خبریں/تبصرے

ایران: 10 ویں دن بھی احتجاج جاری

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایرانی عدلیہ کی جانب سے سخت انتباہ کے باوجود مظاہرین نے مسلسل 10 ویں رات بھی ایران کی سڑکوں پر نکل کر احتجاج ریکارڈ کروایا۔ ایرانی فورسز کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 41 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

’گارڈین‘ کے مطابق ناروے میں مقیم گروپ ایران ہیومن رائٹس نے اتوار کی شام مرنے والوں کی تعداد کم از کم 57 بتائی تھی، تاہم اس گروپ کے مطابق انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کی وجہ سے ہلاکتوں کی تصدیق کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

شہروں کی تصاویر اور ویڈیوز میں تہران کی سڑکوں پر مظاہرین کو ’مرگ بر دیکتاتور‘ (ڈکٹیٹر مردہ باد) کے نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ مظاہروں میں بڑی تعداد میں خواتین موجود ہیں اور کئی مقامات پر خواتین مظاہروں کی قیادت کر رہی ہیں۔ خواتین بال کاٹ کر اور حجاب کو ہوا میں لہرا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہیں۔

عدلیہ کی میزان آن لائن ویب سائٹ نے کہا کہ صدر ابراہیم رئیسی کی طرف سے گزشتہ روز ایک انتباہ کی بازگشت کرتے ہوئے عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی ایجی نے اتوار کے روز فسادات کے اکسانے والوں کے خلاف بغیر نرمی کے فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

16 ستمبر کو پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد رات کے وقت ہونے والے مظاہروں کے دوران سیکڑوں مظاہرین، سیاسی کارکنان اور صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

تقریباً تین سالوں میں ایران کے ان سب سے بڑے مظاہروں میں سکیورٹی فورسز نے براۂ راست گولیاں چلائیں، جبکہ مظاہرین نے جوابی پتھراؤ کیا، پولیس گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی۔

خواتین مظاہرین نے ریلیوں میں اپنے حجاب اتار کر جلا دیئے اور اپنے بال کاٹ دیئے، کچھ خواتین ہجوم کی تالیوں پر بڑے الاؤ کے پاس رقص کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ عورتیں ’زن، زندگی، آزادی‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مظاہروں میں شریک ہو رہی ہیں۔

ویب مانیٹر نیٹ بلاکس نے رولنگ بلیک آؤٹ اور وسیع پیمانے پر انٹرنیٹ پلیٹ فارم پابندیوں کو نوٹ کیا، جس میں واٹس ایپ، انسٹا گرام اور اسکائپ پہلے ہی بلاک ہو چکے ہیں، اس کے بعد فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک اور ٹیلی گرام پر بھی پابندیاں لگ گئی ہیں۔

اتوار کے روز اہم اساتذہ یونینوں میں سے ایک نے اساتذہ اور طلبہ سے پیر اور بدھ کو قومی ہڑتال کرنے کا مطالبہ کیا۔

ایتھنز، برلن، برسلز، استنبول، میڈرڈ، نیو یارک اور پیرس سمیت دیگر شہروں میں ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرے کئے گئے ہیں۔

ایرانی آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار اصغر فرہادی نے دنیا بھر کے کارکنوں اور فنکاروں سے مطالبہ کیا کہ وہ مظاہرین کی حمایت کریں، جو ان کے بقول سادہ اور پھر بھی بنیادی حقوق کی تلاش میں ہیں، جن سے ریاست برسوں سے انکار کر رہی ہے۔

فرہادی نے انسٹا گرام پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’میں ان کی آزادی کی جدوجہد اور تمام تر بربریت کے باوجود اپنی منزل خود منتخب کرنے کے حق کا احترام کرتا ہوں۔‘

Roznama Jeddojehad
+ posts