پاکستان

پاکستان میں افغان مہاجرین کی حالت زار

صبا گل خٹک

پاکستان نے 40 سال سے زیادہ عرصے سے 1.3 سے 3.6 ملین مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔ ان میں سے بہت سے کابل میں حکومتوں کی تبدیلیوں کی وجہ سے متعدد بار واپس بھی آئے ہیں۔

پاکستان نے کسی مہاجرین بارے کسی بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کیے ہیں اور نہ ہی مہاجرین کے لئے کوئی قانون یا پالیسی نافذ کی ہے۔ تاہم ماضی میں پاکستان نے پناہ گزینوں کو واپس نہ بھیجنے کے اصول کو پناہ گزین کی حیثیت فراہم کرنے کی بنیاد کے طور پر اپنایا ہے۔ریاست اور فرنٹیئر ریجنز کیلئے 2017ء میں کیا جانے والا کابینہ کا فیصلہ (SAFRON) مناسب قوانین کی تجویز پیش کرنے اور واضح پالیسی بنانے کے حوالے سے بالکل غیر واضح ہے۔

پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے مختلف زمرے ہیں۔ 1.4 ملین کے پاس پروف آف اوریجن کارڈ(پی او سی)ہیں، 840000 کے پاس افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہیں اور 7 لاکھ سے زائد کے پاس کوئی شناختی دستاویز نہیں ہے اور وہ 2018ء سے 2020ء کے درمیان پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ اگست 2021ء کے بعد ملک میں آنے والے مہاجرین کو کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، حالانکہ 3 لاکھ مہاجرین کو یو این ایچ سی آر کی پارٹنر این جی اوز نے رجسٹرڈ کیا ہے، جنہیں حکومت پاکستان کی جانب سے پناہ دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ کچھ مہاجرین کی رجسٹریشن کی درخواستیں مسترد ہو گئی ہیں اور کچھ ملک بدر کئے جانے کے خوف سے رجسٹریشن کے عمل سے کترا رہے ہیں۔

پاکستان علاقائی سطح پر ایران، افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے ساتھ چار فریقی مذاکرات میں حصہ لیتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ:ا) رضاکارانہ وطن واپسی کیلئے عالمی حمایت حاصل کی جائے۔ ب) افغانستان میں دوبارہ اتحاد پیدا ہو سکے، اور۔ ج) میزبان کمیونیٹیزکے ساتھ تعاون کیا جائے۔

ستمبر 2022ء میں ’پارلیمانی کمیٹی برائے انسانی حقوق‘نے خاص طور پر اسلام آباد پریس کلب کے قریب ہزارہ برادری کے خاندانوں کو پارک سے باہر جانے پر مجبور کئے جانے اور چھ بچوں کوگرفتار کرنے کے واقع کے بعد حال ہی میں پہنچنے والے مہاجرین کی حالت زار کا نوٹس لیا۔ کمیٹی کی طرف سے ایک ذیلی کمیٹی کو اپنی سفارشات پیش کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ 2017ء کی کابینہ کمیٹی کی سفارشات کے پیش نظر سب کمیٹی نے پناہ کے قانون کی ضرورت، مہاجرین کے مطالبے کے مطابق تھرڈ کنٹری ری سیٹلمنٹ (تیسرے ملک میں دوبارہ آبادکاری) کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا اور دفتر خارجہ کی جانب سے بیرون ملک افغان مہاجرین اور انسانی ضروریات کے بارے میں کام کرنے والے حقوق گروپوں سے فوری طور پر رابطہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

پناہ گزینوں کے لئے عالمی تعاون میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن پناہ گزینوں اور بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد پچھلی دہائی میں دوگنا ہو کر دنیا بھر میں 90 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ دو رجحانات واضح ہیں: پہلا، دنیا بھر میں مختلف ممالک مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔ اور دوسرا، ورلڈ بینک اب غریب ممالک کو مہاجرین اور بے گھر آبادیوں کی مدد کے لئے قرض فراہم کرتا ہے۔

پاکستان 54 پناہ گزین کیمپوں کے انتظام کے لئے ورلڈ بینک کے قرض پر بات چیت کر رہا ہے۔ پاکستان نے فارنرزایکٹ 1946ء (ترمیمی ایکٹ 2016ء) کو افغانوں کو قید اور ملک بدر کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ 500 سے زیادہ خواتین، بچے اور مرد (کچھ درست پی او سی کارڈ والے) پنجاب اور سندھ سے براستہ چمن افغانستان بھیجے گئے ہیں۔

بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے ساتھ مل کر آنے والے معاشی دیوالیہ پن کی وجہ سے پاکستان میں زینوفوبیا (قومیت یا نسل کی وجہ سے تعصب اور نفرت) شدت اختیار کر گیا ہے۔ مہاجرین کو جرائم، منشیات اور دہشت گردی کا ذمہ دار قراردیا جاتا ہے۔ افغان مہاجرین کی لیبر مارکیٹ (خاص طور پر تعمیراتی اور زرعی کام) میں شراکت اور پاکستانی کاروبار (ٹرانسپورٹ اور فوڈ) میں سرمایہ کاری غیر تسلیم شدہ ہے۔ صحت اور رہائش پر ان کے اخراجات اور 2 ارب روپے،جو ان کے بیرون ملک رشتہ دار انہیں پاکستان کے بینکنگ چینلوں کے ذریعہ بھیجتے ہیں، اسے بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔

قانونی ویزا والے افغانوں کو ویزوں کی تجدید نہ ہوپانے کے چیلنج کا سامنا ہے۔ اگست 2021ء کے بعد کے مہاجرین کو غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، بینک اکاؤنٹس نہیں کھلوا سکتے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مہاجر کیمپوں تک رسائی، بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی حاصل نہیں ہیں۔ اکیلی اور بچوں کے ہمراہ خواتین خاص طور پر عدم تحفظ کا شکار ہیں اور انہیں فوری تحفظ اور محفوظ رہائش کی ضرورت ہے۔ غربت سے متاثرہ مہاجرین کے لئے دستیاب معمولی انفرادی مدد بھی تیزی سے سکڑ گئی ہے، کیونکہ غریب میزبان کمیونٹیز کو بھی خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کا سامنا ہے۔ پاکستانی این جی اوز پر غیر محفوظ افغانوں کی مدد کے لئے غیر ملکی ترسیلات زر حاصل کرنے پر ناقابل تسخیر پابندیاں ہیں۔

چونکہ معاشی دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے، نئے آنے والے مہاجرین کی معاشی اور جسمانی سلامتی کی ضروریات بھی بڑھ چکی ہیں۔ کثیرالجہتی اور دو طرفہ ایجنسیاں اور حکومت پاکستان بنیادی خوراک فراہم کر سکتے ہیں۔ پہلے قدم کے طور پر پاکستان اور یو این ایچ سی آر کو پاکستان میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان آبادی کے فوری حل پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے بین الاقوامی کانفرنس بلانی چاہئے۔

پاکستان کو مہاجرین اور دستاویزات کے بغیر افغانوں کے لئے ایک قانون (40 سال پہلے ہی بن جانا چاہئے تھا) اور واضح پالیسیاں نافذ کرنی چاہئیں اور انسانی حقوق سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو پیش کی جانے والی سفارشات پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔ افغان شہریوں کے ویزا کی تجدید کے لئے شفاف اسکریننگ کے عمل کو اپنایاجانا چاہئے۔ پاکستان کو فوری طور پر تضحیک آمیز سلوک، گرفتاریوں اور جبری جلاوطنی کا سلسلہ بھی ترک کرنا چاہیے۔

اسلام آباد میں مغربی سفارت خانوں کو بھی اپنی حکومتوں پرزور دینا ہو گا کہ وہ فوری طور پر پناہ اور دوبارہ آبادکاری کا دائرہ کار افغانوں تک بڑھا ئیں اور معاشی ضروریات پوری کرنے کیلئے عبوری مدت کے دوران مدد فراہم کریں۔ مہاجرین میں بہت سے لتعلیم یافتہ اور پیشہ ور افراد شامل ہیں۔ یو این ایچ سی آر کو مہاجرین، خاص طور پر حال ہی میں بے گھر ہونے والے افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اپنے مینڈیٹ کو برقرار رکھنا چاہئے۔ فوری طور پر خواتین، بچوں اور جوانوں کو محفوظ گھروں میں ایڈجسٹ کیاجانا چاہئے۔

دفتر خارجہ کو پاکستان میں افغانوں کی مایوس کن صورتحال کو اجاگر کرنے اور حل تلاش کرنے کیلئے بیرون ملک انسانی حقوق کے گروپوں کے ساتھ وکالت کرنے کی ضرورت ہے۔ معمول کے بزنس کی بجائے تمام فریقین کی طرف سے صرف سنجیدہ اور فوری ٹھوس اقدامات ہی اس صورتحال میں بامعنی نتائج دے سکتے ہیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: حارث قدیر)

Saba Gul Khattak
+ posts

ڈاکٹر صبا خٹک نے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی۔ وہ فیمن اسٹ ریسرچر ہیں اورعموماً انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔