نقطہ نظر

فیض کی شاعری سوشلزم کی پکار تھی

علی مدیح ہاشمی

’لوگ اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ انہوں نے کتنی آبرو مندی سے زندگی گزاری۔ انہیں صرف اس بات سے مطلب ہوتا ہے کہ وہ کتنی لمبی دیر زندہ رہتے ہیں۔ گو لمبی زندگی کا فیصلہ کسی کے بس میں نہیں مگر بہت سے لوگ آبرومندانہ زندگی گزارنے کا فیصلہ ضرور لے سکتے ہیں‘: لوسیاس انائیس سنیسا

راقم کی تحریر کردہ فیض احمد فیض کی سوانح عمری اردو زبان میں شائع ہو رہی ہے۔ اس مسودے کی پروف ریڈنگ اور قطع بریدکرنا ایک مشقت طلب کام تھا البتہٰ یہ کام کرتے ہوئے مجھے ایک مرتبہ پھر لفظ اور تحریر کی طاقت کا احساس ہوا۔

کافی عرق ریزی کے بعد، اس مسودے کا پہلاڈرافٹ میں نے کسی طرح 2023ء فیض فیسٹیول سے پہلے مکمل کر لیا۔ یہ میلہ لاہور میں موسم بہار کی ایک سالانہ رسم بن گیا ہے جس کا لوگوں کو انتظار رہتا ہے۔ اس سال ہونے والے فیض فیسٹیول میں ایک سیشن اس سوانح عمری پر بھی تھا۔ اس سیشن میں ہم نے فیض کی زندگی کے کچھ معروف پہلوؤں پر بات کی۔ ان کے بچپن کا ذکر چلا۔ ان کے والد کی بات ہوئی جو نگر نگر پوری دنیا گھومے۔ یقینا فیض کی شاندار اور موسیقی بھری شاعری پر بھی بات ہوئی۔

میں نے فخر سے حاضرین کو بتایا کہ جس کالج میں میں پڑھتا رہا، یعنی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، میں سال پہلے نومبر کے مہینے میں فیض کی یاد میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام ہوا۔ میو ہسپتال کے جس کمرے میں انہوں نے وفات پائی، اسے فیض صاحب سے منسوب کیا گیا۔ میں آجکل یہیں پڑھا بھی رہا ہوں۔ اسی طرح سال بھر پہلے فیض صاحب نے جس کالج میں پڑھا، یعنی گورنمنٹ کالج لاہور، وہاں بھی ہم نے سردیوں کی ایک شاندار صبح فیض صاحب کی یاد میں ہونے والی ایک شاندار تقریب میں حصہ لیا۔ طلبہ نے فیض کی شاعری گائی، سنائی اور بتایا کہ فیض کی شاعری نوجوان نسل کے لئے کیا معنی رکھتی ہے۔ ایک ایسے عہد میں کہ جب دنیا لگتا ہے پاگل ہو چکی ہے، فیض کی شاعری بے شمار لوگوں کے لئے امید مسلسل اور لطف اٹھانے کا ذریعہ ہے۔

لاہور سے باہر بھی فیض احمد فیض کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے اور ان کے ورثے پر بات ہو رہی ہے۔ اس سال ملتان اور کراچی میں ایسے جلسے ہوئے۔ ماضی میں ایسی ہی تقریب اسلام آباد میں ہو چکی ہے۔ چھوٹی چھوٹی تقاریب کالجوں یونیورسٹیوں میں ہر سال نومبر (جس مہینے ان کی وفات ہوئی) اور فروری (جب انکی سالگرہ ہوتی ہے) میں منعقد ہوتی ہیں۔

لگتا ہے فیض صاحب نے اس دنیا میں اپنی آمد اور رخصت کا وقت بہت دھیان سے اچھے موسم کو ذہن میں رکھتے ہوئے چناتا کہ ان دونوں موقعوں پر لوگ ان کی یاد منا سکیں اور برا موسم آڑے نہ آئے۔

فیض فیسٹیول میں ان کی اردو میں سوانح عمری بارے ہونے والے سیشن کے دوران کسی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا: فیض کے ذہن میں ان کی شاعری کا ایک خاص سیاسی اور نظریاتی (سوشلسٹ) مقصد تھا مگر ایسا کیوں کہ ان کی شاعری کو اکثر سیاق و سباق سے کاٹ کر دیکھا جاتا ہے؟ بہ الفاظ ِدیگر، فیض نے مزدوروں، کسانوں، ٹریڈ یونین، خواتین اور مذہبی اقلیتوں، کے لئے جو جدوجہد کی اس پر اتنا زور کیوں نہیں دیا جاتا جتنا شائد فیض صاحب نے خود دیا ہوتا؟ یہ سوال فیض فیسٹیول کی میڈیا کوریج کے پس منظر میں پوچھا گیا تھا۔

یہ اہم سوال ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ تکنیکی لحاظ سے فیض ایک بھر پور شاعر تھے جنہیں صنف ِشاعری پر عبور حاصل تھا اور اس کی ایک وجہ ان کا وسیع المطالعہ ہونا بھی تھا اور پھر انہوں نے ایک لمبا عرصہ اس ہنر کی آبیاری بھی کی۔ ان کی ایک منفرد خوبی یہ تھی کہ انہوں نے سیاسی علامت نگاری اور نظرئے کو اپنی شاعری میں کامیابی سے سمو دیا۔ لاطینی امریکہ میں مقول عام، چلی کے معروف شاعر پابلو نرودو کی طرح، جو فیض کے ساتھی بھی تھے، فیض نے ایک خاص نظریئے اور سیاسی مقاصد کے لئے شاعری کی۔ یہ سیاسی مقصد اور نظریہ تھا سوشلزم جس کا مطلب ہے ہر قسم کے معاشی و سماجی جبر کا خاتمہ، ہر محکوم کی آزادی وہ چاہے ہاری ہیں یا مل مزدور یا خواتین اور دیگر پسے ہوئے لوگ۔

یہ نظریہ محض اتفاق نہیں تھا۔ فیض نے اپنے خاندان کو ’ڈی کلاس‘ ہوتے دیکھا۔ ان کا خاندان دولتمند، تعلیم یافتہ اور ’اونچے طبقے‘ سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر ان کے والد کی وفات کے بعد یہ دن دیکھنے پڑے کہ ماہانہ راشن کی فکر دامن گیر رہتی۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب فیض احمد فیض نے کالج میں داخلہ لیا (فیض صاحب کی والدہ ان کے والد کی نکاح میں آنے والی آخری بیوی تھیں جس کے بعد وہ دنیا بھر گھوم کر سیالکوٹ کے قریب اپنے گاوں میں واپس آن بسے)۔

فیض کا انقلابی نظریات سے تعارف گورنمنٹ کالج میں دور طالب علمی کے دوران ہوا جہاں وہ خواجہ خورشید انور (پاکستان میں صف اول کے موسیقار) جیسے لوگوں کی صحبت میں رہے۔ خواجہ خورشید انور پر بھگت سنگھ کا ساتھ دینے پر مقدمہ چلا، گرفتار بھی ہوئے۔ وہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے زبردست مداح تھے۔

بعد ازاں، جب فیض نے امرتسر کالج میں پڑھانا شروع کیا تو فیض میں بھڑکتی انقلابی آگ کو جن لوگوں نے ہوادے کر شعلہ بنایا ان میں سید سجادظہیر، ڈاکٹر رشید جہاں اور صاحبزادہ محمود الظفر تھے۔ یہ دوسری عالمی جنگ سے کچھ پہلے کے ہنگامہ خیز عہد کے دن تھے۔ یاد رہے، سجاد ظہر انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی تھے۔ رشید جہاں سے عصمت چغتائی عمر بھر متاثر رہیں اور فیض صاحب کو پہلی دفعہ ’کیمونسٹ مین فیسٹو‘کا ایک نسخہ محمود الظفر نے دیا۔

بعد ازاں، فیض نے شعوری طور پر ان شخصیات کی صحبت میں سیکھی گئی سوچوں کو اپنی شاعری میں سمو دیا۔ انہیں فارسی پر بھی عبور تھا اور عربی پر بھی دسترس حاصل تھی۔ انگریزی ادب سے بھی خوب شناسائی تھی۔ ذہانت بھی کمال کی تھی۔ ان سب خوبیوں کا نتیجہ’ہم دیکھیں گے‘ جیسی شاہکار نظم کی شکل میں نکلا۔ ایسی کتنی ہی نظمیں کامیابی سے مذہبی استعارے، سوشلسٹ نعرے اور انسانیت کی جدوجہد اور اس جدوجہد میں کامیابی پر کامل یقین ہی ایسی شاعری کو جنم دیتا ہے جو جمالیات کا بھی شاہکار ہے اور قاری کو ہلا کر بھی رکھ دیتی ہے۔ گو ان کی شاعری کو سیاق وباق سے ہٹ کر پیش کرنا تو آسان بات ہے لیکن اگر ان کی شاعری کو اس کی انقلابی ماہیت کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ دو آتشہ ہو جاتی ہے۔

سو جب مجھ سے پوچھا گیا کہ فیض صاحب کی شاعری کو سیاق و سباق سے ہٹ کر کیوں پیش کیا جاتا ہے تو میرا جواب تھا کہ میں دوسرے لکھاریوں بارے تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میری رقم کی ہوئی سوانح حیات میں ان کی سیاسی جدوجہد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

بعض پہلووں پر تنقید کے باوجود، فیض فیسٹیول اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ فیض نے جس نصب العین کے لئے عمر بھر جدوجہد کی، وہ جدوجہد جاری ہے۔ معاشی سیاسی سماجی جبر کے خلاف، برابری کے لئے، بہتر تعلیم کے لئے، حقِ روزگار کی خاطر، غربت سے نجات،ہر طرح کے استحصال کے خاتمے، ایک بہتر اور متبادل دنیا کی تعمیر کے لئے یہ جدوجہد جاری ہے۔

فیض فیسٹیول پر ہر کسی کو خوش آمدید کہا جاتا ہے تا کہ بحث مباحثہ،دلیل اور منطق کی فضا میں ہم ایک دوسرے سے سیکھ سکیں۔ فیض ہوتے تو شائد یہی سب کچھ دیکھنے کے آرزومند ہوتے۔

Ali Madeeh Hashmi
+ posts

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔