لاہور (جدوجہد رپورٹ) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پیر کے روز پاکستان پر زور دیا کہ وہ سیاسی تنازعات کو حل کرنے کیلئے آئین کی پیروی کرے۔ یہ بیان وزیر اعظم شہباز شریف اور ایم ڈی آئی ایم ایف کرسٹالینا جارجیوا کے مابین بیل آؤٹ پیکیج کی بحالی سے متعلق ہونے والی گفتگو کے دو روز بعد سامنے آیا ہے۔
’ٹربیون‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم نے آئی ایم ایف سربراہ سے بات چیت کے بعدوزارت خزانہ کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ بجٹ کی تفصیلات آئی ایم ایف سے شیئر کی جائیں۔ تاہم شہباز اور کرسٹالینا کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطہ قائم ہونے کے دو دن بعد پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم حالیہ سیاسی پیش رفت کا نوٹس لیتے ہیں، جبکہ ہم ملکی سیاستپر تبصرہ نہیں کرتے، لیکن ہمیں امید ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے مطابق آگے بڑھنے کا ایک پر امن راستہ تلاش کیا جائیگا۔‘
’ٹربیون‘ کے سوالات کے جواب میں ناتھن پورٹر نے ان شرائط کا بھی ذکر کیا، جو پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کیلئے پوری کرنا ہونگی۔ ان میں غیر ملکی قرضوں کا بندوبست، آئی ایم ایف کے فریم ورک کے مطابق نئے بجٹ کی منظوری اور زرمبادلہ کی منڈی کے مناسب کام کی بحالی شامل ہے۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی معیاد ختم ہونے میں صرف ایک مہینہ باقی ہے۔ تاہم پاکستانی حکام اب بھی اصرار کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف دو ہفتوں کے اندر بورڈ میٹنگ بلا کر جائزہ مکمل کرنے کی مدت کو کم کر سکتا ہے۔
تاہم ناتھن پورٹر کا کہنا ہے کہ ’مضبوط پالیسیوں کو برقرار رکھنا اور شراکت داروں سے خاطر خواہ فنانسنگ حاصل کرنا پاکستان کیلئے میکرواکنامک استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔‘ ذرائع کے مطابق پاکستان فی الحال تینوں شرائط پوری نہیں کر رہا۔ پیر کو انٹربینک میں روپیہ 285.41 روپے پر ٹریڈ ہوا، لیکن اوپن مارکیٹ میں اس کی قدر 316 روپے کے لگ بھگ تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ نیا بجٹ اس فریم ورک سے بالکل دور ہے، جس پر آئی ایم ایف نے تبادلہ کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے آئی ایم ایف سربراہ کو بتایا کہ پاکستان نے اس سال فروری میں طے شدہ تمام شرائط پوری کر دی ہیں اور اب فنڈ کو سٹاف لیول معاہدے کا اعلان کرنا چاہیے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سربراہ نے نئے بجٹ کی تفصیلات مانگ لیں۔
قبل ازیں وزارت خزانہ نے اس بنیاد پر بجٹ تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ 9 واں جائزہ جولائی تا ستمبر 2022ء کی مدت سے متعلق تھا اور آئی ایم ایف کا آئندہ مالی سال کا بجٹ دیکھنے کا مطالبہ بلاجواز تھا۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ اس سال جون تک مالیاتی فرق کو پورا کرنے کیلئے 6 ارب ڈالر کے نئے قرضوں کا بندوبست کرے، لیکن اب تک حکومت نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 3 ارب ڈالر کی یقین دہانی حاصل کی ہے۔
6.5 ارب ڈالر کا یہ آئی ایم ایف پروگرام گزشتہ سال نومبر سے تعطل کا شکار ہے اور یہ 30 جون کو ختم ہو رہا ہے۔ اس پروگرام میں سے آئی ایم ایف نے ابھی تک 2.6 ارب ڈالر نہیں دیئے، جس میں 9 ویں جائزے کی تکمیل سے منسلک 1.2 ارب ڈالر کی قسط بھی شامل ہے۔
اس وقت پاکستان کے پاس صرف 4.1 ڈالر کے قریب زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، جو آئندہ مالی سال میں 25 ارب ڈالر کی ادائیگیوں کیلئے کافی نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے قرض دینے والے بھی پاکستان کو قرض نہیں دے رہے ہیں۔