لاہور (جدوجہد رپورٹ) جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کوہی سائتو کی تصنیف ‘Capital in The Anthropocene’ نوجوانوں میں غیر متوقع طور پر مقبول ہو رہی ہے اور اب اسکا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا جا رہا ہے۔ کارل مارکس کی ماحولیات سے متعلق تحریروں سے متاثر ہو کر ستمبر 2020ء میں جاپانی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کی ابھی تک 5 لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ مارکسزم اور ماحولیات پر شائع ہونے والی یہ تصنیف حیرت انگیز طور پر دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن چکی ہے۔
’گارڈین‘ کے مطابق کوہی سائتوکا کہنا ہے کہ اگر دنیا سرمایہ داری پر ’ایمرجنسی بریک‘ کا اطلاق نہیں کرتی اور زندگی گزارنے کا نیا طریقہ وضع نہیں کرتی توآب و ہوا کا بحران قابو سے باہر جو جائے گا۔
سائتو کا پیغام بہت سادہ ہے کہ سرمایہ داری کا لامحدود منافع کا مطالبہ کرہ ارض کو تباہ کر رہا ہے اور صرف انحطاط (ڈی گروتھ) سے سماجی پیداوار کو کم کر کے اور دولت کو بانٹ کر نقصان کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
عملی لحاظ سے اس کا مطلب ہے کہ بڑے پیمانے پر پیداوار اور فاسٹ فیشن جیسی فصول اشیا کی بڑے پیمانے پر کھپت کا خاتمہ کیا جائے۔ ’کیپیٹل انتھروپوسین‘ میں سائتو کام کے کم اوقات کے ذریعے ڈی کاربونائزیشن کی بھی وکالت کرتے ہیں اور نگہداشت جیسے ’لیبر انٹینسو‘ کام کو ترجیح دیتے ہیں۔
بہت کم لوگوں کو توقع ہوئی ہو گی کہ موسمیاتی بحران سے متعلق سائتو کی جاپانی زبان میں یہ تصنیف بائیں بازو کی تعلیم اور سیاست سے باہر بھی پذیرائی حاصل کرے گی۔ تاہم اس کی بجائے کارل مارکس کی ماحولیات پر لکھی گئی تحریروں سے متاثر ہو کر لکھی گئی یہ کتاب غیر متوقع طور پر مقبول ہو گئی ہے۔
اس وقت دنیا موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مزید شواہد کا سامنا کر رہی ہے۔ پاکستان میں سیلاب سے لیکر برطانیہ میں گرمی کی لہروں تک اور بے تحاشہ مہنگائی اور توانائی کے بحران کی صورت موسمیاتی تبدیلیاں اپنا اظہار کر رہی ہیں۔ سائتو کا ایک زیادہ پائیدار، پوسٹ کپیٹلسٹ دنیا کا ویژن آئندہ سال ایک اکیڈیمک ٹیکسٹ کی صورت میں کیمبرج یونیورسٹی پریس کی طرف سے انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع ہو گا۔
’گارڈین‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں سائتو نے کہا کہ ”یہ وسیع پیمانے پر اس بارے میں ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے…موسمیاتی بحران کے بارے میں اور ہمیں اس کے بارے میں کیا کرنا چاہیے۔ میں ترقی اور سرمایہ داری سے آگے بڑھنے کی وکالت کرتا ہوں۔“
دنیا کی ’ڈی گروتھ‘ کا محض ذکر ہی دولت مند معاشروں کی منفی تصویروں کی عکاسی کرتا ہے، جو سکڑتی ہوئی معیشتوں اور گرتے ہوئے معیار زندگی کے تاریک دور میں ڈوب گئے ہیں۔ سائتو نے اعتراف کیا کہ ان کا خیال تھا کہ ایسی کتاب جو مارکسزم کے پہلوؤں کو جدید دور کی برائیوں کے حل کے طورپر اجاگر کرتی ہو، جاپان میں مشکل سے ہی فروخت ہوگی، جہاں 70 سال سے ایک ہی قدامت پسند جماعت کا سیاست پر غلبہ ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ’لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں جاگیردارانہ دور میں واپس جانا چاہتا ہوں…اور میرے خیال میں برطانیہ اور امریکہ میں بھی اسی قسم کی تصویر برقرار ہے۔ اس پس منظر کے خلاف کتاب کی 5 لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہونا حیران کن ہے اور سب کی طرح میں بھی حیران ہوں۔‘
31 سالہ محقق جون شیوتا، جنہوں نے سائتو کی تصنیف کا مطالعہ کیا، انکا کہنا ہے کہ ’سائتو ایسے کہانی سنا رہے ہیں، جسے سمجھنا آسان ہے، وہ یہ نہیں کہتے کہ سرمایہ داری کے بارے میں اچھی اور بری چیزیں ہیں، یا یہ کہ اس کی اصلاح ممکن ہے…وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پورے نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔‘
انکا کہنا ہے کہ ’نوجوان وبائی مرض سے بری طرح متاثر ہوئے تھے، انہیں دیگر بڑے مسائل، جیسے ماحولیاتی تباہی اور ندگی کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس لئے یہ سادہ پیغام ان کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔‘
سائتو اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات نے ان کی تحریر کو فوری حیثیت دی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ’بہت سے لوگ اپنی ملازمتیں اور گھر کھو بیٹھے ہیں اور جاپان میں بھی فوڈ بینک جیسی چیزوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ مجھے یہ سب چونکا دینے والا لگتا ہے۔ آپ کے پاس ضروری مزدور ہیں جو کم تنخواہ والی ملازمتوں میں زیادہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ضروری مزدوروں کی پسماندگی ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔‘
انکا کہنا ہے کہ ’کورونا وبا کے رد عمل نے ظاہر کیا تھا کہ تیز رفتار تبدیلی نہ صرف مطلوب ہے بلکہ ممکن بھی ہے۔ ایک چیز جو ہم نے وبائی امراض کے دوران سیکھی ہے وہ یہ ہے کہ ہم راتوں رات اپنے طرز زندگی کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر سکتے ہیں۔ جس طرح سے ہم نے گھر سے کام کرنا شروع کیا، کم چیزیں خریدیں، کم اڑان بھری اور کم کھایا۔ ہم نے ثابت کیا کہ کم کام کرنا ماحول کیلئے دوستانہ تھا اور لوگوں کو بہتر زندگی ملتی ہے، لیکن اب سرمایہ داری ہمیں ’معمولی‘ طرز زندگی کی طرف واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
سائتو نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز (ایس ڈی جیز) کو عام عوام کیلئے ایک نئی افیون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’معاشی نظام کے بارے میں کچھ بھی تبدیل کئے بغیر ایکو بیگز اور بوتلیں خریدنا…ایس ڈی جیز نظام کے مسائل کو چھپاتے ہوئے ہر چیز کو فرد کی ذمہ داری کے ذریعے سے کم کرنے کا کہتے ہیں، جبکہ کارپوریشنوں اور سیاستدانوں کی ذمہ داریوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔‘
انکا کہنا ہے کہ ’میں نے دریافت کیا کہ مارکس پائیداری میں کس طرح دلچسپی رکھتا تھا اور کس طرح غیر سرمایہ دارانہ اور قبل از سرمایہ دارانہ معاشرے پائیدار ہوتے ہیں، کیونکہ وہ مستحکم معیشت کا ادراک کر رہے ہیں اور ترقی پر مبنی نہیں ہیں۔‘
جب سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے، سائتو نے جاپان میں کارل مارکس کے خیالات کے بارے میں مخالف پروپیگنڈہ کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے۔
قدامت پسند پبلک براڈ کاسٹر این ایچ کے نے اپنے 100 منٹس سیریز میں اس شاہکار کیلئے اپنے خیالات کی وضاحت کیلئے 25 منٹ کے چار حصے دیئے، جبکہ دیگر کتابوں کی بڑی دکانوں نے اس مارکسی ادب کی خصوصی نمائش کا اہتمام کیا۔ اب امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس کا انگریزی ترجمہ بھی اسی طرح سے مقبول ہو گا۔