لاہور(جدوجہد رپورٹ)پاکستان کسان رابطہ کمیٹی، لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور تمیر نو ویمن ورکرز آرگنائزیشن نے لاہور پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا ۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا، زمین اور خوراک لوگوں کے لیے ہے، منافع کے لیے نہیں۔
مظاہرین نے منافع پر مبنی زرعی ماڈل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات کے ساتھ خوراک کے حق کا تحفظ کیا جائے اور اس کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ مظاہرین نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ زرعی زمینوں کی تجارت اور کسانوں کو ان کی زمینوں سے زبردستی بے دخل کرنا بند کرے۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے کہا کہ، ” ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز کو زرعی زمین کو کمرشل پراپرٹیز میں تبدیل کرنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔”
فاروق طارق نے مزید کہا کہ، "زرعی زمین کو تجارتی استعمال میں تبدیل کرنا موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم محرک ہے۔ یہ تبدیلیاں ماحولیاتی نظام میں خلل ڈالتی ہیں، کاربن کے اخراج کو کم کرتی ہیں، اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کردار ادا کرتی ہیں، جس سے گلوبل وارمنگ میں مزید تیزی آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی موسمیاتی رکاوٹیں، جیسے بے ترتیب بارشوں کے پیٹرن اور شدید موسمیاتی بہران ، خوراک کی پیداوار اور دستیابی کے لئے سنگین خطرہ ہیں، جس نے ملک کی غذائی سلامتی کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر پاکستان کسان رابطہ کمیٹی راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی جیسے منصوبوں کی مخالفت میں کھڑی ہے۔”
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیٹ اینڈ ڈیولپمنٹ کے کنٹری پروگرام منیجر ضیغم عباس نے پنجاب میں بڑے پیمانے پر کارپوریٹ فارمنگ متعارف کرانے کے حکومتی منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کارپوریٹ فارمنگ کی وجہ سے زمین اور کیمیائی کھادوں کا وسیع استعمال ہو رہا ہے، جنگلات کی کٹائی اور آبی وسائل میں کمی ہو رہی ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ سے چھوٹے کسانوں اور بے زمین ہاریوں کی خوراک کی خودمختاری ختم کی جا رہی ہے، اور اس طرح پیداوار اور سپلائی کا سارا نظام زرعی کمپنیوں کو سونپا جا رہا ہے۔ "
عباس نے مزید کہا کہ، "ہمیں چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری، کمیونٹی گارڈن اور کسانوں کی منڈیوں جیسے مقامی اور کمیونٹی پر مبنی غذائی نظام کو فروغ دینے اور اس کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے اور خوراک کی پیداوار اور پروسیسنگ میں مقامی اور روایتی علم کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے۔”