فاروق سلہریا
لگ بھگ دس سال قبل جاری ہونے والی فلم ’او مائی گاڈ‘ کافی پسند کی گئی تھی۔ عام فلموں سے ہٹ کر اِس فلم میں مذہب پر بات کی گئی۔ گو مذہبی عقیدے کی فلسفیانہ بنیاد کو تو جسٹیفائی کیا گیا تھا لیکن مذہب کا بیو پار کرنے والے مذہب کے ٹھیکیداروں تک تنقید محدود رکھی گئی تھی۔ یوں یہ فلم بہت ریڈیکل تو نہ تھی لیکن قا بلِ تعریف ضرور ٹہرائی۔
اس فلم کا سیکوئیل ’او مائی گاڈ 2‘ البتہ ہر لحاظ سے مایوس کن ہے۔ اسے سیکوئیل کا نام دینا بھی غلط ہے۔ ایسا صرف مارکیٹنگ کے لئے کیا گیا ہے۔ ادا کاری اوسط درجے کی ہے۔ فلم کا انجام شروع سے ہی واضح ہے۔ بظاہر یہ فلم ایک سماجی مسئلے پر ہے اور بہت ترقی پسند بات کرتی ہے لیکن ترقی پسندی کی آڑ میں ہندتوا کا پرچار کیا جاتا ہے۔
فلم میں کہانی کا مرکزی کردار کانتی شرن(پنکج ترپاتھی) ہے۔ کانتی ایک مندر کے باہر ایک دکان چلاتا ہے جہاں مندر میں پوجا اور رسومات کی ادائیگی کے لئے سامان بیچا جاتا ہے۔ خود بھی بہت مذہبی ہے۔ ایک گرو کا کٹر چیلا بھی ہے۔ اسے ہسپتال سے کال آتی ہے کہ اُس کا ٹین ایجر بیٹا ہسپتال میں ہے۔
ہسپتال پہنچنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس کے بیٹے ویویک (آروش ورما)نے ویاگرا کھا لی تھی۔ادہر، ایک ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے جس میں ویویک اپنے کالج کی ٹائلٹ میں خود تسکینی کے عمل میں مصروف پایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کالج سے نکال دیا جاتا ہے۔ دراصل ویویک گلی محلے میں سیکس بارے پائی جانے والی غلط سوچوں کا شکار ہو کر جنسیت کے نام پر بیچے جانے والے کشتوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور نیم حکیموں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو پیسے کمانے کے لئے اس صورت حال کا استحصال کرتے ہیں۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پورا خاندان محلے کا مذاق بن جاتا ہے۔ پہلے تو کانتی شرن شہر چھوڑنے کا سوچتا ہے لیکن شیوا بھگوان کا ایک پیغامبر (اکشے کمار) پہنچ جاتا ہے اور کانتی شرن کو بیٹے کی کالج سے بے دخلی کے خلاف مقدمہ کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
کانتی شرن کالج کے علاوہ اپنے خلاف بھی مقدمہ درج کر دیتا ہے کہ نہ صرف کالج نے بچوں کو سیکس کی تعلیم نہیں دی بلکہ ماں باپ بھی ایسا نہیں کرتے۔ سارا مقدمہ یہ ثابت کرنے کے لئے ہے کہ سکول کاالج میں سیکس ایجوکیشن ہو نی چاہئے۔ مقدمے میں کالج کی وکیل (یمی گوتم) نطاہر بہت ماڈرن ہیں اور فر فر انگریزی بولتی ہیں جبکہ کانتی شرن اپنا مقدمہ خود لڑتے ہیں اور شدھ ہندی بولتے ہیں جو جج کو بھی سمجھ میں نہیں آتی۔
کانتی شرن کی دلیل یہ ہے کہ ہندو مت میں کاما سترا جیسی کتابیں لکھی گئیں جبکہ مندروں میں ایسی شبہیں موجود ہیں جن میں کاما سترا کے آسن کی منظر کشی کی گئی ہے۔بیانیہ یہ ہے کہ جب انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو سیکس کو تعلیم سے نکال دیا حالانکہ ہندو دھرم دو ہزار سال سے مذہب کے پلیٹ فارم سے ہی سیکس ایجوکیشن دے رہا تھا۔
یوں اس فلم کے ذریعے مغربی جدیدیت کو appropriate کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ سیکس ایجوکیشن غلط ہے جیسا کہ مولوی حضرات پاکستان میں کہتے ہیں بلکہ اس کا جواز مذہب سے نکالا گیا ہے یعنی جدیدیت کے لئے مغرب کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، ہندو مذہب دو ہزار سال سے جدید ہے۔ اس بیانئے کو کئی مکالموں کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے۔
یہ کہ وکیل (یمی گوتم) بظاہر ایک جدید عورت ہے جو انگریزی بولتی ہے، کامیابی سے مقدمے لڑتی ہے،یا جج جسے انگریزی تو آتی ہے مگر ہندی نہیں آتی۔۔۔دراصل ایسے کردار ہین جن سے مندرجہ ذیل بیانیہ ہی آگے بڑھایا گیا ہے یعنی ہندو مذہب ہی حقیقی طور پر جدید ہے جو دو ہزار سال سے سیکس ایجوکیشن دے رہا ہے اور اس کو ماننے والا عام سا ہندو،کانتی شرن،تو فوراََ سیکس ایجوکیشن کا قائل ہو جاتا ہے لیکن مغرب زدہ جج اور وکیل سیکس ایجوکیشن کے خلاف ہیں جنہیں دلیل سے قائل کرنا پڑ رہا ہے۔
اس مقدمے میں جب بھی کوئی مشکل آتی ہے تو شیوا کا نمائندہ (اکشے کمار) کانتی شرن کو اشاروں کنایوں میں مشکل کا حل بتا دیتا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ آخر میں کانتی شرن مقدمہ جیت جتا ہے۔ بھلا بھارتی عدالت بھگوان شیوا کی دلیلوں کا کس طرح مقابلہ کر سکتی ہے وہ بھی ایک ایسے دور میں کہ جب مرکز سمیت آدھی سے زیادہ ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے؟
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔