عامر رضا
نیٹ فیلکس کی نئی منی سیریز ’’ دی ریلوے مین‘‘ انڈین ریلویز کے ان ہیروز کی کہانی سناتی ہے جنہوں نے 1984 میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ہزاروں لوگوں کے جان بچائی۔ 1984 میں دو اور تین دسمبر کی درمیانی شب بھوپال میں امریکی پیسٹی سائیڈ بنانے والی کمپنی یونین کاربائیڈ کے پلانٹ سے
methyl isocyanate گیس انڈسٹریل حادثے کی وجہ سے لیک ہوئی تھی ۔جس کے نتیجے میں بھوپال میں لگ بھگ پندرہ ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے ۔ اس انڈسٹریل حادثے میں صرف فیکٹری کے ورکرزہی ہلاک یا متاثر نہیں ہوئے بلکہ شہری بھی اس کا نشانہ بنے تھے ۔
یونین کار بائیڈ کے پلانٹ میں کام کرنے والی ٹریڈ یوینز فیکٹری کے پلانٹس کی جانچ پڑتال اور مزدوروں کی سیفٹی کو لیکر کئی بار سوالات اٹھا چکی تھی لیکن فیکٹری کو چلانے والے مقامی اور عالمی سرمایہ کاروں کے کانوں پر جون تک نہیں رینگی ۔
فلم میں پیش کئے جانے والے حقائق کے مطابق اس وقت بھوپال ریلوے سٹیشن پر پھنسے اور بھوپال آنے والی ٹرین کے ایک ہزار سے زائد مسافر بھی اس گیس کا شکار بن جاتے اگر وہاں کا اسٹیشن ماسٹر اور اس کی ٹیم اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مسافروں کو وہاں سے روانہ نہ کرتے۔ انڈین ریلوے کے ورکرز نے اعلی حکام کے آرڈز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھوپال تک ریلیف ٹرین پہنچائی ۔
سیریز نے اس وقت اندر گاندھی کے قتل عام کے بعد سکھوں پر ہونے والے مظالم کو بھی پلاٹ کا حصہ بنایا ہے ۔ان مظالم کو سیریز میں پلاٹ پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا گیا ( پلاٹ پوائنٹ سے مراد وہ ٹوسٹ ہوتا ہے جو کہانی کو دوسرے ایکٹ میں شامل کرتا ہے جہاں کہانی اپنے کلائمکس کی طرف بڑھتی ہے ) ۔
سیریز حکمران اشرافیہ اور عالمی سرمایہ داری پر بھی تنقید کرتی ہے ۔سر پلس لیبر رکھنے والے غریب ممالک کے عوام کا مقدر عالمی سرمایہ داری کے لیےمال بناتے ہوئے ہلاک ہونا ہی ہے۔ غریب ممالک کے عوام کے ساتھ اس سے بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ ان کے اپنے ملک کا سیاسی، انتظامی، عدالتی نظام اور میڈیا بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ جو مزدور اس طرح کے صنعتی حادثات کا شکار ہو تے ہیں ان کے لواحقین کو انصاف حاصل کرنے کے لیے لمبی عدالتی جنگ لڑنا پڑتی ہے جس میں ان کی ریاست کا سیاسی ،انتظامی اور عدالتی ڈھانچہ ان کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے ۔
پاکستان میں بلدیہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اتنے بڑے حادثے کا باعث لیبر قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ پاکستان میں فیکٹریز اور ورکرز سیفٹی کے حوالے سے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پر بہت کم ہی عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ بلدیہ ٹاون فیکٹری کے حادثے سے پہلے پنجاب میں فیکٹری انسپکشن پر پابندی عائد تھی جو کہ اس حادثے کے بعد اٹھا لی گئی لیکن خان صاحب کی حکومت نے پنجاب میں پھر سے پابندی عائد کر دی تھی ۔
بلدیہ ٹاون فیکٹری کی آگ کے بعد میڈیا نے اس حادثے پرلیبر قوانین میں بہتری اور ان کے نفاذ پر رائے عامہ میں کوئی بڑی بحث نہیں چھیڑی بلکہ اس واقعہ کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا ۔یوں جو بیانیہ لیبر قوانین کے حوالے سے بنانے کی ضرورت تھی وہ نہیں بنایا گیا۔
اپنی پی ایچ ڈی کی ریسرچ کے سلسلے میں جب میں نے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن آف پاکستان کے سیکرٹری کامریڈ ناصر منصورکا انٹرویو کیا تو میڈیا کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کامریڈ صرف میڈیا کا شکوہ نہیں ہے بلدیہ ٹاون فیکٹری کے مزدور اس ملک کے دانشوروں اور ادیبوں کی بھی توجہ نہیں حاصل کر سکے کسی نے ان پر نظم نہیں لکھی، انہیں افسانے اور ناول کا موضوع نہیں بنایا صرف جواد احمد نے ایک گانا لکھا ۔ ان کا شکوہ بجا ہے پاکستان میں انٹرٹینمنٹ میڈیا نے بھی ایک ڈرامہ یا شارٹ فلم بلدیہ ٹاون فیکٹری کی آگ میں شہید ہونے والے مزدوروں پر نہیں بنائی۔
’’دی ریلوے مین‘‘ میں جب ٹرین میں چوری کرنے والا چور سٹیشن ماسٹر سے کہتا ہے کہ ’’آپ کا ڈیپارٹمنٹ بہادری پر کوئی میڈل نہیں دیتا؟‘‘ تو وہ جواب دیتا ہے کہ وہ صرف اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے ۔
اس جملے کو اگر بلدیہ ٹاون فیکٹری کے شہید مزدوروں کا کیس لڑنے والے ٹریڈ یونینسٹوں کے حوالے سےدیکھوں تو دکھ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی پبلک سروس پر نہ تو سرکار اور میڈیا نے ان کی کوئی پذیرائی نہیں کی بلکہ عوام تو یہ بھی نہیں جانتی کہ جرمنی میں بلدیہ ٹاون فیکٹری کے مزدروں کا کیس کیسے چلا اور اس کا کیا فیصلہ ہوا اور اس کے بعد یورپی یونین میں ووکرز سیفٹی کے حوالے سے کیا نئی قانون سازی ہوئی ؟ گزشتہ سال ’’ہم ٹی وی‘‘ نے زندگی کی اہم شعبوں میں کام کرنے والے خواتین کے ایوارڈ کا اجرا کیا لیکن اس میں انہوں نے کسی بھی ایسی ٹریڈ یونینسٹ خاتون کا انتخاب نہیں کیا جس نے انڈسٹریل شہروں میں خواتین کے حقوق کی جنگ لڑی ہو۔