حارث قدیر
حال ہی میں پاکستان کے ایک معروف فنکار عدیل افضل کے انٹرویو کا ایک حصہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ پھر دو روز سے ایک خبر یہ چل رہی ہے کہ انٹرویو میں سے وہ مخصوص حصہ بوجوہ کاٹ کر وہ انٹرویو دوبارہ یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ عدیل افضل کا یہ انٹرویو ’دی سینٹرم میڈیا‘(ٹی سی ایم) کے یوٹیوب اور فیس بک چینل سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نشر کیا گیا۔ تاہم جب اس انٹرویو کا ایک حصہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو وہ انٹرویو ٹی سی ایم کے پیجز سے ہٹا دیا گیا، پھروائرل ہونے والا حصہ کاٹ کر دوبارہ انٹرویواپ لوڈ کیا گیا۔
انٹرویو کے اس حصے میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اور ایک نجی ٹی وی کے اشتراک سے چلنے والی ڈرامہ سیریل’عہد وفا‘ کے سکرپٹ پر تنقید کی گئی تھی، بلکہ یوں کہنا مناسب ہے کہ اس ڈرامے کے سکرپٹ کو فوج کے کردار پر تنقید کرنے کے لیے ایک مثال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ عدیل افضل کا کہنا تھا کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع اور تحفظ کرنا فنکار، لکھاری اور استاد کا کام ہے۔ جب آپ فنکار کا کام خود کرنا شروع کریں گے تو پھر پانچویں جماعت کے مطالعہ پاکستان جیسا آرٹ بنائیں گے۔ مذکورہ انٹرویو میں انہوں نے ڈرامے کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اس ڈرامے میں ایک فوج کے علاوہ باقی تمام شعبوں، یعنی سیاست، صحافت اور سول انتظامیہ کا خراب چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یوں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس ملک میں صرف فوج ہی میں سب کچھ اچھا ہے، باقی شعبوں کی زبوں حالی کی وجہ سے مسائل ہیں۔
دوسری جانب جہاں آئی ایس پی آر نے اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے مختلف بیانات دیئے ہیں، وہاں ڈرامہ سیریل کے مصنف مصطفی آفریدی نے بھی ڈرامہ لکھنے میں کسی طرح کے دباؤ یا ہدایات کے تاثر کی سختی سے تردید کی ہے۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ تنقید بے جا ہے۔ یہ ہم ٹی وی کے ساتھ ایک مشترکہ پروڈکشن ہے، جہاں فوج نے ڈرامے کی تشکیل میں اپنی طرف سے سہولیات فراہم کی ہیں۔ مصطفی زیدی نے کہا کہ ڈرامے میں کسی بھی ادارے کو برا دکھانا ہرگز مقصد نہیں تھا۔ انکا کہنا تھا کہ یہ کہانی چار اداروں کی نہیں، بلکہ چار دوستوں کی ہے۔ چاروں کردار سیاہ اور سفید نہیں تھے، بلکہ گرے تھے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں صرف یہ بتایا گیا کہ چار دوستوں کی کہانی لکھنی ہے، جو کالج میں ساتھ ہوتے ہیں اور ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی تمام کہانی انہوں نے خود لکھی ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے یونیفارم اور بیجز کے بارے میں ہدایات دی گئیں، جبکہ سکرپٹ میں بھی صرف فوج کے پروٹوکول سے متعلق اعتراضات سامنے آئے۔ ایسی کوئی ہدایات نہیں تھیں کہ کسی کو اچھا یا کسی کو برا دکھانا ہے۔
دوسری جانب میڈیا کے تمام ذرائع، بشمول سوشل میڈیا پر مانیٹرنگ اور منظم پروپیگنڈہ آئی ایس پی آر کے اس بیان کی قلعی کھول دیتا ہے۔ موجودہ وقت ہر اس لفظ اور ہر اس آواز کو غائب کرنے کا عمل شروع ہے، جس میں سکیورٹی فورسز پر تنقید کا تاثر بھی سامنے آرہا ہو۔ روایتی میڈیا پر اینکرز کی بھرتی، تجزیہ کاروں کے انتخاب اور خبروں کی بنت تک کا ایک مخصوص پروٹوکول ہے۔ اتنی سخت سکروٹنی کے بعد بھی ایڈیٹروں کو یہ تعین بھی کرنا ہوتا ہے کہ کس خبر کے لیے کون سے الفاظ کا چناؤ کیا جائے گا تو متعلقہ افسر کو برا نہیں لگے گا۔ یہاں سیلف سنسرشپ کا عنصر آجاتا ہے، جہاں آپ کا لکھا یا بولا گیا کوئی بھی جملہ آپ کی نوکری کے آخری دن کا پیغام ثابت ہو سکتا ہے۔ یوں وہ خبریں بھی سنسر ہوجاتی ہیں، شاید جن کی وجہ سے افسر ناراض نہ بھی ہوں۔
حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر لائیورمضان ٹرانسمیشن کے دوران تقریری مقابلے میں ایک بچی کی جانب سے ماہ رنگ بلوچ کو بہادر خاتون قرار دینے والا جملہ چل گیا۔ بعد ازاں وہ جملہ یوٹیوب چینل سے ہٹا دیا گیا۔ عدیل افضل کے انٹرویو کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا۔ ٹی سی ایم کے ذمہ دار کو یہ بتانے کی اجازت بھی نہیں ہے کہ انہوں نے انٹرویو کا وہ مخصوص حصہ کسی دباؤ میں ہٹایا۔ تاہم عدیل افضل کے مطابق انہیں یہ بات بتائی گئی کہ بہت دباؤ ہے، اس لیے انٹرویو ایڈٹ کرنا پڑے گا۔ سوشل میڈیا پر اختلاف رائے پر مبنی انٹرویو کا ایک ڈیڑھ منٹ کا کلپ، یا ایک بچی کی لائیو چل جانے والی تقریر میں استعمال کیا گیا ایک لفظ بھی اگر دباؤ کے تحت مٹ سکتا ہے تو پھر آئی ایس پی آر کی مشترکہ پیشکش کے طور پر تیار ہونے والی ڈرامہ سیریل کا سکرپٹ تیار کرنے میں مصطفی آفریدی کی آزادی کے لیے مزید کوئی ثبوت پیش کرنا فضول ہے۔
روایتی میڈیا پر آپریشن کلین اپ تو مکمل ہو چکا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا کے خلاف پانچویں پشت کا آپریشن کلین اپ ابھی جاری ہے۔ اس سلسلے میں دیہی سطح پر کسی فلاحی سرگرمی کے لیے بننے والا گروپ بھی ایسا نہیں ہے، جہاں سکیورٹی اداروں کے اہلکار مانیٹرنگ کے فرائض سرانجام نہیں دے رہے ہیں۔ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے البتہ جغرافیائی سرحدوں اور حدود کی حفاظت میں تھوڑی چوک ہو رہی ہے۔ اس لیے نظریاتی چولیں سیدھی کرنے کے بعد جغرافیائی چولیں سیدھی کرنے کی طرف توجہ مبذول کی جائے گی۔ اس معاملے میں مگر کاروباری معاملات بھی آڑے آرہے ہیں۔ امیج بلڈنگ پر ہونے والے اخراجات بھی پورے کرنے ہیں۔ کوڑا اٹھانے سے سڑکوں سے برف ہٹانے تک، اگر کوئی محکمہ کہیں کام کر بھی رہا ہے تو اس کا ٹھیکہ اگر نہ بھی حاصل کیا جائے، ویڈیو بنا کر آئی ایس پی آر کے ذریعے عوامی خدمت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا ہے۔ سمگلنگ سمیت غیر دستاویزی معیشت پر مکمل کنٹرول کے ساتھ دستاویزی معیشت میں بھی صنعت، زراعت، سیاحت، نقل و حمل، تعمیرات، ہاؤسنگ سمیت ہر شعبے کی قیادت کا فریضہ بھی سرانجام دینا ہے۔ اس لیے اتنی خدمات کے بعد بھی کوئی اختلاف کرے تو اسے کیسے یہ حق دیا جا سکتا ہے۔
اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اس ملک میں نہ تو قومی مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے، نہ مذہبی مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے، نہ ہی زراعت اور صنعت کے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی، سماجی، یا معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے جو بھی نئی تدبیر کی جاتی ہے، وہ ایک نئے کاروبار کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ہائبرڈ نظام حکومت چلانے کے لیے اختلاف رائے کو دبانا،روایتی اور سوشل میڈیا کو قابو میں کرنا، سیاسی جماعتوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا اور پارلیمنٹ کوگھر کی باندھی بنانا ناگزیر ہے۔ تاہم ہر ایک اقدام بلیک میلنگ، لوٹ مار، چور بازاری اور بھتہ خوری کا ایک نیا کاروبار ساتھ لے آتا ہے۔ فوج کو سب سے اچھا ادارہ ثابت کرنے کی کوشش سے تو شاید پوری نہ ہو، لیکن یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ 76سالوں میں فوج کے علاوہ کوئی بھی ادارہ یا محکمہ اس ملک میں منظم ہی نہیں ہو سکا۔ یہ استثنائی محکمہ بھی سامراجی ضروریات کے پیش نظر پیدا ہونے والے حالات میں ایک کاروباری ایمپائرکا روپ دھار لینے کی وجہ سے ایک مخصوص نظم میں لیکن اپنی مثال آپ موجود ہے۔
یہاں البتہ کوئی اگر اس خوش فہمی میں رہے کہ اس محکمے کے آپریشن سے کوئی مسئلہ حل ہوگا تو اس خواہش کی بیل منڈھے چڑھنے کے امکانات صفر سے بھی کم ہیں۔ انسانوں کو انسان سمجھنے اور ان کے مسائل کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے جنگی حکمت عملی کی بجائے سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ صلاحیت اور اہلیت صرف اس ملک کے محنت کش طبقے میں ہی ہے کہ وہ سیاسی میدان میں اترتے ہوئے نہ صرف رائج الوقت نظام کو چیلنج کرے، بلکہ قومی، سیاسی، سماجی اور معاشی پروگرام مرتب کرتے ہوئے سوشلسٹ بنیادوں پر اس سماج کی تعمیر نو کا ذمہ اپنے ہاتھوں میں لے۔ سامراجی وجنگی نقطہ نظر، حکمت عملی اور سرمایہ دارانہ اصولوں پر یہ مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں۔