مظفر آباد (حارث قدیر) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک چھٹے ماہ میں داخل ہو گئی ہے۔ 10اکتوبر کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے تمام ضلعی اور تحصیل صدر مقامات سمیت چھوٹے بڑے بازاروں اور دیہاتوں میں خواتین کے احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔ ان احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے شرکت کرتے ہوئے عوامی حقوق تحریک میں اپنی بھرپور شمولیت کا اظہارکیا ہے۔
تحریک کے بنیادی مرکز راولاکوٹ میں خواتین کی سب سے بڑی احتجاجی ریلی منعقد کی گئی۔ اس کے علاوہ دارالحکومت مظفرآباد، کوٹلی، میرپور، باغ، نیلم، ہجیرہ، کھائی گلہ، ریڑہ، دھیرکوٹ، دھر بازار، شوکت آباد، کوئیاں، بنجونسہ میرالگلہ، دریک، چہڑھ سمیت مختلف مقامات اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور کراچی میں بھی جموں کشمیر کی خواتین نے احتجاجی پروگرامات منعقد کئے۔
منگل کے روز ہی مختلف مقامات پر بچوں کی احتجاجی ریلیاں بھی منعقد کی گئیں، کچھ شہروں میں بچوں اور خواتین کی مشترکہ احتجاجی ریلیاں منعقد کی گئیں۔ پاکستانی زیرا نتظام جموں کشمیر میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی عوامی تحریک میں خواتین نے سڑکوں پر آکر شمولیت اختیار کی اور ہزاروں کی تعداد میں ایک ہی دن میں تمام شہروں میں احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔
واضح رہے کہ جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق تحریک 9مئی کو راولاکوٹ میں ایک دھرنے کے انعقاد سے شروع ہوئی تھی۔ یہ اس تحریک کا دوسرا فیز ہے، گزشتہ سال عوامی حقوق تحریک کا آغازکیاگیاتھا۔ تاہم پہلے مرحلے میں بڑے پیمانے پر عوامی پرتوں کی شمولیت ممکن نہیں ہو پائی تھی۔
مئی سے اکتوبر کے 5ماہ کے دوران پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر بھر میں درجنوں مقامات پر احتجاجی دھرنے دیئے گئے۔ مختلف اوقات میں احتجاجی مظاہرے، شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالیں کی گئیں۔ ہر محلے، دیہات، یونین کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور 16ستمبر کو پورے پاکستانی زیرا نتظام جموں کشمیر میں تحریک میں شامل افراد نے مشترکہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی تشکیل دے کر متفقہ قیادت کا بھی انتخاب کر لیا ہے۔
اس تحریک کے دوران دو ماہ سے بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ماہ ستمبر میں پورے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 78فیصد سے زائد شہریوں نے اپنے بجلی کے بل جمع کروانے سے انکار کیا اور ان بلوں کو مختلف شہروں میں نذر آتش اور دریاؤں میں بہا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
تحریک کے اگلے مرحلے میں 17اکتوبر کو طلبہ کے احتجاجی مظاہرے منعقد کئے جائیں گے۔ اس سلسلہ میں طلبہ ایکشن کمیٹیوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ 28اکتوبر کو بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ مسلسل تیسرے ماہ مکمل کرنے کے بعد احتجاجی مظاہرے اور جلسے منعقد کئے جائیں گے۔
دوسری طرف حکومت نے بھی کریک ڈاؤن اور تشدد کے ذریعے تحریک توڑنے میں ناکامی کے بعدمذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ آنے والے دنوں میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کا بھی امکان پیدا ہو گیا ہے۔
یاد رہے کہ اس تحریک کے تین بنیادی مطالبات ہیں، جبکہ دیگر 12مطالبات شامل کر کے 15مطالبات پر مبنی چارٹر آف ڈیمانڈ جاری کیا گیا ہے۔ تین بنیادی مطالبات میں بجلی کی منگلا ڈیم کے پیداواری نرخوں پر بلاتعطل فراہمی، آٹے پر سبسڈی فراہم کر کے گلگت بلتستان کے برابر ریٹ مقرر کرنے اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ کرنے جیسے مطالبات شامل ہیں۔