لاہور (جدوجہد رپورٹ) مہسا امینی کی موت کی خبر دینے والی ایرانی صحافی کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔ ان کے وکیل نے بتایا کہ ایران نے پیر کو ان دو زیر حراست خواتین صحافیوں میں سے ایک کیلئے پہلا ٹرائل سیشن منعقد کیا، جنہوں نے گزشتہ سال مہسا امینی کی زیر حراست موت کی خبر دی تھی۔
22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی 16 ستمبر کو خواتین کیلئے ملک کے لباس کے سخت ضابطے کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتاری کے بعد موت واقع ہو گئی تھی، اس واقعے کے خلاف ملک بھر میں کئی مہینوں تک احتجاج جاری رہا۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق دونوں گرفتار صحافیوں 30 سالہ نیلوفر حمیدی اور 36 سالہ الٰہی محمدی کو سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہیں مہسا امینی کی موت اور اس کے بعد کے حالات کی کوریج کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
تہران میں بند دروازوں کے پیچھے انقلابی عدالتوں کے ذریعے ان دونوں پر الگ الگ مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ عدلیہ کے ترجمان کے مطابق الٰہی محمدی کے مقدمے کی سمات پیر کو شروع ہوئی اور حمیدی کے مقدمے کی سماعت اگلے روز شروع ہونی ہے۔
محمدی کو 29 ستمبر کو اس وقت حراست میں لے لیا گیا تھا، جب وہ کردستان صوبے میں مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز میں ان کی آخری رسومات کی رپورٹنگ کیلئے گئی تھیں۔ نیلوفر حمیدی کو 20 ستمبر کو ہسپتال سے رپورٹ کرنے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا، جہاں مہسا امینی نے موت سے قبل کے تین دن کوما میں گزارے تھے۔
ان دونوں خواتین پر 8 نومبر کو ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور قومی سلامتی کے خلاف سازش کرنے کے الزامات عائد کئے گئے۔ یہ ایسے جرائم ہیں، جن میں ممکنہ طو رپر سزائے موت ہو سکتی ہے۔
گزشتہ سال کے مظاہروں کے دوران ہزاروں افراد کو گرفتار کیاگیا ہے۔ ان مظاہروں کو ایرانی ریاست نے غیر ملکیوں کے اکسانے پر ہونے والے فسادات کا نام دے رکھا ہے۔ مظاہروں کے دوران درجنوں سکیورٹی اہلکاروں سمیت سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پرامن احتجاج کا حق استعمال کرنے والوں کے خلاف یکطرفہ ٹرائل کے بعد سخت سزاؤں کی مذمت کر رہی ہیں۔