سماجی مسائل

حیات ہی ہے بشر کا تمام سرمایہ

ظہور عالم

کہتے ہیں کہ ہر جاندار کو اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے اور دنیا میں بقا کی جنگ سے بڑی کوئی جنگ نہیں انسان نے اپنی بقا کی خاطر اپنے جنم سے لے کر دورِ حاضر تک فطرت کی بے لگام قوتوں پر قابو پایا، زندہ رہنے کے لیے زمین کا سینہ چیر کر خوارک کا بندوبست کیا، تن پہ قبا اوڑھنے کی خاطر درختوں کی چھالوں سے جانوروں کی کھالوں تک کو پہننے کے قابل بنایا۔ درختوں کی چھال سے تن ڈھانپے کی مثالیں آج بھی قدیم افریقی قبائل میں ملتی ہیں اور جانوروں کی کھالوں سے بنائی جانے والی اشیا تو اب باقاعدہ ایک منافع بخش صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہیں۔

انسان نے رہائش، آمد و رفت غرضیکہ زندگی کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے فطرت کا مقابلہ کیا اور آج اکیسویں صدی میں ضروریات زندگی کی تمام اشیا ضروریہ وافر مقدا میں موجود ہیں۔ لیکن ان کی تقسیم غیر مساوی ہے اور انسانی آبادی کا ایک بڑا حصہ ان سے محروم ہے یہ محرومیاں ان گنت ہیں کہیں علاج کی محرومی ہے، کہیں خوراک کی محرومی، کہیں سہولیات کی محرومی اور کہیں ’حقیقی تعلیم‘ کی محرومی علم ہی وہ بنیادی جزو ہے جس کی بنا پر انسان نے تمام تر سہولیات حاصل کیں۔

مگر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام جس میں تمام تر زرائع پیداوار کی ملکیت چند سرمایہ داروں تک محدود ہے وہاں اکثریتی محنت کش طبقات اور انکی اولادوں کے حصے میں بیگانگی ہے۔ کئی تعلیم یافتہ نوجوان اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگیوں کے چراغ خودکشی کی صورت گل کرنے پہ مجبور ہیں۔

تعلیم کا سلسلہ انسان کے زمیں پر ظہور پذیر ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوا جو اؤل اؤل تو سینہ بہ سینہ ہی منتقل ہوا والدین اپنے بچوں کو خوراک حاصل کرنے، شکار کرنے اور انفرادی دفاع کے طریقے سکھایا کرتے لیکن باقاعدہ تعلیم کے نظام کا آغاز قریباً 500 قبل مسیح میں بہرحال اس میں اربابِ کلیسا، امرا اور دیگر مراعات یافتہ طبقے کی اولادوں کو سکول میں تعلیم دینے کا رواج تھا۔

355 قبل مسیح میں ارسطو نے قدیم ایتھینز میں لیسیئم نامی اکیڈمی قائم کی۔ بعد ازاں 500 قبل مسیح بین النہرین (موجودہ عہد کا عراق اور مصر) میں باقاعدہ تعلیمی نظام کا آغاز 2010ء قبل مسیح میں متعارف کروایا گیا جس میں امرا اور مذہبی پیشواؤں کی اولادوں کو داخلے کی اجازت ملی بہرحال خواتین کو گھرداری تک ہی محدود رکھا گیا۔

اسلامی تہذیب میں باقاعدہ تعلیم کا آغاز 622ء میں مدینہ سے ہوا ابتدائی طور پہ تعلیم مساجد میں دی جاتی اس سلسلے میں پہلا ادارہ بغداد میں 1066ء میں تعمیر کیا گیا۔ جرمنی نے 15 ویں صدی میں سکول کی تعلیم کو لازمی قرار دیا اسی طرح اسکاٹ لینڈ نے 1616ء، امریکہ نے 1642ء اور برطانیہ نے 1870ء میں اسکول کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔

موجودہ عہد کا نظام تعلیم ہوریس نامی امریکی معلم نے 19 ویں صدی میں متعارف کروایا اور باقاعدہ طلبہ کے لیے نصابی کتابوں کو ترتیب دیا اس کے ساتھ ساتھ ہوریس نے گریڈنگ سسٹم متعارف کروایا جس کے مطابق طلبہ کے لیے الگ الگ کلاسز عمر کے تناسب سے مختص کی گئیں کلاسز میں لیکچر کے ذریعے تعلیم کا خیال بھی ہوریس ہی کا تھا۔ اس نے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیم کے لیے کچھ اصول بھی متعارف کروائے جن میں سے ایک اصول یہ بھی تھا کہ ہر طبقے کے طالب علم کو یکساں تعلیم کے مواقع میسر ہوں لیکن جس نظام میں یکساں میعار زندگی نہ ہو وہاں یکساں تعلیم کے مواقع کیونکر میسر آئیں گے۔ یہاں بنیادی تضاد طبقاتی نظام تعلیم کا تھا جس کے تحت نجی اداروں میں سرمائے کی بنیاد پر اچھی اور میعاری تعلیم دی جاتی ہے مگر وہیں سرکاری اداروں میں اس تعلیم کا معیار مختلف ہوتا ہے اگر ہندوستان میں سرکاری اور نجی اداروں کا تناسب دیکھا جائے تو یہ 7:5 ہے یعنی ہر سات سرکاری سکولوں کے ساتھ 5 نجی اسکول اسی طرح پاکستان میں 42 فیصد نجی تعلیمی ادارے ہیں اور 58 فیصد سرکاری ادارے ہیں عمومی طور پر سرکاری اداروں کی ’کارکردگی‘ کو زیادہ بہتر تصور نہیں کیا جاتا۔

یہ نظام تعلیم اپنے آغاز سے ہی کئی خرابیاں اپنے اندر لیے ہوئے تھا سرمایہ دارانہ ’آزاد مقابلے‘ کی نفسیات نظام تعلیم پر بھی حاوی تھی جس کے تحت طلبہ کی قابلیت ان کے گریڈز اور حاصل کردہ نمبرات سے جانچی جاتی نہ کہ حقیقی علم کی بنیاد پر مشہور بھارتی مصنفہ شکنتلا دیوی نے کہا تھا کہ’’تعلیم محض تعلیمی اداروں میں جانے اور ڈگری لینے کا نام نہیں بلکہ حقیقی علم کو اپنے اندر سمونے کا عمل ہے“ موجودہ تعلیمی نظام میں یہ عنصر سرے سے نہیں پایا جاتا طلبہ کی تخلیقی صلاحتیں کہیں بھی ابھر کر سامنے نہیں آتی سمسٹر سسٹم نے طلبہ کو ایک مسلسل ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے ڈگریاں لینے کی ایک دوڑ لگی ہے زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنا اور اچھے گریڈز لانا ہی تعلیم کا اصل مقصد ہے 1929ء میں سرمایہ داری کے بحران نے دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی تنزلی کو فروغ دیا 1929ء سے لے کر 1940ء تک امریکہ میں زیادہ تر لوگوں کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی خوراک و لباس کی کمی کا شکار ہزاروں بچوں کو مجبوراً سکول چھوڑ کر فیکٹریوں میں کام کرنا پڑا۔ 1970ء کے سرمایہ دارانہ بحران کے بعد 1974ء میں نیو لبرل پالیسیوں کا آغاز ہوا جس کے بعد تعلیمی معیار کی گرواٹ میں شدت آتی گئی ہے سرمایہ داری نے تعلیم کو بھی منڈی کی ایک جنس بنا دیاجس کو خریدا اور بیچا جاتاہے۔

والدین اپنے بچوں کو اس آس پر تعلیم دلواتے ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہماری اولاد ہمارا سہارا بنے گی اور ہماری معاشی محرومیوں کا ازالہ کرے گی اس سے شدید مقابلے کے رجحان نے جنم لیا اور جیسا کہ نیولبرل پالیسیوں میں آزاد منڈی کے فروغ پر زور دیا گیا اسی طرح تعلیم کو بھی اب آزادمنڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

2008ء کے معاشی بحران نے رہی سہی کسر بھی ختم کردی نجی تعلیمی ادارے حتی کہ کئی سرکاری ادارے بھی طلبہ کے نمبروں کی یوں تشہیر کرنے میں مصروف عمل ہیں جیسے کہ کوئی سرمایہ دار اپنی بنائی گئی اشیا کی مہنگے داموں فروخت و منافعے کے لیے تشہیر کرتا ہے اس صدی کے مشہور مارکسی استاد کامریڈ ڈاکٹر لال خان نے کہا تھا کہ ”تعلیم کو یہاں ایک کاروبار بنا دیا گیا ہے جس میں مقصد محض اچھی نوکری کا حصول ہے مقابلے کی ایک دوڑ لگی ہے والدین بڑے فخر سے کہتے ہیں دیکھو میرا بچہ بڑا لائق ہے میرا بچہ فرسٹ آیا ہے جو لاسٹ آیا ہے وہ بھی تو کسی کا بچہ ہے انسان کے بچوں میں کیوں تفریق پیدا کرتے ہو۔“

ایسے میں نوجوانوں کے اندر تعلیم کے حصول اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی نئی دریافت کے بجائے ایک خوف مسلط ہوتا ہے اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے رہ جانے کا خوف، فیل ہو جانے کا خوف والدین کی امیدوں پر پورا نہ اترنے کا خوف، خاندان میں بے عزتی، معاشرے کی طرف سے کیے گئے سوالات اور زیادہ نمبر لینے والے نوجوانوں کی طرف سے تمسخر اڑائے جانے کے خوف کے زیر اثر مشینی انداز میں کتابوں کو رٹا جاتا ہے راتوں کو جاگ کر پڑھائی کی جاتی ہے لیکن اس ساری تگ و دو کے بعد نوجوان فیل ہو جائے یا کم نمبر لے لے تو اس پہ مایوسی حاوی ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں چند ایک نشے کی لت میں پڑ جاتے ہیں اور کچھ مایوسی کی اتھاہ گہرائی میں گر کر خودکشی جیسے انتہائی قدم کو اٹھانے پر تیار ہو جاتے ہیں پاکستان میں ہر دس میں سے ایک طالبعلم نشے کی لت کا شکار ہے۔

کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کی ایک طالبہ منیبہ شکیل جنوری 2019ء میں خودکشی کے موزوں پر بنائے گئے ایک پروجیکٹ میں لکھتی ہیں کہ ”2010ء سے لے کر 2017ء تک مختلف اخبارات میں خودکشی کے 68 کیس رپورٹ ہوئے جن کی شرح مرد حضرات میں 76.5 فیصد اور خواتین میں 23.5 فیصد تھی۔ ان میں سے 42.6 فیصد کا تعلق سکول سے، 23.5 فیصد کالج سے اور 22.1 فیصد کا تعلق یونیورسٹی سے تھا ان تمام لوگوں کا تعلق پاکستان کے مختلف صوبوں سے تھا پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے صوبوں سے بالترتیب ان کی شرح 52.9، 23.6 اور 8.9 فیصد تھی۔ عمومی طور پر خودکشی کی وجوہات میں مختلف معاشی و معاشرتی مسائل تھے جو کہ اس نظام ہی کی دین ہیں۔ ان وجوہات میں امتحانات میں فیل ہونے کی وجہ سے خودکشی کرنے والوں کی شرح سب سے زیادہ رہی جو کہ 23.5 فیصد تھی۔ اسی طرح 2018ء میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کا نتیجہ آنے پر دلبرداشتہ ہو کر چار طالبعلموں نے وقفے وقفے سے خودکشی کی ایک فرید نامی طالبعلم نے 81 فیصد نمبر لینے کے باوجود خودکشی کی گزشتہ روز بھی پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقے عباسپور سے تعلق رکھنے والے دسویں جماعت کے طالبعلم نے امتحان میں فیل ہونے کی وجہ سے خودکشی کی ہے یہ تمام صورتحال ہمیں بتاتی ہیں کہ اس نظام تعلیم اور اس سرمایہ دارانہ نظام میں معیاری تعلیم اور علم کے حصول کی غرض سے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے نوجوانوں کو طبقاتی بنیادوں پر منظم ہونے کی اشد ضرورت ہے اور اپنی زندگیوں کو انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ:

حیات ہی ہے بشر کا تمام سرمایہ
لٹایا جائے نہ بیکار خودکشی میں اسے

جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے اور اس کا رائج شدہ بوسیدہ نظام تعلیم موجود ہے نوجوان یوں ہی اپنی زندگیوں کو ضائع کرتے رہیں گے۔ مقابلے بازی کی اس عفریت سے پیچھا چھڑانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ ایک اجتماعی اشتراکی معاشرے کے قیام سے ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اس نظام کی تلخیوں کو اپنے اندر سمو کر گھٹ گھٹ کے مرنے کے بجائے اس کے خلاف لڑائی کو ہر سطح پر منظم کرنا ہو گا اور ان مشکلات کے دلدل کو عبور کرتے ہوئے ایک نئے باب کا آغاز کرنا ہو گا جو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ماضی کے ان تمام اندھیروں کو ختم کر دے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts