لاہور (جدوجہد رپورٹ) سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ایم این اے علی وزیر کی گرفتاری کو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے استثنیٰ و استحقاق ایکٹ کی سیکشن 3 کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
’دی نیوز‘ کے مطابق سیکشن میں کہا گیا ہے کہ ایک بار اجلاس طلب کئے جانے کے بعد کسی رکن کو احتیاطی حراست سے متعلق کسی قانون کے تحت حراست میں نہیں لیا جائے گا۔
بدھ کو ایک بیان میں رضا ربانی نے کہا کہ اگر علی وزیر کو سیکشن 4 استحقاق ایکٹ کے تحت ایف آئی آر میں گرفتار کیا گیا ہے تو اس معاملہ میں ایف آئی آر کی ایک کاپی سپیکر کو اندراج کے 24 گھنٹے کے اندر فراہم کی جانی چاہیے تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ سپیکر کو ایوان کو بتانا ہے کہ آیا ایسی ایف آئی آر سیکشن 4 استحقاق ایکٹ کے تحت انہیں فراہم کی گئی ہے یا نہیں۔‘
تاہم دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور حکومتی وزراء نے اس معاملہ پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔پیر کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران علی وزیر کی گرفتاری پر آوازیں اٹھائی گئیں۔ قانون سازوں نے گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کیا، جبکہ سپیکر اور دیگر وزراء اس واقعے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران ایم این اے محسن داوڑ، قادر مندوخیل اور دیگر نے علی وزیر کی گرفتاری پر احتجاج ریکارڈ کروایا اور پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔
تاہم حکومت کی طرف سے کسی نے بھی علی وزیر کی گرفتاری پر ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ سپیکر عموماً ایوان کے ارکان کی طرف سے پوائنٹس آف آرڈر کے ذریعے اٹھائے گئے تقریباً ہر معاملے پر اپنی رائے دیتے ہیں۔ تاہم علی وزیر کی گرفتاری کے معاملے کو مختلف ممبران کی طرف سے اٹھائے جانے کے باوجود انہوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔
حکام کے مطابق سیکورٹی فورسز نے علی وزیر کو جنوبی وزیرستان میں ڈمڈیل چیک پوسٹ سے حراست میں لیا اور بعد ازاں پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
علی وزیر کو اسوقت گرفتار کیا گیا جب وہ شمالی وزیرستان میں ڈمڈیل چیک پوسٹ سے میران شان سے رزمک جانے کیلئے گزر رہے تھے۔
علی وزیر پر ایک فرضی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔یہ ایف آئی آر ایک غیر معروف شہری کی درخواست پر درج کی گئی ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق علی وزیر اور دیگر ساتھیوں نے احتجاج کے دوران تقریریں کرتے ہوئے محمد علی جناح کو ’چھپکلی‘ سے تشبیہ دی اور انہیں برطانوی سامراج کا ایجنٹ قرار دیا۔ ان افراد کی رائے سے درخواست گزار کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ اس لئے ایف آئی آڑ درج کی جائے۔
مذکورہ درخواست پر مقدمہ درج کر کے دوران اجلاس قومی اسمبلی کے ممبر کو سکیورٹی فورسز نے گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کیا۔ یہ پاکستانی تاریخ کا انوکھا ترین واقعہ ہے کہ کسی شہری کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کے مقدمہ میں سکیورٹی فورسز نے ممبر قومی اسمبلی کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کیا ہے۔
ادھر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سائبر کرائم سرکل پشاور نے بھی علی وزیر اور پی ٹی ایم کے سبراہ منظور پشتین کے خلاف مبینہ طور پر ہتک آمیز زبان استعمال کرنے اور اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانے کے الزامات پر انکوائری شروع کر دی ہے۔ ایف آئی اے نے دونوں رہنماؤں کو آج 23 جون کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
خیال رہے کہ پی ٹی ایم رہنما علی وزیر کو دو سال دو ماہ تک پابند سلاسل رکھنے کے بعد رواں سال فروری میں ہی کراچی جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ وہ غداری اور بغاوت کے مقدمات میں دسمبر 2020ء سے زیر حراست تھے۔