نقطہ نظر

دادو میں شہریوں نے خود بند باندھ کر تحصیل جوہی کو بچا لیا

حارث قدیر

صدام مصطفی کہتے ہیں کہ سندھ کے ضلع دادو کی تحصیلوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت جہاں سیلابی پانی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، وہیں حکومتی بے حسی اور انتظامی اداروں کی نااہلی کے خلاف سراپا احتجاج بھی ہیں۔ سیلابی پانی داخل ہونے کے خطرات سے دوچارشہروں اور دیہاتوں کو محفوظ بنانے کے علاوہ متاثرین کو فاقوں اور بیماریوں سے مرنے سے بچانے کیلئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ صدام مصطفی دادو شہر کے رہائشی ایک سوشلسٹ رہنما ہیں، وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (پی ٹی یو ڈی سی) کے ساتھ منسلک ہیں۔ گزشتہ روز سیلابی صورتحال سے متعلق ان کا ایک مختصر انٹرویو کیا گیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

ضلع دادو کے کون کون سے علاقے اور تحصیلیں زیر آباد ہیں اور اس وقت کیا صورتحال ہے؟

صدام مصطفی: دادو ضلع کی ایک تحصیل خیرپور ناتھن شاہ مکمل ڈوب چکی ہے۔ دوسری تحصیل جوہی کو عام لوگوں، محنت کشوں اور مزدوروں نے اپنی مدد آپ کے تحت معمولی سی سرکاری مشینری اور لاجسٹکس کے ہمراہ سیلابی پانی سے بچانے کیلئے اقدامات کئے ہیں۔ ابھی تک جوہی کے اندر سیلابی پانی کو داخل ہونے سے روکا ہوا ہے۔ تیسری تحصیل میہڑھ کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے، اس کے 75 فیصد دیہاتی علاقے پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ شہر کے اندر رنگ بند کو باندھا گیا ہے اور پانی کو روکنے کیلئے لوگ جدوجہد کر رہے ہیں، وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ تاہم پانی بہت زیادہ مقدار میں آ رہا ہے۔ ابھی تک منچھر جھیل سے پانی کا انخلا اتنی تعداد میں نہیں ہو رہا ہے کہ ان شہروں کو محفوظ قرار دیا جا سکے۔

سیلاب سے متاثر لوگوں کو کس طرح کی مشکلات کا سامنا ہے؟ متاثرین کو کہاں منتقل کیا گیا ہے؟

صدام مصطفی: سیلاب سے متاثرہ ان تین تحصیلوں کے لوگوں کی آبادی کا 55 سے 60 فیصد دادو شہر میں منتقل ہو چکا ہے، 30 سے 35 فیصد آبادی حیدر آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں منتقل ہو چکی ہے، جبکہ 8 سے 10 فیصد آبادی سیلابی پانی کے اندر پھنسی ہوئی ہے۔ سیلابی پانی میں پھنسی ہوئی آبادی کو ریسکیو کرنے کیلئے کوئی انتظام سرکاری سطح پر نظر نہیں آ رہا ہے۔ دادو میں نقل مکانے کر کے آنے والوں کیلئے سرکاری سکولوں کی عمارتوں کو کیمپ قرار دیکر وہاں رکھا گیا ہے۔ ان کیمپوں میں خوراک کی قلت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک کیمپ میں جہاں 500 کی رہائش کا انتظام ہو سکتا ہے، وہاں 800 سے 1000 لوگوں کو رکھا جا رہا ہے۔ ان کیمپوں میں پینے کے صاف پانی، صفائی، بجلی اور کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ صفائی نہ ہنے کی وجہ سے کیمپوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ لوگ گیسٹرو، جلد کے امراض اور ملیریاجیسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

گزشتہ روز ہم نے دیکھا دادو شہر میں پانی داخل ہونے سے روکنے کیلئے شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کیا، وہ کیا کام تھا اور کس حد تک کامیاب ہوئے؟

صدام مصطفی: دادو کو سیلابی پانی کا نشانہ بننے کا خطرہ ابھی بھی لاحق ہے۔ منچھر جھیل کو کٹ لگایا گیا ہے، جس سے پانی کا انخلا دریائے سندھ کی طرف ہو رہا ہے۔ تاہم وہ اتنا زیادہ اخراج نہیں ہے، جتنا پانی ایم این وی ڈرین سے منچھر جھیل کی طرف آتا ہے۔ مین نارا ویلی ڈرین، جسے ایم این وی ڈرین کہا جاتا ہے۔ بلوچستان اور اپر سندھ سے ہونے والی بارشوں سے بولان ندی اور دیگر چھوٹے بڑے ندی نالوں کا پانی اس ایم این وی ڈرین سے منچھر جھیل کی طرف آتا ہے۔ اس کا رائٹ بینک ختم ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے جوہی شہر کو خطرہ مسلسل برقرار ہے۔ لیفٹ بینک پر دادو ہے، وہ بھی زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ کل صبح تک کی خبروں کے مطابق بائیں کنارے پر بھی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے، جس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ دادو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مقامی دیہاتوں کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو روکنے میں مصروف ہیں۔ اگر کوئی بڑا بریچ ہوجاتا ہے تو پانی دادو کو نشانہ بنائے گا۔ ابھی تک لوگوں نے بہت زیادہ مزاحمت کی ہے۔ احتجاجی مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر آفس کا گھیراؤ بھی کیا گیا ہے، لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ لیفٹ بنک کو محفوظ بنایا جائے۔ لوگ خود بھی پولیسٹر بیگز اکٹھے کر رہے ہیں، تاکہ ممکنہ پانی کی آمد کو روکنے کیلئے دادو کے گرد رنگ بند بنایا جائے۔ حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مشینری دادو شہر کے کناروں پر پہنچائی جائے تاکہ کسی بھی خطرے میں دادو کو بچایا جا سکے۔

دادو شہر کے چاروں اطراف پانی ہے، دادو شہر سیلابی پانی سے کتنا متاثر ہوا ہے؟ اور شہریوں کے بند مضبوط کرنے سے کتنا فائدہ ہوا؟

صدام مصطفی: اس وقت دادو کو جو خطرہ لاحق ہے، وہ مشرق کی طرف سے ایم این وی ڈرین سے ہی ہے، مغرب کی طرف سے دادو کی جو کچے کی آبادی ہے، جو دادو تحصیل اور ضلع میں ہی آتی ہے، وہاں اتنا زیادہ خطرہ اب نہیں ہے۔ اس علاقے سے دریائے سندھ گزرتا ہے، وہاں سے 7 لاکھ کیوسک پانی گزر گیا ہے، اس وقت بھی 5 لاکھ کیوسک پانی وہاں سے گزر رہا ہے۔ اس طرف خطرہ زیادہ اس لئے نہیں ہے کیونکہ اس طرح بند کافی مضبوط ہے۔ مشرق کی طرف ایم این وی ڈرین کی طرف سے بہت زیادہ پانی ابھی آئے گا۔ بلوچستان کی بولان ندی اور دیگر چھوٹے نالوں سے پانی اتر کر شہداد کوٹ ضلع اور دادو کو ہٹ کر کے منچھر جھیل میں آتا ہے۔ وہاں سے ڈرین ہو کر پانی دریائے سندھ کی طرف جاتا ہے۔ اس وقت ایم این وی ڈرین کی طرف سے آنے والے پانی کا ہی دادو پر پریشر ہے، یہ پانی کسی بھی وقت دادو میں داخل ہو سکتا ہے۔

سندھ حکومت اور ہنگامی حالات سے نمٹنے والے ادارے کن پیشگی اقدامات سے ضلع دادو اور بالخصوص دادو شہر کو سیلاب سے محفوظ رکھ سکتے تھے؟ اور یہ اقدامات آپ کے خیال میں کیوں نہ ہو سکے؟

صدام مصطفی: جہاں تک سندھ حکومت، این ڈی ایم اے، یا پی ڈی ایم اے کی بات ہے تو ان کی طرف سے اب پھرتیاں تو بہت دکھائی دے رہی ہیں لیکن ان کا نتیجہ کوئی نہیں نکل رہا ہے۔ جب سیلاب سے سندھ ڈوب رہا تھا تو حکومت اور یہ ادارے خواب غفلت کی نیندسو رہے تھے۔ اب ہیلی کاپٹروں پر دورے کئے جا رہے ہیں، بلاول بھی سفارتکاروں کو لیکر دورے کر رہے ہیں۔ تاہم جو کام کرنے کا ہے وہ ابھی بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو ریسکیو نہیں کیا گیا، نہ ہی بڑے پیمانے پر امدادی سامان کو پہنچانے کا انتظام کیا جا سکا ہے۔ لوگ کیمپوں میں بھوکے بیٹھے ہیں، اگر کوئی فلاحی ادارہ کھانے کا سامان لاتا ہے تو لوگ بھوک کی وجہ سے پاگلوں کی طرف اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ اس سب میں لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ اتنے عدم تحفظ کا شکار ہیں کہ انہیں یہ بھی یقین نہیں کہ اگلے وقت کا کھانا کبھی ملے گا بھی یا نہیں۔

پانی کی نکاسی کیلئے کس طرح کے اقدامات درکار ہونگے اور کیا امید ہے کہ کب تک لوگ واپس اپنے علاقوں میں آباد ہو سکیں گے؟

صدام مصطفی: پانی کے نکاس کے حوالے سے منچھر جھیل سے دریائے سندھ کے اندر نکاس ہی واحد راستہ ہے۔ منچھر جھیل اس وقت 126 آر ایل سے اوپر پہنچ چکی ہے۔ یہ جھیل ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیلوں میں شمار ہوتی ہے، جو اس وقت ٹاپ گیج سے اوپر پانی سے بھر چکی ہے۔ اگر فضائی منظر سے جھیل کو اس وقت دیکھا جائے تو وہ ایک چھوٹے سمندر کی طرح لگتی ہے۔ جھیل کے دروازے دریائے سندھ کی طرف کھولے جا سکتے ہیں۔ تاہم اگر وہ کھولے جاتے ہیں تو سیہون اور بان سید آباد تحصیلوں کے ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہے۔ یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ دادوکو بچانے کیلئے ان دو تحصیلوں کو ڈبونے کا مطالبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف حکومت کی ایریگیشن کے ٹیکنیکل لوگوں سے کنسلٹنسی بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ان سے کنسلٹنسی لیکر پانی کو محفوظ راستہ دیا جا سکتا تھا۔ جوشہر اور دیہات ڈوب چکے ہیں ان کے علاوہ باقی شہروں کو بچانے کیلئے بھی کوئی مشاورت نہیں ہو رہی ہے۔ حکومتوں نے بروقت اقدامات بھی نہیں کئے۔ دو ماہ پہلے سے بارشوں کی وارننگ مل چکی تھی۔ یہ بتایا جا رہا تھا کہ بارشیں زیادہ ہونے جا رہی ہیں، ان کا بندوبست کیاجائے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ بلوچستان اور سندھ کی بارشوں کا پانی بھی یہیں آنا ہے۔ وقت پر اقدامات نہیں کئے گئے اور اب انہیں خودسمجھ نہیں آ رہا کہ پانی کو محفوظ راستہ کون سا دیا جائے، جس سے کم سے کم نقصان ہو سکے۔

حکومت کو فوری طور پر کون سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو بیماریوں اور اموات سے بچا کر دوبارہ بحالی و آبادکاری کی جا سکے؟

صدام مصطفی: حکومت کو اس وقت بچ جانے والے علاقوں کی حفاظت پر دھیان دینا چاہیے، مشینری کے استعمال سے بند محفوظ بنائے جائیں۔ کیمپوں میں رہنے والے متاثرین کو خوراک اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے ترجیحی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ سرکاری سکولوں میں بنائے گئے کیمپوں کی جگہ میرے خیال میں اب ٹینٹ سٹی بنا کر بہتر سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اس سے تعلیم کا رکا ہوا سلسلہ بھی دوبارہ شروع کروایا جا سکتا ہے۔ ایسا لگتا نہیں ہے کہ دو ماہ تک یہ پانی اترے گا اور متاثرین دوبارہ اپنے شہروں اور دیہاتوں میں آباد ہو سکیں گے۔ اس لئے ٹینٹ سٹی جلد از جلد تعمیر کئے جانے چاہئیں، تاکہ جب تک پانی اترتا لوگوں کو بہتر سہولیات کے ساتھ بیماریوں اور بھوک سے بچایا جا سکے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔