حارث قدیر
چیئرمین تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کا معاملہ اس وقت پاکستان میں سب سے اہم مسئلے کے طورپر موجود ہے۔ حکومت، اپوزیشن، میڈیا سمیت ہر جگہ اس گرفتاری اور اس کے اثرات پر بات ہو رہی ہے۔
تاہم جس مقدمے میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا ہے، اس مقدمے کے دیگر کرداروں کا نام لینے کی جسارت کسی بھی جانب سے نہیں کی جا رہی ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے لیکر حکومت، متاثرہ اپوزیشن جماعت اور میڈیا تک کوئی بھی اس رقم کے اصل مالک کا نام نہیں لے سکا ہے، جس کی رقم اسے واپس کئے جانے کے عوض مبینہ طور پر عمران خان اور ان کی اہلیہ نے مالی فوائد حاصل کئے ہیں۔
یہ کیس بڑا سادہ سا ہے کہ پاکستان کے معروف پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے صاحبزادے علی ریاض کے خلاف برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے منی لانڈرنگ کے ایک مقدمہ کی تحقیقات ہو رہی تھیں۔ علی ریاض نے سٹیلمنٹ یا پلی بارگین کے طور پر این سی اے کو 190 ملین پاؤنڈ کی رقم ادا کر دی۔ این سی اے نے یہ رقم حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کا اس لئے فیصلہ کیا کہ یہ رقم پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے وہاں گئی تھی۔
پاکستان میں اس وقت کی تحریک انصاف کی حکومت نے یہ رقم وصول کرتے ہوئے کابینہ میں فیصلہ کر کے سپریم کورٹ میں ملک ریاض کے نام پر جمع کروا دی۔ سپریم کورٹ نے ملک ریاض پر 460 ارب روپے کا جرمانہ عائد کر رکھا تھا۔ یہ جرمانہ پاکستان کے صوبہ سند ھ میں ملک ریاض کی ہاؤسنگ سوسائٹی ’بحریہ ٹاؤن‘ کیلئے جعل سازی کے ذریعے سرکاری زمین انتہائی سستے داموں حاصل کرنے، قبضہ کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کی وجہ سے عائد کیا گیا تھا۔ این سی اے سے حکومت پاکستان کو ملنے والی رقم اس جرمانہ کی ایک قسط کے طور پر جمع کروا کر ملک ریاض کو بھاری مالی فائدہ پہنچایا گیا۔
اس خدمت کے عوض مبینہ طور پر القادر روحانی یونیورسٹی کیلئے اراضی سمیت بنی گالہ میں مجموعی طو رپر 10 ارب روپے سے زائد کی اراضی ملک ریاض کی جانب سے عطیہ کی گئی۔ یوں احتساب بیورو نے اس معاملے پر تیاری کر کے عمران خان پر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مبینہ طور پر مالی فوائد حاصل کرنے کا کیس بنایا ہے۔
بات یہاں تک تو درست ہے لیکن ملک ریاض کی طاقت کا اندازہ کیجئے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے عمران خان کی گرفتاری پر دھواں دھار پریس کانفرنس تو کی، لیکن ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے کا نام لینے کی جرأت نہ کر سکے۔ نجی و سرکاری میڈیا ہاؤسز کی جانب سے اس گرفتاری اور کیس کی تفصیلات پر گھنٹوں کے ٹاک شوز اور پروگرامات کئے تاہم چند مستثنیات کے سوا کوئی بھی ملک ریاض کا نام نہیں لے سکا۔
ملک ریاض اس ملک میں ایسی طاقت کے حامل ہیں کہ ان کی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے اندر قیامت بھی برپا ہو جائے تو پاکستان کے میڈیا پر اسکا تذکرہ ممکن نہیں ہے۔ ان کے خلاف زمینوں پر ناجائز قبضوں سمیت درجنوں فوجداری و سول مقدمات زیر کار ہیں۔ تاہم ان مقدمات کا تذکرہ بھی کسی میڈیا پر نظر نہیں آتا۔
ملک ریاض ایک ایسے کردار ہیں کہ تمام حکمران جماعتوں کے ساتھ ان کے مثالی تعلقات ان کے سرمائے کی بنیاد پر ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک میں کوئی بھی حکومت ہو، ان کے معاملات بلاکسی تعطل کے جاری رہتے ہیں۔
ریاستی اداروں میں بھی ملک ریاض کی ایک گہری چھاپ ہے اور وہ بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ انہیں کام نکالنے کا طریقہ آتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے ریٹائرڈ ججوں سے عسکری اداروں کے ریٹائرڈافسران اور سابق بیوروکریٹوں تک ان کے پراپرٹی کاروبار میں ملازمتوں پر تعینات ہیں۔ حاضر سروس عہدیداران بھی ان کے خلاف کسی نوعیت کی درخواستوں اور اپیلوں کو خوش دلی سے کم ہی قبول کرتے ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد این سی اے میں چلنے والے منی لانڈرنگ مقدمہ، سٹیلمنٹ کی رقم کی وطن واپسی اور اسکی سیٹلمنٹ کے تمام پہلوؤں کا پاکستان میں اس وقت بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ملک ریاض کا نام مگر کہیں ظاہر نہیں ہو رہا۔
اس وقت جون ایلیا ملک ریاض کی جگہ ہوتے تو اس مجسم ریاستی رویے پر اپنے یہی شعر دہراتے:
شرم دہشت جھجھک پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں