پاکستان

علاج معالجہ اور ہمارا رویہ

علی مدیح ہاشمی

حال ہی میں کچھ نوجوان دوستوں کے ساتھ ایک عشائیہ میں ’شعور کی اعلیٰ حالتوں‘ سکون آور ادویات اور ذہنی یکسوئی پر خاصی گفتگو ہوئی۔ وہ شام جو مزیدار ڈنر سے مزئین تھی، کچھ ’ذہن بدلنے والے مرکبات‘ (شراب اور چرس)سے بھی معمور تھی تاہم بخیر و عافیت انجام پائی۔ اس شام کے لوازمات نے مجھے پاکستان میں شجر ممنوعہ سمجھے جانے والے موضوع کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا اور وہ ہے ہمارے سکولوں اور کالجوں میں رواج پانے والا غیر قانونی اشیا کا بے تحاشا اور بڑھتا ہوا استعمال۔ الکوحل اور چرس دونوں ہی پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں انہیں ’تفریحی‘ حتیٰ کہ ’دوا‘ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ خاص طور پر چرس کو ہیروئن، کوکین اور پاکستانی کالج کیمپسز اور گھروں میں رواج پانے والا خوفناک رجحان ’آئس‘ یا زود اثر ادویات سے کم نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔

اعداد و شمار خطرناک ہیں، ہمارا ڈیٹا بھی فرسودہ ہے، اس لیے تازہ تحقیق کی اشد ضرورت ہے، لیکن اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کی ایک رپورٹ نے 2013ء سے تاحال بعض خوفناک اعداد و شمار کا انکشاف کیا۔ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 7.6 ملین ہے، جن 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین شامل ہیں۔ اس تعداد میں ہر سال 40 ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اپنی زیادہ آبادی کی وجہ سے پنجاب سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ جو افراد نشہ آور اشیا کا استعمال کرتے ہیں ان میں ایچ آئی وی، ایڈز اور خون سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں جیسا کہ ہیپاٹائٹس کی شرح بھی زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔

ہم معاشرتی ذرائع سے ایسے افراد اور گھرانوں کو جانتے ہیں جو منشیات کی لعنت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ 26 جون منشیات کے استعمال اور غیر قانونی سمگلنگ کے خلاف بین الاقوامی دن تھا۔ لہٰذا یہ مناسب ہے کہ اپنے آپ کو یہ یاد دلائیں کہ ہم کس چیز کا سامنا کر رہے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔

میرے تین بچوں، جو بالترتیب 22، 20 اور 16 سال کے ہیں، نے ہمیں مہنگے نجی سکولوں اور کالجوں میں منشیات کی رسد اور اس کے استعمال کی کئی خوفناک کہانیاں سنائی ہیں، کیوں کہ ان کے بعض دوست اور کلاس فیلوز اس عفریت کا شکار ہو چکے ہیں۔

اس حوالے سے جو لوگ میرے مشاہدے میں آئے ہیں ان کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے والے نوجوان استاد ’آئس‘ کے بے تحاشا استعمال سے تباہ ہو گئے اور اب مزید کام کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک آرکیٹیکٹ جو بحالی مرکز میں مہینوں گزار کر شراب، چرس اور ہیروئن کی لت سے باز آ گئے تھے، اب زندگی کو معمول پر رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے سرکاری ہسپتال کا ڈرائیور کسی کے کہنے پر برسوں پہلے درد کے علاج کیلئے افیم استعمال کر بیٹھا، اب اس کا عادی ہو چکا ہے، اس کے بغیر کام نہیں کرسکتا، اسی طرح کی اور بڑی کہانیاں ہیں۔

منشیات کا استعمال ہر جگہ ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ مؤثر اور سستا علاج کہیں بھی نہیں۔ ہر جگہ پرائیویٹ ”منشیات بحالی مراکز“ قائم ہیں۔ یہ کلینکس اور ہسپتال منشیات کی لت کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اشتہار دیتے ہیں۔ مایوس خاندان ان کے پاس مدد کے لیے جاتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر ان بحالی مراکز کا عملہ ناقص تربیت یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ نشے کے علاج میں مہارت رکھنے والے افراد پاکستان میں تقریباً ناپید ہیں۔ ان مراکز میں سہولیات جیلوں سے قدرے بہتر ہیں، جہاں کم آمدنی والے خاندانوں کے نشے کے عادی افراد کو مویشیوں کی طرح ہفتوں یا مہینوں ایک ساتھ رکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات تو سختی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ زیرعلاج مریض موت کے منہ سے واپس آتے ہیں۔ علاج کا ایک پورا ’کورس‘ کرانے کی بھی سہولت موجود ہے، جس کی فیس لاکھوں روپے وصول کی جاتی ہے مگر اس کورس کے ماہرین کی قابلیت عامیانہ سطح سے اعلی درجے تک مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں مناسب سطح کی دیکھ بھال یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم سرکاری ہسپتالوں کو ہمیشہ فنڈز کی کمی، مریضوں کو غیر صحت مند ماحول اور تیمار داروں کے رش، ڈاکٹروں، نرسوں کو کام کی زیادتی کا سامنا رہتا ہے۔

یقینا منشیات کا استعمال ہر جگہ ہے۔ کراچی سے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اس کے حصول کیلئے فوڈ ڈیلیوری ایپس پر بھی آرڈر کیا جا سکتا ہے۔

لیکن اس معاملے کا حوصلہ افزا پہلو بھی ہے۔ پاکستان میں اب بتدریج موثر علاج کی دستیابی کے علاوہ منشیات سے چھٹکارا پانے میں ہمارا تاحال قائم خاندانی نظام بڑا ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ منشیات کا مختصر مدت کا علاج کافی آسان ہے، جس کے لیے دو سے تین ہفتوں کی ادویات اور ہسپتال کے مختصر قیام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اصل چیلنج اس وقت سامنے آتا ہے جب مریض ڈیٹوکس (Detox) کا کورس مکمل کرتا ہے، جس میں جسم سے منشیات کے اثرات کو ختم کرنے کی ابتدائی مدت مکمل کی جاتی ہے۔ ڈیٹوکس کے اگلے چند مہینوں بعد چیلنج ہوتا ہے کہ نشے کی لت سے چھٹکارا پانے والے افراد کو اس لت سے پاک زندگی گزارنے اور تعلقات دوبارہ بنانے میں مدد کیسے فراہم کی جائے۔ ان لوگوں کے لیے، جو طویل عرصے سے منشیات کا استعمال کر رہے تھے، یہ بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ نئی دوستیاں بنانا، خاندان اور اپنوں کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ استوار کرنا، روزمرہ معمولات کی طرف لوٹنا، جسے ہم زندگی کہتے ہیں، جس میں کام، تعلیم اور دیگر معاشرتی ذمہ داریاں نبھانا شامل ہے۔ نارمل ہونے کے چند ماہ بعد معمولات زندگی سے فرار پانے کی خواہش دوبارہ شدت سے پیدا ہو سکتی ہے، جو پھر سے منشیات کے استعمال پر لگا دیتی ہے۔ ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات کے ساتھ مل کر متعلقہ خاندان صحت یاب ہونے والے مریضوں کے ارد گرد مناسب رکاوٹوں اور حدود کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ نشہ فطرتاً بار بار لاحق ہونے والی بیماری ہے اس لیے کچھ پھسلن کی توقع کی جانی چاہیے، لیکن اگر وقت پر پکڑا جائے، تو اس کا علاج نشے میں مکمل طور پر غرق ہونے سے بچا سکتا ہے۔

اس کے لیے ہمیں زیادہ باخبر خاندانوں، انسداد منشیات کے معاونین اور سکولوں کالجوں میں ماہرین نفسیات کی ضرورت ہے جہاں بیماری اکثر جنم لیتی ہے۔ سزاؤں اور مضحکہ خیز افکار کے بجائے اس کی روک تھام اور علاج پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، جیسے وقتاً فوقتاً سکولوں اور کالجوں میں منشیات کے استعمال کی جانچ کرتے رہنا۔ معاشرے میں منشیات کے کنٹرول میں قانون کا نفاذ بھی اہمیت کا حامل ہے، مگر یہ ثبوت پر مبنی، انسانی اور سماجی طور پر مناسب دیکھ بھال کی جگہ نہیں لے سکتا۔ منشیات کا استعمال تمام بیماریوں کی طرح سماجی وجوہات رکھتا ہے، اس کے طبی پہلو کو اخلاقی ضابطوں یا سخت قانونی سزاؤں کی آڑ میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اگر ہم مقامی، صوبائی اور وفاقی سطح پر کچھ کرنے کے پختہ عزم کے ساتھ، نشے کی لت کو ایک ایسی بیماری کے طور پر تسلیم کر لیں جس کے علاج کی ضرورت ہے، سزا کی نہیں، تو ہم پاکستان میں لاکھوں خاندانوں کی مدد کا آغاز کر سکتے ہیں۔ طبی علاج معیاری تعلیم یا بہتر روزگار کی جگہ نہیں لے سکتا۔ بے رحم سماجی عدم مساوات اور دہشت گردی یا جرائم کے سامنے ڈاکٹر بھی اتنے ہی بے بس ہیں جتنا عام آدمی، لیکن ان حقائق کے باوجود علاج سے مدد ملتی ہے۔ میرے اپنے تجربے میں کامیابی کی کہانیاں بہت ہیں: ایک بار میں نے ایک نوجوان مریض، جو سکول ٹیچر تھا، کو راضی کیا کہ وہ مجھے اپنے والدین سے بات کرنے کی اجازت دے۔ اس کے والدین نے اسے نشے سے چھٹکارا پانے اور زندگی کی طرف لوٹنے میں مدد کی۔

اس سے قبل میں نے ایک ایسے آدمی سے ملاقات کی جو شادی ختم ہونے کے بعد پانچ سال سے شراب چھوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے دوبارہ شادی کر لی، وہ بدستور شراب چھوڑنا چاہتا تھا۔ اس کی نئی بیوی اور بچے شراب نوشی ترک کرانے کا بنیادی محرک تھے۔ چند سال قبل علاج کا ایک مختصر کورس کرنے کے بعد اس نے تقریباً دو سال تک شراب چھوڑ دی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اب بھی دوبارہ ایسا کر سکتا ہے اور اس نے مجھ سے وعدہ بھی کیا ہے۔ جب زندگی ہمیں نیچے گرا دیتی ہے تو ہم سب کو تھوڑی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور سخت الفاظ کے بجائے مدد کرنے والا ہاتھ ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔

Ali Madeeh Hashmi
+ posts

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔