سٹاک ہولم (فاروق سلہریا)
کل سویڈن میں عام انتخابات ہوں گے۔ قبل از وقت پولنگ پہلے سے جاری ہے۔ سویڈن میں بہت سے رائے دہندگان الیکشن والے دن سے پہلے ہی ووٹ ڈال دیتے ہیں۔
ان انتخابات میں دو روایتی بلاک (لیفٹ بلاک) اور بورژوا بلاک آمنے سامنے نہیں۔ دونوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے۔
بورژوا بلاک کی ایک جماعت (سنٹر پارٹی) نے سوشل ڈیموکریٹس اور گرین پارٹی کے ساتھ بلاک بنا لیا ہے مگر ان کا مطالبہ ہے کہ اگر اس بلاک نے حکومت بنائی تو لیفٹ پارٹی کو اس سے باہر رکھا جائے۔ روایتی طور پر اس بلاک میں سوشل ڈیموکریٹس، گرین اور لیفٹ پارٹی (سابقہ کیمونسٹ پارٹی) شامل تھے۔ سنٹر پارٹی کا معاشی ایجنڈا بہت ہی نیو لبرل ہے۔ اسے عموماً اور تاریخی طور پر کسانوں کی جماعت کہا جاتا ہے۔
ادہر بورژوا بلاک جسے بلیو بلاک کہا جاتا تھا، مخالفین اسے اب بلیو براؤن بلاک کہہ رہے ہیں (براؤن رنگ فاشزم کی علامت ہے) کیونکہ اس میں فسطائی رجحان رکھنے والی سویڈش ڈیموکریٹس (ایس ڈی) شامل ہو گئی ہے۔ اس بلاک کی سب سے بڑی پارٹی ایس ڈی بن سکتی ہے۔ اس کی شمولیت کی وجہ سے ہی سنٹر پارٹی علیحدہ ہوئی جبکہ اس بلاک کی ایک اور اہم پارٹی، لبرل پارٹی، میں شدید اختلافات چل رہے ہیں۔ لبرل پارٹی کے سابق صدر نے کہا ہے کہ وہ احتجاجاً سنٹر پارٹی کو ووٹ دیں گے۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، لیفٹ بلاک کو 176 جبکہ بلیو براؤن بلاک کو 173 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ سب سے بڑی پارٹی سوشل ڈیموکریٹس ہو سکتی ہے جس کی مقبولیت 28 فیصد کے قریب ہے۔ نسل پرست اور فسطائی رجحان رکھنے والی سویڈش ڈیموکریٹس دوسری بڑی جماعت بن کر ابھرے گی، جس کی مقبولیت 20 فیصد ہے۔ اس سے تھوڑا پیچھے روایتی بورژوا جماعت، ماڈریٹس، کا تیسرا نمبر ہے۔ اس کی مقبولیت 17 فیصد پر کھڑی ہے۔ چوتھے نمبر پر سنٹر اور لیفٹ پارٹی میں مقابلہ ہو سکتا ہے، دونوں کی مقبولیت 10 تا 8 فیصد رہی ہے۔ لیفٹ پارٹی کی موجودہ رہنما نوشی دادگستر ہیں۔ ان کے والدین ایران سے ہجرت کر کے سویڈن ٓئے تھے۔ نوشی ایک مقبول رہنما بن کر ابھری ہیں۔
بلیو براؤن بلاک نے جرائم کے خاتمے (جس کے لئے تارکین وطن کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے) اور ملک سے انرجی کا بحران ختم کونے کے لئے نیوکلیئر انرجی کا نعرہ لگایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بے شمار ایسے اقدامات کرنا چاہتے ہیں جو انتہائی مزدور دشمن اور رجعتی ہیں۔
اتفاق سے یہ دونوں موضوعات اہم انتخابی ایشو بن گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہسپتال اور تعلیم کا نظام، ٹیکسوں میں کمی کا نعرہ بھی زیر بحث ہیں۔ لیفٹ پارٹی بالخصوص امیروں پر ٹیکس لگانے اور تعلیم و ہسپتال کے نظام سے پرائیویٹ سیکٹر کی مداخلت ختم کرنے کی بات کر رہی ہے۔ باقی یورپ کی طرح بجلی کے بل اور پیٹرول کی قیمتوں سے سب خوفزدہ ہیں۔ اس سوال پر سوشل ڈیموکریٹس کی پالیسی گومگو اور منافقت کا شکار رہی جبکہ لیفٹ پارٹی نے ماحولیات دوست پالیسیوں کی حمایت جاری رکھی۔
کل فیصلہ ہو جائے گا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔