حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں آٹا بحران ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہا ہے۔ حکومت نے آٹے کی قیمتوں میں 600 روپے فی من اضافہ کیا ہے اور مزید 1200 روپے فی من اضافے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
سیکرٹری خوراک کا دعویٰ ہے کہ حکومت سالانہ 15 ارب روپے گندم پر سبسڈی دے رہی ہے۔ یہ سبسڈی بتدریج ختم کر کے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا انتظام کیا جائیگا۔ یوں جو افراد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا کے مطابق مستحق افراد کی فہرست میں ہونگے، انہیں کچھ رقم آٹا خریدنے کیلئے فراہم کی جائے گی۔
آٹے کی قیمتوں میں فی الوقت کئے گئے 600 روپے اضافہ کے بعد سرکاری سطح پر 20 کلو آٹے کی قیمت 1550 روپے مقرر ہیں۔ تاہم مارکیٹ میں سرکاری ڈیلرز کے پاس آٹا میسر نہیں ہے۔ اگر کسی سے آٹا ملے بھی تو 1700 روپے قیمت وصول کی جا رہی ہے۔
آٹے کی قیمتوں میں اضافے سمیت دیگر مسائل کے گرد پونچھ ڈویژن کے صدر مقام راولاکوٹ میں آٹا سپلائی ڈپو کے باہر گزشتہ 10 روز سے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ ضلع پونچھ کے دیگر علاقوں میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں اور مزید احتجاجی دھرنوں کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
اس خطہ میں آٹے کی سرکاری سطح پر فراہمی کیلئے ایک پیچیدہ میکنزم ترتیب دیا گیا ہے۔ اس میکنزم کے ذریعے حکومتی اعداد و شمار میں سبسڈی کی رقم تو جمع ہو جاتی ہے لیکن عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے نام پر ملز مالکان، ٹھیکیدار، ٹرانسپورٹر، محکمہ خوراک کے افسران و اہلکاران اور وزرا حکومت بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔
ضرورت کتنی ہے؟
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس خطہ میں گندم کی ضرورت 5 لاکھ 60 ہزار ٹن سالانہ ہے۔ حکومت سالانہ 3 لاکھ ٹن گندم پسوانے کے بعد سرکاری طور پر آٹا فراہم کرتی ہے۔ ماضی قریب میں یہ ایلوکیشن ساڑھے تین لاکھ ٹن تھی، جسے گزشتہ دور حکومت میں کم کر دیا گیا تھا۔
یہ گندم حکومت پاکستان کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم امدادی قیمت کے تحت خریدنے والے محکمہ پاسکو سے مقامی حکومت خریدتی ہے۔ پاسکو کے گوداموں سے یہ گندم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے اندر قائم مختلف ملوں میں پہنچائی جاتی ہے۔ ملوں کے مالکان سرکاری ریٹ پر حکومت کو یہ گندم پیس کر آٹا فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بعد آٹا مختلف سرکاری گوداموں میں لایا جاتا ہے، جہاں سے سرکاری طور پر مقرر کردہ ڈیلروں کے ذریعے سے شہریوں تک پہنچتا ہے۔
سبسڈی کے نام پرعوامی بجٹ کی لوٹ
سبسڈی کی رقم گندم کی قیمت کی بجائے پاسکو کی فنانشل ایڈجسٹمنٹس، گندم اور آٹے کی ٹرانسپورٹیشن اور پسوائی پر صرف کی جاتی ہے۔ سالانہ اڑھائی سے تین ارب روپے پاسکو کو رقوم کی ادائیگیوں میں سبسڈی کے نام پر وصول کئے جاتے ہیں۔ حکومتی موقف ہے کہ پاسکو بینکوں سے قرض لیکر کسانوں سے گندم کم از کم امدادی قیمت پر خریدتا ہے۔ بعد ازاں جس صوبے یا زیر انتظام علاقے کو گندم فراہم کرتا ہے، قرضوں کا سود بھی اسی کو منتقل کر دیتا ہے۔ یوں سالانہ گندم کی خریداری پر اڑھائی سے تین ارب روپے سود کی مد میں دیئے جاتے ہیں۔ حکومت اس کو سبسڈی کا نام دیتی ہے۔
حقیقی معنوں میں اس سود اور فنانشل ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھاری رقوم ہیر پھیر اور کرپشن کی نظر ہو جاتی ہیں۔ سبسڈی کے نام کا دوسرا حصہ گندم اور آٹے کی ٹرانسپورٹیشن پر جاتا ہے۔ سالانہ اڑھائی سے تین ارب روپے کی اس رقم سے ٹرانسپورٹ مافیا، محکمہ خوراک کے افسران اور وزرا بھاری رقوم کماتے ہیں۔ گندم کا بڑا حصہ پاسکو سے خریدنے کے بعد وہیں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹیشن سے لیکر مقامی سطح کے آٹا ڈیلروں تک واؤچرز اور رجسٹر بھر کر سرکاری دستاویزات میں یہ ظاہر کر دیا جاتا ہے کہ یہ ساری گندم پسوائی کے بعد شہریوں تک پہنچا دی گئی ہے۔ یوں وہ گندم،جو پاسکوکے گودام سے خریدتے ہی فروخت کر دی گئی ہوتی ہے، اس کی ٹرانسپورٹیشن اور پسوائی تک کی رقوم سرکاری خزانے سے سبسڈی کے نام پر نکال کر ہڑپ کر لی جاتی ہیں۔
اس خطے میں مجموعی طور پر 12 فلور ملز ہیں، جن میں سے 10 ریاست کے اندر اور 2 پنجاب میں سہالہ اور روات کے مقام پر قائم ہیں۔ ایک ملز مالک سالانہ 60 سے 90 کروڑ روپے آٹا پسوائی کے حکومت سے سبسڈی کی رقم کے طور پر وصول کرتا ہے۔ اس رقم میں سے نصف کے قریب ایسی رقم ہوتی ہے، جو بغیر ایک بھی دانہ گندم پسوائی کے وصول کر لی جاتی ہے۔
یوں عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ رقم سے عوام کے نام پر دی جانے والی سبسڈی چند بیوروکریٹ، حکمران اشرافیہ کے نمائندے، مل مالکان اور ٹرانسپورٹ مالکان اینٹھ لیتے ہیں۔
کرپشن کے مزید راستے
کرپشن کا یہ سلسلہ یہی پر ختم نہیں ہوتا۔ سرکاری گوداموں کے انچارج ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر اور فوڈ انسپکٹرز کا کام اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ آٹا ڈیلرز کو رجسٹرڈ کرنے کیلئے 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک رقم وصول کی جاتی ہے۔ اس کے بعد لائسنس کی تجدید کیلئے سرکاری سطح پر 1ہزار روپے فیس مقرر کی گئی ہے، تاہم 1500 روپے وصول کی جاتی ہے۔
سرکاری سطح پر طے شدہ طریقہ کار کے مطابق آٹا ڈیلرز بینک میں رقم جمع کروانے کے بعد گودام سے آٹا وصول کر سکتے ہیں۔ تاہم محکمہ کے ذمہ داران واؤچرز پر رقوم وصول کر کے آٹا فراہم کرتے ہیں۔ فی بیگ اضافی رقم وصول کر کے واؤچر میں سرکاری سطح پر مقرر شدہ رقم درج کر لی جاتی ہے۔
آٹا ڈیلرز اپنے خسارے پورے کرنے کیلئے سرکاری سطح پر مقرر نرخ نامے سے کم از کم 100 اور زیادہ سے زیادہ 300 روپے فی من اضافی رقم شہریوں سے وصول کرتے ہیں۔ یوں جس ٹرانسپورٹیشن اور پسوائی کے نام پر سبسڈی دی جاتی ہے، اس سے زیادہ رقم شہریوں سے بھی وصول کر ہی لی جاتی ہے۔ اس طرح یہ سبسڈی صرف چند افراد کی جیبیں گرم کرنے کے نام پر ہی دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ فی ڈیلر مقرر شدہ ایلوکیشن کے مطابق آٹا فراہم کرنے کی بجائے 20 بیگ فراہم کر کے 25 پر دستخط لئے جاتے ہیں۔ اس طرح شہریوں کو آٹا فراہم کرنے کی وہ تعداد بھی پوری کر لی جاتی ہے، جو گندم پاسکو کے گودام سے خریدنے کے فوری بعد وہیں مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کر لی گئی ہوتی ہے۔ مینول واؤچرز اس لوٹ مار کو تقویت دینے کیلئے ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ جو گندم پاسکو کے گودام سے مل اور آٹا گودام تک پہنچی ہی نہیں ہوتی، اس کی ترسیل کا عمل مکمل کرکے رقم سرکاری خزانے میں جمع ہو جاتی ہے۔
سبسڈی خیرات نہیں حق ہے
جس سبسڈی کو خیرات یا بھیک کے طور پر بتایا جاتا ہے، وہ دراصل عوامی ٹیکس کی رقم ہے۔ آئینی طور پر عوام کا یہ حق ہے کہ ریاست بنیادی خوراک، تعلیم، علاج اور انفراسٹرکچر کی سہولیات کی مفت فراہمی یقینی بنائے۔ ان بنیادی حقوق کی فراہمی کے بدلے میں ہی ریاست شہریوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے۔
یہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ریاست شہریوں کو روزگار کی فراہمی کی ذمہ داری سے تقریباً دستبردار ہے۔ شہری روزگار کیلئے بیرون ملک محنت فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ آمدن پر ٹیکس کے علاوہ بالواسطہ ٹیکس ہر شہری 18 فیصد جی ایس ٹی کے علاوہ ود ہولڈنگ، ویلیو ایڈڈ اور دیگر طرح کے ٹیکسوں کی صورت میں ادا کر رہا ہے۔
بنیادی خوراک کی ضروریات پوری کرنے پر بھی بھاری ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں۔ توانائی اور ایندھن کے حصول پر بھی مختلف انواع کی بدترین ٹیکسیشن کی جاتی ہے۔
اگر ان سب ٹیکسوں کے بدلے میں ریاست بنیادی خوراک، تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کی فراہمی کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہے تو پھر شہری یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ ہر طرح کے ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیں۔
حل کیا ہے؟
پاسکو سے گندم خریدنے اور پسوائی کے بعد شہریوں کو فراہم کرنے کیلئے بنائے گئے اس پیچیدہ میکنزم کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام تر ملوں کو سرکاری تحویل میں لیا جائے۔ ڈیجیٹل میکنزم تیار کرتے ہوئے گندم خرید سے ڈیلروں تک پہنچانے تک کے عمل کو شفاف اور عوامی رسائی کے قابل بنایا جائے۔ ٹرانسپورٹیشن کا سرکاری سطح پر انتظام کیا جائے اور تمام ریکارڈ کو پبلک رکھا جائے تاکہ کوئی بھی شہری اپنی رقوم کے درست استعمال کے بارے میں جاننے کے حق کا استعمال کر سکے۔
سب سے آخر میں گندم کی خریداری پر 50 فیصد سبسڈی فراہم کرتے ہوئے بلاتخصیص تمام شہریوں کو بنیادی خوراک کی سستے داموں فراہمی یقینی بنائی جائے۔ یہ رقوم عوام کی ہیں، جن سے مستفید ہونے کا سب سے پہلا اور بنیادی حق عوام کا ہے۔ سستی خوراک تک رسائی اس ریاست کے ہر شہری کا حق ہے۔
عوام کو بھکاری بنانے کے تمام طریقہ ہائے کار ختم کئے جائیں اور شہریوں کو عزت اور وقار کے ساتھ تمام حقوق فراہم کرنے کیلئے اقدامات یقینی بنائے جائیں۔
شہریوں کو بھی ان حقوق کے حصول کیلئے منظم احتجاج کا راستہ اپنانا ہو گا۔ احتجاج کو ریاست گیر سطح پر پھیلانا ہو گا اور واضح مطالبات کے ساتھ ریاست کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ آئینی فرائض کی انجام دہی یقینی بنائے۔