دنیا

اذیتوں کی منجدھار، جدوجہد ہی راہ نجات!

صائمہ بتول

چند روز قبل پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں تتہ پانی کے مقام پر ایک لڑکی کو چار لڑکوں کی طرف سے گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد بنڈھور کے مقام پر موجود ایک کریش پلانٹ کے پاس برہنہ حالت میں پھینک دیا گیا۔ سوشل میڈیا پہ وائرل ہونے والی یہ خبر اس زوال پذیر سماج کے گل سڑ کر تعفن زدہ ہو جانے اور ہمارے سماج میں خواتین کی حالت زار کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے۔ کہتے ہیں کسی بھی سماج کو پرکھنے کے لیے اس سماج میں موجود خواتین کی زندگیوں کا جائزہ لینے سے نتائج اخذ کرنا انتہائی آسان ہو جاتاہے۔ عالمی طور پرنظام کی گراوٹ کے اثرات مقامی سطح پر بھی معیشت، سیاست اور سماج پر مرتب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نظام کی یہ گراوٹ جہاں مجموعی طور پر محنت کشوں کی زندگیوں کو اجیرن بنائے جا رہی ہے، وہاں خواتین کی پہلے سے مشکل زندگیاں مزید پر پیچ ہوتی جا رہی ہیں۔ آج ترقی یافتہ ترین دنیا میں بھی خواتین کی اجرت مردوں سے کم ہے اور وہاں بھی عورت کو انسان کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ سرمایہ داری عورت کو انسان کی بجائے ایک اشتہاری جنس کے طور پر متعارف کرواتے ہوئے نظر آتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں تو عورت کو زیادہ تر تعلیم حاصل کرنے سمیت کسی بھی شعبہ میں کام کی اجازت تک نہیں اور زیادہ تر خواتین کو اکیسویں صدی میں بھی گھریلو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ جو چند خواتین رسمی تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس یا دیگر شعبوں میں کام حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں وہ انتہائی قلیل اجرت اور جنسی ہراسانی سمیت دیگر گھمبیر مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ کام کرنے کی جگہوں سے لے کر تعلیمی اداروں تک،گھریلو زندگی سے لے کر ہسپتال تک کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں عورت کو ہراساں نہ کیا جا رہا ہو۔ آئے روز جنسی زیادتیوں کے دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ لیکن ہر واقع پہلے سے زیادہ خوفناک انداز میں پیش آ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والا واقع پچھلے واقع پر پانی پھیر دیتا ہے۔ ایک طرف اپر مڈل کلاس اور حکمران طبقے کی خواتین ہیں جن کی عیاشیاں ختم ہوتے نظر نہیں آتیں۔ اور دوسری طرف محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین ہیں جو تہرے استحصال کا شکار ہیں چونکہ سرمایہ کے نظام میں سرمایہ ہی انسانی زندگی کے معیار کا تعین کرتا ہے۔

1910ء میں ہونے والی سوشلسٹ خواتین کی کانفرنس میں خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے 8 مارچ کو محنت کش خواتین کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ یہ مثبت اعشاریہ ہے کہ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں بھی یوم خواتین منانے میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین سرگرم عمل رہتی ہیں۔ مگر این جی اوز یا فیمنسٹ تنظیمیں 8 مارچ کومحنت کش خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے اس دن کو ذاتی نعروں کے گرد محدود کرتی ہوئی نظر آئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے ہونے والا عورت مارچ اپنی اہمیت میں کمی سمیت محنت کش طبقے کی خواتین کو خود سے بدظن کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔

پاکستان میں خواتین پہ ہونے والے مظالم کی شرح ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ ریپ، گینگ ریپ، تیزاب گردی، اغوا، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پہ قتل جیسے واقعات میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔ سال 2022ء میں شہر قائد میں 513 خواتین ریپ کا شکار ہوئی ہیں۔ ڈان اخبار میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 12 ماہ کے دوران 500 سے زائد خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ سندھ میں 16 خواتین کا ریپ ہوا۔ خیبر پختونخواہ میں 11 اور اسلام آباد میں 10 ریپ کیس درج ہوئے اور بلوچستان میں ریپ کا 1 کیس رپورٹ ہوا۔

جبکہ 3 ہزار 649 خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنی۔ سسٹین ایبل سوشل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) اور سینٹر فار ریسیرچ ڈیولپمنٹ ایند کمیونیکیشن (سی آر ڈی سی) کے مطابق 2022ء میں خواتین پر جسمانی حملوں کے 133 کیس رپورٹ ہوئے جن میں پنجاب میں 77 سندھ میں 34 خیبر پختونخواہ 16 اسلام آباد 6 کیس رپورٹ ہوئے اس کے علاوہ ان گنت کیس ایسے ہیں جو درج ہی نہیں ہوئے۔ اغوا کے مجموعی طور پر ملک بھر میں 133 کیس درج ہوئے جن میں پنجاب میں 93 اور سندھ میں 20 اسلام آباد میں 15 بلوچستان میں 2 اور خیبرپختونخوا میں 3 کیس درج ہوئے۔

بھارت میں ہونے والے گینگ ریپ کیس کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

بلقیس بانو کو مارچ 2022ء میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ سال 2012ء میں دہلی میں چلتی ہوئی بس میں 22 سالا لڑکی پہ تشدد اور گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ 6 لوگوں کی طرف سے کیے جانے والے بہیمانہ تشدد اور گینگ ریپ کی وجہ سے لڑکی کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو انڈیا کے مطابق 2012ء میں ہونے والے اس واقعے کے بعد خواتین کے ساتھ جرائم کی شرح میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جہاں بے پناہ مسائل موجود ہیں وہیں پہ خواتین پہ ہونے والے استحصال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتیوں کے بے تحاشا کیس رپورٹ ہوتے ہیں مگر سرکاری طور پہ ملزموں کے خلاف کاروائی کم ہی ہوتی ہے۔ سرینگر نیوز ڈیسک کے مطابق کپوواڑا میں 32 سال قبل بھارتی فورسسز کی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی 100 سے زائد خواتین کو تاحال انصاف نہیں مل سکا۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں جہاں پسماندگی عروج پر ہے بنیادی انسانی سہولیات کی عدم دستیابی کی اور روزگار نا ہونے کی وجہ سے مردوں کی بڑی تعداد ملک سے باہر ہے۔ مگر اس خطے میں زندگی گزارنے والی خواتین کے پاس آگے بڑھنے کے راستے محدود ہیں۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں خواتین پہ ظلم و جبر اور گھریلو تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے رواں برس فروری میں ضلع باغ کے گاؤں کفل گڑھ میں ایک خاتون پہ اس کے دیور نے گولی چلا کر قتل کر ڈالا۔ فروری میں ہی باغ کے اندر ہی ایک خاتون پہ سسرال والوں کی طرف سے تشدد کرنے کے بعد ایسڈ ڈال کر جلا دیا گیا۔ مقتولہ صوبیہ کو انصاف دلانے باغ کے لوگ سڑکوں پہ نکل آئے اور صوبیہ کو انصاف دو کے نعرے بھی لگاتے رہے، مگر ہمیشہ کی طرح ملزمان تا حال گرفتار نا ہو سکے۔ 1 مارچ کو مظفرآباد مہاجر کیمپ میں 14 سالا بچی کے ساتھ اس کے حقیقی باپ کی طرف سے جنسی زیادتی کا کیس درج ہوا ہے۔

سرمایہ داری کے بحرانوں میں گزرنے والا یہ عہد جس میں نوع انساں کی بقا خطرے میں ہے وہیں محنت کش خواتین کی زندگیاں بھی انتہائی ارزاں ہیں۔ تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں خواتین دوہرے اور تہرے جبر کا شکار ہیں۔ عدم برداشت کی وجہ سے خاندانوں میں ہونے والے جھگڑے اپنی انتہاوں پہ ہیں۔ زن، زر، زمین کی چھینا جھپٹی اور قبضہ اب مسلسل تنازعات، قتل اور تصادموں کو جنم دے رہا ہے۔ محنت کش طبقے کو فرقہ واریت، صنفی امتیاز اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے تقسیم کرنا حکمران طبقے کی سازشیں ہیں۔ خواتین کو صنف نازک جیسے القابات دے کر انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سماج کی پسماندہ اور رجعتی پرتیں اگر عورت کے مسائل کا ذمہ دار محض عورت کو ہی ٹھہراتے ہوئے نظر آتی ہیں اور اس کا حل عورت کو برقعے میں لپیٹ کر چار دیواری میں قید کرنا سمجھتے ہیں (جو کہ اس مسئلہ کا حل بہر صورت نہیں، کیونکہ یہاں قبروں سے نکال کر مردہ خواتین کے ریپ جیسے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں)۔ تو دوسری طرف اس سماج کی نام نہاد تعلیم یافتہ پرتیں بھی لبرل ازم کی سوچ کے مطابق عورت کے مسائل کا ذمہ دار مردوں کو قرار دیتے ہوئے اس کا اخلاقی حل ہی نکال پاتے ہیں۔ در اصل تاریخی طور پر عورت کی غلامی کا آغاز ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت سے ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ تو سائنسی طور پر اس کا حل بھی ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے خاتمے سے ہی منسلک ہے۔ عورت کے مسائل کا ذمہ دار نا محض مرد ہیں، نہ ہی عورت خود، بلکہ یہ طبقاتی نظام ہی ہے جو اس کے مسائل کا ذمہ دار ہے۔ کیوں کہ یہ تمام مسائل حکمران طبقے کی عورت کو نہیں جھیلنے پڑ رہے، بلکہ حکمران طبقے کی عورت آج بھی محنت کش عورتوں سمیت مردوں کا جسمانی و جنسی استحصال بھی کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔

ان مسائل کے خلاف محنت کش خواتین میں ایک غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ جوحالیہ عرصہ میں اٹھنے والی عالمی تحریکوں میں دیکھنے کو ملا۔ ان تحریکوں میں خواتین کی بڑی شمولیت حکمران طبقے کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر رہی ہے۔ لبنان، ایران، افغانستان سمیت دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک میں بھی خواتین کے تاریخی احتجاجی مظاہرے بھی اسی عرصہ میں دیکھنے کو ملے۔ محنت کش طبقے کی خواتین کو نا صرف آپسی جڑت بلکہ محنت کش مردوں سے بھی طبقاتی بنیادوں پرجڑت بناتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ جہالت، غربت، صنفی جبر، جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد، تیزاب گردی سمیت تمام تر رجعتی قوانین، قبیلائی تعصب، خاندانی جکڑ بندیوں سمیت اس گلے سڑے اور پر تعفن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف منظم ہو کر جدوجہد کرنی ہو گی۔ جبر و استحصال کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر حکمرانوں کے خلاف محنت کش مردوں اور محنت کش عورتوں کی مشترکہ جدوجہد ہی نا صرف عورتوں پر تہرے استحصال کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ بلکہ اس کرۂ ارض پر اب صرف اور صرف ایک غیر طبقاتی سماج قائم کر کے ہی عورت اور مرد دونوں کو انسانیت کے درجے پر فائز کیا جا سکتا ہے۔

Saima Batool
+ posts

صائمہ بتول جے کے این ایس ایف کی رہنما ہیں۔