خبریں/تبصرے

گوادر: 50 روزہ احتجاجی دھرنے اور تشدد کے بعد اب مقدمہ بازی کی آزمائش

لاہور (جدوجہد رپورٹ) بلوچستان کے بندرگاہی شہر گوادر میں جاری حق دو تحریک کے گرفتار رہنماؤں کو 10 روز کے ریمانڈ پرپولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے، قبل ازیں ان کا 3 روزہ ریمانڈ منظور کیا گیا تھا، جو مکمل ہونے کے بعد مزید 10 روز کے ریمانڈ پر انہیں پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔

حسین واڈیلہ سمیت دیگر 12 افراد کو 27 دسمبر کو احتجاجی دھرنے پر ریاستی تشدد کے بعدگرفتار کیا گیا تھا۔ حق دو تحریک کے ٹویٹر ہینڈل کے مطابق گرفتار رہنماؤں کو 10 روز تک لاپتہ رکھا گیا اور پھر کوئٹہ میں ان کو ظاہر کر کے عدالت پیش کیاگیا۔ عدالت نے تین روز کا ریمانڈ منظور کیا اور اب 10 روزہ ریمانڈ منظور کر دیا گیا ہے۔

گرفتار رہنماؤں کے وکیل کے مطابق مجموعی طور پرحق دو تحریک کے قائدین کے خلاف 17 مقدمات قائم کئے گئے ہیں اورمقدمہ کی سماعت کوئٹہ میں کرنا بھی انہیں مزید آزمائش سے گزارنے کے مترادف ہے۔

یاد رہے کہ حق دو تحریک گزشتہ عرصہ کے دوران گوادر کی مقبول تحریک کے طور پر ابھری ہے۔ سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ، سکیورٹی چیک پوسٹوں کے خاتمے، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، بجلی کی فراہمی، صحت کی سہولیات کی فراہمی اور ایران سے تجارت پر پابندیوں کے خاتمے سمیت دیگر مطالبات کے گرد ماضی میں بھی لمبے عرصہ تک احتجاجی دھرنے دیئے گئے ہیں۔

حالیہ دھرنا 50 روز تک جاری رہاہے اور 27 دسمبر کو پولیس کے ساتھ تصادم، جھڑپوں اورگرفتاریوں کے بعد یہ احتجاجی دھرنا ختم ہوا ہے، تاہم احتجاج اب بھی مکمل ختم نہیں ہوا ہے۔

’ڈپلومیٹ‘ کے مطابق دھرنا اس وقت تک پر امن رہا، جب تک گوادر بندرگاہ کی مرکزی داخلی سڑک بند کرنے اور چینی شہریوں کو شہر چھوڑنے کا نہیں کہا گیا تھا۔ تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمان نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت مسلح مزاحمت کی دھمکی بھی دی، جس کے بعد احتجاجی دھرنے کے خلاف حکومت کی جانب سے پرتشدد ایکشن لیا گیا۔

27 اکتوبر 2022ء کو یہ دھرنا شروع کیا گیا تھا، مظاہرین کا موقف تھا کہ حکومت نے اپنے وعدوں پر عملدرآمد نہیں کیا۔ تاہم جب یہ دھرنا 25 ویں روز میں داخل ہوا تو خواتین اور بچوں سمیت دسیوں ہزار مظاہرین نے گوادر بندرگاہ کی طرف جانے والی ایکسپریس وے کو بلاک کر دیا۔ 10 دسمبر کو گوادر میں ہزاروں خواتین نے احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا۔

مولانا ہدایت الرحمان نے چینی شہریوں کو سی پیک کے تمام منصوبے روکنے اور گوادر سے فوری نکل جانے کی وارننگ جاری کی، جس کے بعد حکومت اور تحریک کے رہنماؤں کے مابین دوبارہ مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات ناکام ہونے کے ایک روز بعد 27 کو حالات پرتشدد ہو گئے۔

دھرنا میں خواتین اور بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی موجودگی کے باوجود پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کے علاوہ بدترین آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ مقامی خواتین کے مطابق لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کے باعث متعدد بچے بے ہوش ہو ئے اور متعدد مظاہرین زخمی ہوئے۔

پولیس کی جانب سے حق دو تحریک کے رہنماؤں اور حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا اور اس کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رہا، جس کی وجہ سے شہر میں ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کی طرف سے انٹریٹ اور موبائل سروس بھی بند کر دی گئی تھی، جو دو روز پہلے کھول دی گئی ہے۔

پولیس کارروائیوں کے دوران سینکڑوں گرفتاریاں ہوئیں، مقامی صحافی حاجی عبید اللہ کو بھی گرفتار کیا گیا، تاہم بعد میں رہا کر دیا گیا۔ حق دو تحریک کے زیر حراست رہنماؤں میں حسین واڈیلہ، یعقوب جوسکی اور شرد میانداد شامل ہیں، تاہم تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان ابھی تک فرار ہیں۔ پیر کے روز انہوں نے اعلان کیا کہ وہ گوادر واپس جا رہے ہیں، تاہم ابھی تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔

گوادر میں مولانا ہدایت الرحمان کو جہاں بڑی حمایت حاصل ہے، وہیں کچھ لوگ ان سے متعلق خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ سیاسی سپیس حاصل کرنے، انتخابات میں کامیابی سمیت ریاستی ایما پر مقامی مزاحمتی قیادت کے متبادل کے طور پر ایک پاکستانی ریاست پر اعتماد کرنے والے سیاسی رہنماؤں کے طور پر مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروفیت کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مقامی سیاسی رہنماؤں کا موقف ہے کہ مولانا کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، جو ہمیشہ فوجی اشرافیہ کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہے۔ بلوچ قوم پرستی کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں انہیں اس طر ح کھل کر بات کرنے کی گنجائش فراہم کرنا قوم پرست سیاست کی سپیس پر قبضے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ بلوچ قوم پرستوں اور مولانا کے ایک ہی جیسے اقدامات پر ریاست کے مختلف سلوک کو بھی ایک اہم دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

تاہم ابھی حق دو تحریک کے رہنما مقدمات کی آزمائش میں مبتلا ہیں، طویل احتجاجی دھرنوں، ہزاروں افراد کی طویل ریلیوں، جلسے اور جلوسوں کے تحت ہر طرح کے پر امن سیاسی، جمہوری طریقے کے اپنانے کے باوجود ابھی تک مطالبات منظور نہیں کئے جا سکے ہیں۔ دوسری طرف تحریک کے قائدین کو طرح طرح کے درجنوں مقدمات میں الجھا دیا گیا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts