زبیر آفریدی
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان ماضی میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، اجرتی قتل جیسی کارروائیوں میں ملوث رہی ہے، تاہم یہ سلسلہ مکمل ختم نہیں ہوا ہے۔ 2022ء میں دوبارہ طالبان کی آمد کے بعد ایک دفعہ پھر یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے، جس کے ڈر سے کاروباری حضرات اور دیگر قبائلی مشران علاقے سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح کا واقعہ ارشاداللہ کے والد کے ساتھ بھی پیش آیا۔
ارشاداللہ کا کہنا ہے کہ ’میرے والد کا نام ملک محمد لطیف ہے اور ہم 5 بھائی ہیں۔ میرے بڑے بھائی پولیس میں محررہیں، ایک بھائی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک ہیں، میں پشاور یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کا طالب علم ہوں، جبکہ میرے دو چھوٹے بھائی ابھی سکول میں پڑھتے ہیں۔ ہمارے والد گاؤں کے ملک ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’2007ء میں جب آپریشن راہ نجات شروع ہواتو ہمیں اپنا آبائی علاقہ جنوبی وزیرستان کا اولڈ سرویکائی نامی علاقہ چھوڑ کر ٹانک کے قریبی گاؤں گومل آنا پڑا۔ ہم اپنا سب کچھ وہی چھوڑ کر آئے تھے۔ اب 2022ء میں طالبان کے دوبارہ آنے کے بعد ایک بار پھر ہم اپنا گھر بار چھوڑ کر رات کی تاریکی میں گاؤں سے نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔‘
انکا کہنا ہے کہ ’پچھلے کئی مہینوں سے طالبان ہم سے 60 لاکھ روپے مانگ رہے تھے۔ میرے والد پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور علاقے میں ہم نے بہت سی زمین بھی خریدی ہے۔ طالبان کی طرف سے رقم کی ڈیمانڈ کے بعد ہم نے علاقہ چھوڑنے کا منصوبہ بنایا اور ہم ڈی آئی خان منتقل ہونا چایتے تھے، لیکن پچھلے کئی دنوں سے دہشت گردوں نے ہمارے والد کو مارنے کیلئے ہمارے گھر کا محاصرہ شروع کر رکھا تھا۔ ہم نے حکومت سے حفاظت کی اپیل کی، ایف آئی اے اور پولیس کے لوگ آئے اور ان دہشت گردوں کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ حکومت کی طرف سے ہمیں یہ کہا گیا کہ طالبان کہتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے خلاف باتیں کررہا ہے۔ لہٰذا ہم اس کو مارنا چاہتے تھے۔ حکومتی ادروں نے ان دہشت گردوں کو اپنی حراست میں لے لیا اور کہا کہ ہم ان کے خلاف اپنی کاروائی کرینگے۔ ہم رات کی تاریکی میں 2007ء کی طرح اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنے آپ کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوئے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’ہم صرف ایک خاندان نہیں ہیں بلکہ ہماری طرح کئی دیگر کاروباری لوگ علاقے سے نکل چکے ہیں۔ اب ہم نے پنجاب میں ایک کرائے کے گھر میں پناہ لی ہے اور سب یہیں پر رہ رہے ہیں۔‘