نقطہ نظر

انقلابی شاعری کا امام جوش ملیح آبادی: اقبال حیدر سے گفتگو

انٹرویو: قیصر عباس

اقبال حیدر کو بلاشبہ جوش ملیح آبادی کے عاشقوں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتاہے۔ عموماً لوگ جب وطن کو خیرباد کہہ کر کہیں اور بس جاتے ہیں تو روزگار اور خاندان کی مصروفیات ان کو ذہنی اور عملی طور پر وطن سے دور کر دیتی ہیں۔ لیکن اقبال حیدر پاکستان سے کینیڈا منتقل ہوئے تو یہاں ادب کے حوالے سے اپنے کلچر اوراس کی وایا ت سے دور ہونے کے بجائے اور قریب ہوگئے اور ’جوش لٹریری سوسائٹی آف کینیڈا“ قائم کرکے وہ کام کیا جو انڈیا اور پاکستان میں بھی نہیں ہوا۔ جوش کی ادبی خدمات پر کانفرنس کا انعقاد کیا، ان کی زندگی اور فن پر تحقیقی کام شروع کیا اور تقریبات کا اہتمام کیا۔ اس دوران انہوں نے جوش کی شاعرانہ جہتوں پر بے شمار مضامین لکھے جو’’نادیدنی ہوں جوش“ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ پاور انجینئر کی حیثیت سے ملازمت اور اپنی ذاتی انشورنس کمپنی چلانے کے بعد اب وہ کراچی میں ”ایوان جوش“ کے قیام کو آخری شکل دے رہے ہیں جس کی نئی عمارت مکمل ہونے کو ہے اور یہ ثقافتی و ادبی مرکزاسی سال اپنا کام شروع کر دے گا۔

ان کا کہناہے کہ جوش ملیح آبادی کا انقلاب ایک جہد مسلسل ہے جس کی تگ ودو برصغیر کی آزادی کے بعد ختم نہیں ہوئی:

”جوش کو شاعر انقلاب کا لقب تو شاید کانپور کے ایک اخبار (غالباً زمانہ) نے دیا تھا مگر اصل بات یہ ہے کہ جوش کا انقلاب انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ختم نہیں ہوا بلکہ ساری عمر جاری رہا۔ اس کی صورتیں بدلتی رہیں مگر یہ انقلابی رو ہر دور اور ہر محاذ پر جاری رہی چاہے وہ مذہبی محاذ پر ہو، فکری محاذ ہو یا سماجی اور معاشرتی۔ اس موقع پر جوش صاحب کا ایک مشہور شعر یاد آیا:

ہر منظر حیات کو دیکھا ہے غور سے
چھوڑا نہیں ہے کوئی بھی عنواں ترے لئے۔“

اس خصوصی گفتگو میں انہوں نے جوش صاحب کے کلام کے گوناگوں پہلوؤں، ادبی کارناموں اور زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔

جوش ملیح آبادی پر آپ کی نگارشات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری پر آپ کی گہری نظر ہے۔ ان کی زندگی اور شاعری میں آپ کی دلچسپی کب پیدا ہوئی اور کیسے؟ آپ پاکستان، انڈیا اور کینیڈا میں تقریبات کے علاوہ ان پر مضامین اور کتابیں بھی شائع کرچکے ہیں۔ ہمیں ان کے بارے میں بھی بتائیے۔

جی ہاں، جوش صاحب ان عظیم شعرا کی صف میں آتے ہیں جنہوں نے اپنے دور کو نہ صرف’Define‘ کیا ہے بلکہ اس سے تجاوز بھی کیا ہے۔ ہر دور اور ہر زبان میں اس قبیل کے شعرا نسبتاً کم ہوتے ہیں جو ایک خاص قسم کی فکری آزاد روی یا عقلیت پسندی کی وجہ سے اپنی ہی زندگی میں ایک ’Iconoclast‘ بن جاتے ہیں۔ وہ ہر فرسودہ چیز کو یا جنہیں وہ فرسودہ سمجھتے ہیں، ببانگ دہل رد کرتے ہیں او ر زمانے سے اصرار بھی کرتے ہیں کہ عقل و دانش کے سوا کوئی دوسرا راستہ فلاح کا راستہ نہیں، کوئی بھی ایسے متحرک اور علم دوست معاشرے کو جمود کا شکار نہیں بنا سکتا۔ اردو میں اس انگریزی لفظ کا کوئی مناسب ترجمہ نہیں ملتاکیونکہ ’Iconoclast‘ ایک متحرک صفت ہے جس میں بلا کی ’Fluidity‘ ہے۔ شاید میرے مزاج میں بھی اسی قسم کاکوئی عنصر ہو یا ہو جس نے مجھے اس غیر معمولی تحرک و تعقل کی طرف متوجہ کیا ہو۔ یقینا جوش صاحب کو میں نے پڑھنے کی طرح پڑھا ہے اور یہ بھی سیکھا ہے کہ علم تجاوز کا منبع ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتاکہ میں نے جوش صاحب کا تمام کلام پڑھا ہے کیونکہ جس دور میں ہم پیدا ہوئے اور بڑے ہوئے وہ تمام چیزین کسی قد رعنقا ہو چکی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے گھر میں میر سے لے کر جوش تک کے تمام مجموعے اور کلیات والد کی لائبریری میں موجود تھے مگر زیادہ جدید یا نسبتاً 1975ء کے بعد کے مجموعے نہیں تھے جن کو بعد میں میں نے حاصل کیامگر اس تگ و دوکا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں جوش صاحب کے تازہ کلام کی اشاعت سے زیادہ پرانے مجموعوں کی عدم دستیابی کااحساس ہوتا گیا۔ پھر ہم جب کینڈا آ گئے اور شعر و ادب کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے تو یہ بھی اندازہ ہوا کہ جوش جیسے فکری اور سخت کوش شاعر کی کتابوں کو چھاپنے والاکوئی ادارہ رہ گیا ہے اور نہ وہ لوگ۔ ایک مرتبہ پروفیسر قمر رئیس صاحب اورنظریہ ساز شاعر علی سردار جعفری صاحب کے ساتھ ڈاکٹر محمد حسن صاحب بھی کینیڈاکے دورے پر آئے اور کئی روز کیلگری میں ہمارے مہمان رہے، سب کویہی ملال تھا کہ جوش کا کلام اب کہیں نہیں ملتااور اس موقع پر سب سے زیادہ اصرار سے قمر رئیس حاحب نے کہا کہ ”الہام و افکار“ اور ”نجوم و جواہر“ کی فوراً اشاعت ہونی چاہئے تاکہ یہ دونوں کتابیں نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی پہنچائی جائیں۔ تو اس طرح یہ سلسلہ شروع ہوا۔

یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ جوش ملیح آبادی نے اپنی شاعری کے ذریعے مزاحمتی ادب میں نئی راہیں نکالیں اوران کی نظموں نے برطانوی سامراج کے خلاف تحریک آزادی کو عوامی سطح پر مقبول کرنے میں اہم کردار اداکیا؟

میرے نزدیک فطری طور پر انقلابی اور مزاحمتی ہونے اور کسی وقتی دباؤ یا سماجی مصلحت کے نتیجے میں اس کو اختیار کرلینے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ چونکہ جوش صاحب فطری طورپر آزادی کے قدر دان اور خواہاں تھے اس لئے وہ صرف اپنی آزادی کے خواہشمند نہیں تھے، اس میں سب لوگوں کے لئے ایک خاص عزت اور احترا م کا پہلوبھی تھا۔ ظاہر ہے اس ہی وجہ سے ان لوگوں اور قوموں کو مورد الزام بھی ٹھہراتے تھے جو غلامی کا طوق پہننے پر آمادہ ہوں۔ یہ ان کا معروضی اور منطقی استدلال تھا کہ جس نے ان کے لہجے میں وہ آتش بھر دی تھی جو ہندوستان کے رگ وپے میں بجلی کی طرح دوڑ رہی تھی۔ جوش نے مزاحمتی انداز کسی اور سے یا کسی ازم سے متاثر ہوکر اختیار نہیں کیا تھا بلکہ وہ ان کی فطری پکار تھی۔ وہ ہندوستان کو صرف آزاد اور آزادہی دیکھنا چاہتے تھے۔ بسا اوقات اپنے ہم وطنوں کی بے حسی پر دل برداشتہ ہو کر وہ بہت سخت زبان بھی استعمال کر جاتے تھے مگر نتیجتاً ان کے وطن کے لوگ خواب غفلت سے چونک کر اور اس اجتماعی بے حسی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے سر بہ کفن ہو گئے۔

ترقی پسند مصنفین کی تحریک میں جاں نثار اختر، کیفی اعظمی، فیض احمد فیض اور دوسرے نامور شعرا شامل تھے لیکن وہ کیا خصوصیات ہیں جن کی بنا پر جوش کو ان سب سے منفرد اور مقبول شاعر کہا جا سکتا ہے؟

دیکھئے ترقی پسند تحر یک کی بنیاد ضرور 1935ء میں پڑی ہو گی مگر ارتقا کا سفر اس سے بہت پہلے سے جاری تھا اور جوش کی شاعری وہ ماحول بنا چکی تھی اور اس ذہن کو مہمیز دے چکی تھی جو اب سوال کرنے کے نہ صرف قابل تھا بلکہ آمادہ بھی۔ جوش اس ہراؤل دستے کے قافلہ سالار تھے اور وہ اب اپنے معاشرے میں وہ تحریک پیدا کر چکے تھے جو ایک دریا سے کود کر دوسرے دریا یا تالاب میں گرنے کے بجائے ایک سمندر بن جائے۔ ان کے نزدیک انقلاب ایک مسلسل معاشرتی اور فکری عمل کا نام تھا چہ جائیکہ ایک پڑاؤ سے نکل کر دوسرے میں اترنے کا۔ مندرجہ بالا نام سب جانے، مانے ترقی پسند ہیں اور سب ممتاز ترین شعرا میں آتے ہیں مگر ان کے سفر کی نہ وہ ابتدا ہے نہ وہ انتہا جو ایک خود آگاہ، خود ساختہ اور بغیر کسی ’Template‘ یا نقشے کی نیش دار لکیروں کی قید سے آزادرفکری اور فطری بہاؤ کی ہوتی ہے۔ یہاں تصور آزادی میں ایک بنیادی فرق نمایاں ہے جیسے سمندر اور دریا میں ہوتا ہے۔ جوش کی کی فکری آزادی کی متعدد جہتیں ہیں۔ جاں نثار اختر، کیفی آعظمی، سردار جعفری، فیض احمد فیض سب نے کسی نہ کسی موقع پر کسی نہ کسی زمانے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ جوش سے کب اور کیسے متاثر ہوئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو ش نے اپنے عہد، اپنے زمانے اور اپنے بعد آنے والوں کواس طرح سیراب کیا جیسے سمندر دریا کو اور دریا تالاب کو۔ جو سب سے اہم پہلو ہے وہ یہ کہ جوش ترقی پسند تحریک سے ایک دہائی پیشتر یہ ارتقائی منزلیں طے کرچکے تھے۔

جوش صاحب نے اپنی سوانح حیات ”یادوں کی بارات“ میں اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کی تفصیل بیان کی ہے لیکن کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ انہوں نے کہیں کہیں مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟

جب میں نے پہلی بار ”یادوں کی بارات“ پڑھی تو مستقل یہ خیال آتا رہا کہ جوش صاحب نے اس کتاب کے لکھتے وقت ایک شعوری، فکری اور اخلاقی فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کے خطے کے اور وطن کے لوگ دوہرے، تہرے معیار کے اس قد ر عادی ہیں کہ ہر بات کو جھٹلاتے اور ہر اس کام کو چھپاتے ہیں جس کو وہ کرتے تو ہیں مگر برا سمجھتے ہیں۔ اس لئے ان کی یہ صریحاً ایک شعوری پکار تھی اور سماجی لڑائی تھی کہ وہ ہر اس بت کاتذکرہ کریں گے اور ضرور کریں گے جس کو سماج برا سمجھتا ہے اور چھپاتا ہے۔ یہ ایک دانستہ خود سوزی کا عمل تھا مگر معاشرے یا سماج کی تطہیرکا پیش خیمہ بھی تھا۔ مبالغہ آرائی کے امکان کوقطعاً رد نہیں کیا جا سکتا، یہ ہر تخلیقی کام کا کم و بیش لازمہ ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اؤل تو تخلیقی اظہار بذات خود ایک طرح سے خود سے سوا ہوتا ہے، پھر یہ کہ محسوسات کے درجے پر حساس نگہی، سرد مہری، کم نگہی کے اپنے اپنے روپ ہوتے ہیں۔ اظہار کے اپنے اپنے پیمانے ہوتے ہیں، تو یہ کوئی حساب کے سوال یاموسم کے حال کی طرح یکسانیت لئے ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ان سب کے کم وبیش اشتراک سے ایک پیکر اظہار وجود پاتا ہے۔ مجھے اس پر معاً یاد آیا کہ ’Blake‘ نے ایک جگہ لکھا ہے ’Exuberance is beauty‘ گویا ”فراوانی حسن ہے“ یا دوسرے لفظوں میں ’Beauty is exuberance in its nature‘ او ریہ تصورکم وبیش اردو یا فارسی شاعری میں بھی ہے۔

بٹوارے کے بعدجوش صاحب انڈیا میں رہے اورپنڈت نہرو نے ان کی دانشورانہ منزلت کی قدر کرتے ہوئے ہر طرح ان کی مدد کی۔ اس کے باوجود انہوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا لیکن کہاجاتا ہے کہ یہاں آنے کے بعدوہ خوش نہیں تھے۔ اگریہ سچ ہے تو اس کی کیا وجوہات تھیں؟

بٹوارے کے بعد کا برصغیر ایک جانکنی کے دور سے گزر رہا تھا خصوصاً وہ حصہ جو لسانی اعتبار سے اردو سے جڑا ہوا تھا کیونکہ اس تقسیم کے نتیجے میں نہ صرف لوگوں میں دو قومی نظریہ سرائیت کر گیا بلکہ وہ زبانوں میں بھی در آیا۔ اس طرح نہ صرف اردو مسلمانوں کی زبان قرار پائی بلکہ یہ رجحان بھی زور پکڑ گیا کہ مسلمانوں نے اپنا ملک بنا لیا اور اردو اس کی قومی زبان ہے تو لامحالہ ”ہندی“ ہندوستان کی زبان ہو گی۔ حالانکہ زبانوں کو کوئی مذہب نہیں ہوتا نہ ہونا چاہیے۔ آج تک عرب میں مسلمان، عیسائی، بہائی اور دیگر مذاہب کے پیروکار عربی ہی بولتے ہیں اور ایران میں بھی فارسی بلا تفریق عام ہے مگر خدا جانے اردو کا یہ تشخص کیوں قرار پایا۔ میری دانست میں جو اردو ہندی پر رائے شماری ہوئی تو ہندی ایک ووٹ سے جیت گئی جب کہ جواہر لال نہرو کا ووٹ اس حکومتی رائے شماری میں اردو کے حق میں تھا (یعنی ہندوستان کی سرکاری زبان)۔ جو چیزیں ہم نے پڑھی یا ہماری نسل نے جو تقسیم کے بعد پاکستان میں پیداہوئی ان کو تو یہ پڑھایا گیا کہ کہ اس سرکاری زبان کے بٹوارے سے جوش بہت دل برداشتہ اور مایوس ہوئے مگر پھر بھی غالباً1955ء یا 1954ء تک وہیں رہے مگر جب پاکستان میں ایک بہت بڑے چودہ صد سالہ جشن مرتضوی میں شرکت کرنے کراچی آئے تو ان کو یقین ہو گیا کہ کہ اگر وہ ہندوستان ہی میں رہے تو اگلی نسل اردو سے کٹ جائے گی اور اسی بنا پر پاکستان کے اس دور کے ارباب حل و عقد کی تمنا بر آئی اور جوش صاحب یہاں منتقل ہو گئے۔ اب یہاں آنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اس میں ذاتی عناد، حسد، تعصب سب نے ایک مشترکہ رول ادا کیا۔ اس پر مستزاد مذہبی عناصر اور ذاتی اختلافات، نظریاتی اختلاف نے ایک طوفان کھڑا کر دیا (یہ تمام باتیں مختلف مضامین، جرائد اور ”یادوں کی بارات“ کے حوالے سے مجھ تک آئی ہیں)۔ مگر سب سے اہم بات وہی ہے جو جوش صاحب نے لکھی کہ جوش صاحب نہرو جیسے دوست اور قدرداں کو بھی رد کر کے پاکستان اس لئے آئے کہ ان کو اپنی نسل یا آنے والی نسلوں کا اردو سے تعلق سب سے ز یادہ عزیز تھااور آج کے حالات دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ ایک قربانی تو تھی مگر شایدرائیگاں نہیں گئی، صرف جوش صاحب تباہ ہوگئے، ان کی نسل اردو سے جڑی رہی۔

اس دور میں جب غزل اردوشاعری کی مقبول صنف تھی جوش صاحب نے نظم کو نہ صرف ایک نئی زندگی دی بلکہ اسے ایک مقبول صنف کا درجہ بھی عطا کیا۔ آپ کے خیال میں یہ کہنا کہاں تک درست ہے؟

کہا جاتا ہے کہ بلکہ سمجھا بھی جاتا ہے کہ جوش صاحب روایتی غزل کے مخالف تھے اور اسے ایک غیر فطری صنف بھی کہتے نظر آئے۔ اس نظریے میں وہ اکیلے نہیں تھے، بہت سارے لوگ اور اکابرین اس کے قائل تھے اور شاید اب بھی ہوں مگر وہ غزل مسلسل کے کبھی مخالف نہیں رہے۔ اسی طرح فارسی کے تمام اکابرین کی غزل کے تو وہ بہت قائل رہے، تا عمر۔ میرے خیال میں ان کی اس شد و مد سے مخالفت اور دیگران کے ہم خیال، ہم عصروں کی اتنی جارحانہ تنقید سے ان کی اپنی مقبولیت میں تو شاید فرق پڑا مگر غزل کو بحیثیت مجموعی بہت فائدہ ہوا کیونکہ غزل نے اپنا چہرہ بدلا، اپنے مضامین کا دائرہ وسیع کیا اور نظم سے ہر وہ چیز لے لی جواس میں پہلے نہیں تھی۔ اس لحاظ سے اگر ایمانداری اور دیانتداری سے دیکھا جائے تو غزل کو بہت تقویت اورخود احتسابی کی عادت پڑی۔

جوش کی غزل کے متعلق یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ ان کے تمام مجموعوں میں غزل کا ایک گوشہ ضرور ہوتا ہے اور بڑی بڑی اعلیٰ غزلیں ہیں جوش کے یہاں۔ انہوں نے نظم کے پیچیدہ اور کسی حد تک مخصوص مضامین کو اپنی غزل میں بڑی خوب صورتی سے برتا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی اردو کے بہت سے نمائندہ غزل گویوں کے یہاں ان کا اثر دکھائی دیتا ہے مگر یہ طے ہے کہ ان کا فطری غالب رجحان اور ان کی دانش کا بہاؤاور تیز دھارا نظم ہی کا متلاشی تھا۔ اردو نظم کے بہت کم شاعر اس کینوس کو پا سکے ہیں یا چھو سکے ہیں جو جوش کے یہاں تھا۔ علی سردار جعفری، ن م راشد، عزیز حامدمدنی، رئیس امروہوی، جون ایلیا، اخترالایمان، فیض، فراز، ہر ایک کی نظم نے جوش سے کسب کیا ہے۔

اسی طرح مرثیہ نگاری میں بھی جوش اپنی ٹرم پر آئے۔ جن چیزوں سے ان کو گریز تھا، جن پہلوؤں پر ان کو اعتراض تھا، اصولی مغائرت، ان کو جوش نے کبھی شامل نہیں کیا اور نہ ہی اس پر کوئی سمجھوتہ کیا۔ مگر انصاف پسند او ر علم دوست ز مانہ اس بات کا گواہ ہے کہ اس صدی کے مرثیہ نگاروں کے اکابرین میں بھی ان کا نام سر فہرست ہی ملے گا۔ یہ سب یقیناً اس لئے ہے کہ وہ اپنے عہد اور آنے والے اردو دانش کے بڑے آدمی تھے اور ہمیشہ رہیں گے کیونکہ انسان کا شعور و آگہی جیسے آگے بڑھیں گے ویسے جوش کے کلا م کی پرتیں کھلتی رہیں گی۔

آخر میں مختصراً یہ اعتراف و اظہار کہ جوش کی رباعیات ایک اعجاز ہیں اختصار و اجمال و دانش کی ژرف نگا ہی کا۔ یہ ایک ایسا سچ ہے جوش کے بارے میں کہ جس کا کوئی رد نہیں۔ انہوں نے جس صنف کو بھی اپنایا، جس منظر پہ نگاہ ڈالی اس پر اپنی چھاپ اور قدموں کے نشان ثبت کیے چاہے مرثیہ ہو یا غزل، جوش کا کلام اپنی پہچان اور اپنا معیار آپ ہے۔

آپ کی کوششوں سے کراچی میں ”ایوان جوش“ کا قیام آخری مرحلے میں ہے اور عنقریب اس کا افتتاح ہو رہا ہے۔ اس مرکز کے مقاصد اور کام پر کچھ روشنی ڈالئے۔

ایوان جوش کا افتتاح مارچ کے اوائل میں ہو جائے گا اور اس کا بنیادی اور کلیدی مقصد تو یہ ہے کہ جوش کی ایک یادگار کراچی میں قائم کی جائے اور اگر ہماری نسل یہ کام نہ کرے گی تو آئندہ ایسی کوئی امید نظر نہیں آتی کیونکہ جوش کے نام، شخصیت، شاعری اور فکر کو جس طرح مجروح اور نظر انداز کیا گیا ہے اس کی مثال دنیائے ادب میں نہیں ملتی۔ اب اس کے تدارک کا ایک یہی طریقہ تھاکہ ان کے نام سے ایک ایسا مرکز قائم کیاجائے جو نہ صرف جوش کے کلام اور فکرکے لئے ایک نیوکلس ’Nucleus‘ (جوہری مرکزہ) ہو جہاں سے ان کی فکر اور کلام کی ترغیب وتشویق پیدا کیا جائے نیز دیگرعلمی مشاغل اور ادبی سرگرمیوں کے لئے عروس البلاد کراچی میں ایک ایسا خالص ادبی اور ثقافتی مرکز مہیا کیا جائے جہاں درمیانے درجے کی اوسط آبادی علم و فن اور ادب کے حوالے سے نہ صرف جمع ہو سکے بلکہ اس کو خالصتاً اپنا سمجھ سکے اور کہہ سکے۔ کہتے ہیں نیت کا حال خدا کو معلوم ہوتا ہے مگر شاید اس کی شہادت اعمال و اقدام سے سے بھی عیاں ہوتی رہتی ہے۔

اس مرکز میں ایک آدھ دفاتر ”جوش لٹریری سوسائٹی“ اور ”الفاظ فاؤنڈیشن“ کے علاوہ ایک ادبی ثقافتی آدیٹوریم تقریباً ڈیڑھ سو لوگوں کے لئے ہو گا، نچلی منزل پرایک چھوٹا سا آڈیو ویڈیو تھیٹر ہو گا، ایک لائبریری اور نوادرات جوش کا حصہ ”یادوں کی بارات“ ہو گا۔ جوش لٹریری سوسائٹی کے اراکین کی اور دیگر عقیدت مندان جوش کی دلی خواہش ہو گی کہ یہ عمارت ایک تحقیقی مرکز کے علاوہ ثقافتی و ادبی مراکز کی کمی پورا کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو گا۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔