پاکستان

بوسیدہ نظام کی خیرات پر مبنی انسانیت سوز پالیسیاں

ارسلان شانی

جب کوئی نظام تاریخی طور پر اپنی طبعی عمر پوری کر لے تو وہ نسل انسانی کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہو جاتا ہے، امن اور خوشحالی کی بجائے بربادیاں اکثریتی انسانوں کا مقدر بن جاتی ہیں۔ یہی کیفیت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ہے۔ مروجہ نظام میں نسلِ انسانی کو کئی طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ لاکھوں کروڑوں انسان بھوک اور غربت کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ جان لیوا وبائیں پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے زلزلے، سیلاب جیسی قدرتی آفات اس سیارے کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ جنگ اور خانہ جنگی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ یہ تمام علامات اس نظام کے زوال کی نشانیاں ہیں جو متروک ہو کر اپنی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بحران کی وجہ سے وہ تمام تر تعصبات پھر سے سر اٹھا رہے ہیں جن کے خاتمے کی کوششیں سرمایہ داری کے آغاز میں کی گئی تھیں۔ تیسری دنیا کے ممالک جہاں نسل انسانی کو کبھی آسائشیں نصیب ہی نہیں ہوئیں، وہاں پر سرمایہ داری کے معاشی بحرانات کے خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ 1947ء کے خونی بٹوارے میں بننے والے ملک پاکستان، جہاں نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے جی رہی ہے اور معاشی بحران کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ اس کا اظہار ہمیں حکمران طبقات کے بڑھتے ہوئے تناؤ اور بدتہذیبی میں نظر آ رہا ہے۔ ڈیپ سٹیٹ کی لڑائی حکمران طبقات کے ذریعے عوام کے سامنے کھل کر آ رہی ہے۔ بحرانی کیفیت میں حکمرانوں کی پارٹیوں اور ان کے لیڈران کا معیار یہ ہے کہ میڈیا اور ٹویٹر پر جو سب سے زیادہ غلاظت بکتا ہے وہی فخر محسوس کرتا ہے۔ ایک طرف پی ڈی ایم ہے، جو اس وقت آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے سے ملنے والے قرض پر ملک چلانے کا ڈھونگ رچا رہی ہے تو دوسری طرف انتہائی فاشسٹ اور بے ہودہ شخص عمران خان اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں نظر آتا ہے۔ سیاست صرف گالی بن کر رہ گئی ہے۔ جھوٹ و فریب پر مبنی یہ حکمران جماعتیں انتہائی گھٹیا طرزِ سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں، جو سیاسی گراوٹ کا اظہار ہے تو دوسری طرف بے ہودہ اور نان ایشوز پر مشتمل گری ہوئی گفتگو واضح کر رہی ہے کہ حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اور یہ اپنے اس ناٹک سے عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے میں مصروفِ عمل ہیں۔

غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے نے انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ افراطِ زر تاریخ کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1973ء کے بعد تیس فیصد تک مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض پر معیشت چلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے وہ سخت ترین شرائط پر قرض دے رہا ہے جس سے مزید مہنگائی، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہی ہو گا۔ رمضان ریلیف کے نام پر جو ڈرامہ پاکستان میں رچایا جا رہا ہے، اس سے زیادہ انسانیت کی تذلیل کیا ہو سکتی ہے۔ چند کلو مفت آٹے کے حصول کے لیے ہزاروں کی تعداد میں خواتین کا جمع ہونا اور کئی جانوں کا ضائع ہو جانا ہی اس نظام کے حواریوں کا پردہ چاک کر دیتا ہے۔ انسانیت مر رہی ہے لیکن بورژوا میڈیا حکمرانوں کی لڑائی کو مسلسل عوام کے ذہنوں پر تھوپنے میں مصروفِ عمل ہے۔

یہ ساری کیفیت پاکستان جو اکثریت نوجوان نسل پر مشتمل آبادی رکھتا ہے کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ایک طرف بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف جن کے پاس کسی حد تک روزگار ہے ان سے بھی نجکاری کے ذریعے روزگار چھننے کی کوششیں جاری ہیں۔ اکثریت تو تعلیمی اداروں سے ہی باہر ہے اور جو آبادی کی انتہائی قلیل تعداد تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے وہ بھی ڈگریاں ہاتھوں میں لیئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ 2021ء کے مطابق پاکستان میں 29 فی صد نوجوان ناخواندہ ہیں، جبکہ صرف 6 فیصد کے پاس اعلی تعلیم ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 40 لاکھ نوجوان کام کرنے کی عمر کی آبادی میں داخل ہوتے ہیں اور ہر سال صرف 39 فیصد کو ملازمت ملتی ہے۔ سب سے تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ملک کے تقریباً نصف نوجوان تعلیم، روزگار یا تربیت سے محروم ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کسی انسٹیٹوٹ کے بغیر ہنر سیکھتی ہے، نتیجتاً انہیں مناسب مہارت اور سند نہیں ملتی۔ یو این پی ایف کی 2021ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی اس وقت غیر پائیدار شرح (2.4 فیصد سالانہ اوسط) سے بڑھ رہی ہے۔ توقع ہے کہ اگلی چار دہائیوں میں تقریباً 2.1 ملین نوجوان پاکستان میں لیبر فورس میں داخل ہوں گے۔ لیکن یہ نظام روزگار فراہم کرنے کی اہلیت کھو چکا ہے۔

مقابلہ بازی کی اندھی دوڑ ہے پر منزل کا پتہ نہیں۔ ایسے حالات میں نوجوان نسل ہمیں خودکشیوں، بنیاد پرستی، عدم برداشت اور دیگر سماجی برائیوں کا ایندھن بنتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سرمایہ کے اس نظام نے خود غرضی، مقابلہ بازی، تنہائی اور دھوکہ دہی کے ذریعے انسان کے جذبات اور احساسات کا قتل کرتے ہوئے انسان کو ذہنی امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا اصول ہی یہی ہے کہ خود کو آگے بڑھانے کے لیے دوسرے کو پیچھے دھکیلنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں انسانوں میں بھی انسان اکیلا ہے۔ انفرادیت اور جلد بازی انسان کو ہجوم میں بھی تنہا رہنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہر طرف جھوٹ و فراڈ کا غلبہ نظر آتا ہے۔ اعتماد و بھروسہ نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ خونی رشتوں سے لے کر دوسرے تمام رشتے سرمائے کی مرہون منت ہو چکے ہیں۔ دوستیاں فریب پر مبنی ہو چکی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے حصول کے لیے حد سے زیادہ گرنے کے عمل کو ڈھٹائی سے سر انجام دیا جا رہا ہے۔ گفتگو کے معیار مقصد اور مطلب تک محدود ہو گئے ہیں۔ معاشی بربادی کی وجہ سے لالچ اور ہوس سے پاک رشتے قصہِ ماضی بن چکے ہیں۔ مستقبل کی لڑائی لڑنے کے بجائے آج کا نوجوان حال میں ہی بقاء کی تلاش میں اپنی زندگیوں کو اس نظام کے ہاتھوں غرق کر رہا ہے۔ بیگانگی سماج پہ حاوی ہے۔ انسان مایوس و دلبرداشتہ ہو چکا ہے۔

جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو واضح ہوتا ہے کہ وقت کبھی ٹھہر نہیں سکتا۔ ہر لمحہ تغیر ہے بظاہر ٹھہراؤ ہے لیکن سطح کے نیچے ایک طوفان ہے۔ وقت ہمیشہ ارتقائی سفر کے ذریعے تضادات کو واضح کرتا جاتا ہے۔ آج کا نوجوان جہاں بے تحاشہ مسائل کا شکار ہے وہاں ہی متبادل کی تلاش میں محوِ سفر بھی ہے۔ ہمیں یہ ذہن نشین کرنا ہو گا کہ اس وحشی نظام کو اکھاڑنے کے لیے انفرادی طور پر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم جتنے مرضی ترم خان بننے کی کوشش کریں اگر ہمارا عمل تنظیم کو آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے دھکیلنے کا سبب بن رہا ہے تو ہم شعوری یا لا شعوری طور پر اس نظام کو ہی طوالت دینے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ موجودہ وقت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے آج کے نوجوان کی نفسیات کے مطابق اپنی ٹھوس نظریات کی بنیاد پر حکمتِ عملی مرتب کر کے ہی اس نکتہ کو ملایا جا سکتا ہے، جہاں نوجوانوں کی متبادل کی پیاس بجھنے لگے گی۔ نوجوانوں اور خاص کر طلبہ میں مارکسی نظریات کو تیزی سے پھیلانے کے ذریعے ہی انقلابی پارٹی کے سفر کو تیز تر کیا جا سکتا ہے۔ اس نا انصافی اور جبر پر مشتمل سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کے لیے انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے اور اس انقلابی قیادت کی تعمیر میں نوجوانوں کا انتہائی اہم کردار بنتا ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ ”جس کے پاس نوجوان ہیں مستقبل اسی کا ہے“۔ سائنسی سوشلزم کے نظریات سے لیس ایک انقلابی قیادت ہی اجتماعی طور پر اس نظام کا تختہ الٹنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ وقت کھٹن ضرور ہے لیکن مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے سرخ پوش انقلابی ساتھیوں نے اس وقت کو شکست دینی ہے اور سوشلسٹ سرجری کے ذریعے ہر طرح کے تعصب، فرقہ واریت اور استحصال کا خاتمہ کر کے مزدور راج قائم کرنا ہے۔ اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts