میں پیدل چلتے ہوئے بھوک اور پیاس کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔
زندہ واپس پہنچنے والے ایک ڈرائیور کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ویڈیو پیغام میں اسے کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے 200 گاڑیوں کی بیٹریاں اور چابیاں نکال کر ان کے آئل ٹینکوں میں ریت بھر دیا اور ڈرائیوروں کو کہا کہ جہاں مرضی ہے پیدل چلے جاؤ۔ اسکا کہنا تھا کہ پیدل چلنے کی وجہ سے بہت سے ڈرائیوروں کی ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ ہمیں 6 گھنٹے پیدل چلنے کے بعد ایک گاڑی مل گئی، جس کی وجہ سے ہم محفوظ واپس پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تاہم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اطلاع ملنے کے بعد تمام ڈرائیوروں کو ریسکیو کر لیا ہے۔
چاغی کے علاقے نوکنڈی میں کوئٹہ اور تفتان کو ملانے والی مین شاہراہ کو بند کر کے مظاہرین نے احتجاج کیا اور مظاہرین پر فائرنگ کے باعث 7 مظاہرین زخمی ہو گئے ہیں۔
مظاہرین کا الزام ہے کہ وہ سڑک بند کر کے احتجاج کر رہے تھے کہ فورسز اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے فائرنگ کر دی۔ تاہم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے فورسز کے کیمپ پر پتھراؤ کیا جس کے جواب میں فائرنگ کی گئی ہے۔
بعد ازاں ڈرائیور حمید اللہ کو فائرنگ کے ذریعے ہلاک کرنے والے لیویز اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی یقین دہانی کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا تھا۔ تاہم ہفتہ اور اتوار کے روز بھی مختلف علاقوں میں ڈرائیوروں کو صحرا میں بے یار و مددگار چھوڑے جانے کی وجہ سے ہلاکتوں اور فائرنگ سے ڈرائیور کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔