لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایک تاریخی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انگلش کرکٹ کھیل کی تمام سطحوں پر وسیع اور گہری نسل پرستی، جنس پرستی، اشرافیائی اور طبقاتی امتیاز کا شکار ہے اور اسے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔
’گارڈین‘ کے مطابق انڈیپنڈنٹ کمیشن فار ایکویٹی ان کرکٹ (آئی سی ای سی) کی 317 صفحات پر مشتمل رپورٹ 4 ہزار سے زائد کھلاڑیوں، کوچوں، منتظمین اور شائقین کے شواہد پر مبنی ہے۔ رپورٹ کھیل کو بھی اس حقیقت کا سامنا کرنے کی تاکید کرتی ہے کہ یہ مذاق نہیں ہے۔ صرف چند خراب افراد مسائل کا باعث بنتے ہیں۔
انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے امتیازی سلوک سے مناسب طریقے سے نمٹنے میں ناکامی پر غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے رپورٹ کا جواب دیا ہے۔ بورڈ نے کہا کہ یہ نتائج کھیل کیلئے ایک اہم لمحہ ہیں۔ بورڈ نے تین ماہ کے اندر آئی سی ای سی کی طرف سے کی گئی 44 سفارشات کا جواب دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
تاہم آئی سی ای سی کی سربراہ سنڈی بٹس نے کہا کہ فوری طور پر بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمارے نتائج غیر واضح ہیں۔ تعصب کرکٹ کے اندر ڈھانچے اور عمل میں کھلا اور پکا ہوا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ ہرکسی کیلئے کھیل نہیں ہے۔
انکا کہنا تھا کہ نسل پرستی، طبقاتی امتیاز، اشرافیائی اور جنس پرستی کی جڑیں وسیع اور گہری ہیں۔ کھیل کو اس حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے کہ یہ مذاق نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ جیبوں تک محدود نہیں ہے اور نہ یہ بدتمیزی کے انفرادی واقعات تک محدود ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی اور بنگلہ دیشی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے 87 فیصد لوگوں، 82 فیصد بھارتیوں اور 75 فیصد سیاہ فام جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
خواتین پسماندہ ہیں اور معمول کے مطابق جنس پرستی اور بدتمیزی کا شکار ہوتی ہیں۔ خواتین کی ٹیموں کے ساتھ اکثر بے عزتی، دقیانوسی اور دوسرے درجے کا سلوک کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق انگلینڈ کی خواتین ٹیم نے کرکٹ کے گھر لارڈز میں ابھی تک کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کرکٹ اشرافیہ اور مخصوص لوگوں کیلئے ہے۔ اکثریت کو چھوڑ کر پرائیویٹ سکولوں اور اولڈ بوائز کے نیٹ ورکس تک محدود ہے۔ رپورٹ میں سرکاری سکولوں کے بچوں کو ’کسان‘ کہنے یا ان کے محنت کش طبقے کے لہجے کی نقل کرنے کی کہانیوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
کھیل میں شراب پینے اور بچگانہ حرکتوں کا کلچر خواتین کو خطرے میں ڈالتا ہے اور مسلم کمیونٹیز کی شمولیت میں رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق متاثرین اکثر خاموش ہوجاتے ہیں، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ اگر بدسلوکی کی اطلاع دیتے ہیں تو کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
رپورٹ میں کرکٹ بورڈ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ کرکٹ میں نسل پرستی کی حد کو تسلیم کرنے میں ناکام رہا۔ کھیل کی گورننگ باڈی سیاہ فام کھلاڑیوں کے ڈراپ آف یا سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی پیشہ ورانہ کرکٹ میں نمایاں کمی کو دور کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کر سکی۔
رپورٹ کے مطابق کھیل کی سطح پر انگلینڈ کی قومی ٹیموں میں عام آبادی کے مقابلے میں نجی سکولوں کے تعلیم یافتہ کھلاڑیوں کی غیر متناسب نمائندگی کی جاتی ہے۔ گزشتہ 30 سالوں میں مردوں کے پیشہ وارانہ کھیل میں نسلی پس منظر کا تنوع بھی کم ہوا ہے۔
آئی سی ای سی کی سفارشات میں نسل پرستی، جنس پرستی اور اشرافیہ سے نمٹنے کیلئے متعدد اقدامات شامل ہیں۔ حقیقی تبدیلی کو یقینی بنانے کیلئے باقاعدہ ثقافت کی جانچ پڑتال کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرکٹ کو مزید دو سال کے عرصے میں خود کو اسی پوزیشن میں نہیں ہونا چاہیے۔
رپورٹ میں ایک آزاد ریگولیٹر کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ سرکاری سکولوں کے انڈر 15 مقابلے اور یونیورسٹی ٹیموں کیلئے بھی مقابلوں پر زور دیا گیا ہے۔ سرکاری سکولوں کے کھلاڑیوں کیلئے مواقع کو نمایاں طور پر بڑھانے کیلئے اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2021ء میں انگلینڈ کے مرد کرکٹروں کو خواتین کھلاڑیوں کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ رقم ملی۔ ڈومیسٹک اور بین الاقوامی سطح پر خواتین اور مرد کھلاڑیوں کی تنخواہیں برابر کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔