نقطہ نظر

چمکیلا کو گولی اور مستانہ کو تھپڑ نے مارا

عامر رضا
 
امر سنگھ چمکیلا سے پہلا تعارف سکول دور میں ہوا۔ جب آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا اور یہ کوئی  انیس سو بانوے کی بات ہے ۔ کلوس فیلوز کا ایک گروہ جو مجھے بُلی کرتا تھا اس نے چمکیلا کے گانوں کی کیسٹ مجھے دی کہ گھر جا کر سنو۔ ایک دوست ،جسے چمکیلا کے گانوں کا پتہ تھا، اس نے مجھے بتایا کہ گندے گانوں کی کیسٹ ہے اس لیے گھر نہ لیکر جانا اور نہ ہی سننا ۔اس وقت چمکیلا کو نہیں سنا ۔بھلا ہو امتیاز علی کا جس نے تیس سال بعد نہ صرف اس پرانی یاد کو تازہ کر دیا بلکہ اس کے ساتھ چمکیلا سنوا بھی دیا ۔
 
امتیاز علی نے چمکیلا خوب بنائی اور بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کہانی  کو دانشورانہ رنگ نہیں دیا، کوئی اخلاقی ،سیاسی اور سماجی تبصرہ نہیں کیا بلکہ کہانی کو کہانی سمجھ کر سنایا ۔جب کہانی کو کہانی سمجھ کر بیان کیا جائے اور اس کے بیانیے کی تشریح سامعین،قارئین یا ناظرین پر چھوڑ دی جائے تو وہ کہانی امر ہو جاتی ہے ۔جیسے  میخائل شخولوف کا ناول ’’اور ڈان بہتا رہا ‘‘ ہے۔ اس  کی کہانی اپنے فطری بہاو کے ساتھ بڑھتی ہے ،انقلابِ  روس  اور  دیگر سیاسی بیانیے اس میں یونہی امڈ آتے ہیں جیسے بہتے دریا میں  مختلف چیزیں امڈ آتی ہیں ۔
 
فلم کا فوکس صرف اور صرف چمکیلا کی زندگی ہے سیاسی بیانیہ اس سے ہر کوئی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اخذ کر سکتا ہے  اور نہیں بھی کر سکتا ۔کتاب  ’’مارکس سے خائف لوگ ‘‘میں ایک آرٹیکل ’’پورنو گرافی ایک مفروضہ ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے ۔ مفروضہ یہ تھا کہ جب فرد سیاسی شکست و ریخت کا شکار ہوتا ہے وہ تو پورنوگرافی میں پناہ تلاش کرتا ہے ۔مجھے  یہ فلم اس مفروضے کو ایک بار پھر تقویت دیتی ہوئی نظر آئی ۔اسی کی دہائی میں بھارتی پنجاب میں جو سیاسی حالات تھے ،تشدد کو جس طرح ریاستی اور غیر ریاستی عناصر اپنے اپنے مقاصد حاصل کر نے کے لیے استعمال کر رہے تھے ،ایسے حالات میں چمکیلا کی ذو معنی شاعری اور گائیکی کا مقبول ہو نا  کوئی اچنبے کی بات نہیں تھی ۔خود فلم میں چمکیلا کو میوزک کمپنی کا مالک یہ زار سمجھاتے ہوئے پایا جاتا ہے کہ جب حالات خراب ہوتے ہیں تو انسان کے اندر انٹر ٹینمنٹ کی بھوک جاگتی ہے ۔
 
گذشتہ ہفتے لاہور گیا تو کسی کام کے سلسلے میں مشرقی پنجاب کے فلم مورخ مندیپ سندھو سے بات ہوئی تو لگے ہاتھ ان سے چمکیلا بارے سوال بھی کیا ۔انہوں نے کہا کہ چمکیلا بھارت کی مڈل کلاس میں اتنا مقبول نہیں تھا جتنا کہ یہاں کے کسانوں  ، ٹرک ڈرائیوروں اور اس طرح کے دیگر پیشوں سے وابستہ لوگوں میں مقبول تھا ۔
 
بھارت اور پاکستان کے طبقات میں بٹے ہوئے سماج میں اگر تفریح کے مواقعوں کا جائزہ لیں تو صورتحال کچھ خاص بہتر نہیں ہے ۔دونوں ریاستیں اپنے کسان اور مزدور طبقے کو معیاری اور بہتر تفریح نہیں دے سکیں۔ان ممالک میں میڈیا کے ذریعے  پاپولر کلچر کی پروڈکشن بھی سیٹھوں کے   ہاتھوں میں ہے  جنہوں نے نچلے طبقے کے افراد کی کہانیاں سنانا ،ان میں اخلاقیات کے گوہر تلاش کرنا بند کر دیا ہے ۔میڈیا میں جو کہانیاں زیادہ تر سنائی جاتی ہیں وہ صرف اس کلاس کی ہیں جو بڑی صارف کلاس ہے ۔غریب کلاس وہ ہے جو پروڈکٹ کا شاشے پیک استعمال کرتی ہے اس لیے اس کی کہانیاں بھی مین سٹریم میں ساشے پیک جتنی ہیں ۔
 
دونوں ریاستوں نے جس طرح کا معاشی اور سیاسی نظام وضع کیا ہے اس میں یہ ممکن نہیں ہے کہ مزدور طبقہ اپنے لیے کوئی بہتر قسم کا کلچر ترتیب دے سکے ۔زندہ رہنے کے لیے اس طبقے کو جو تگ و دو کرنی پڑتی ہے اس میں اس کی صرف ایک ہی سوچ ہوتی ہے کہ اس نے جسم اور روح کا رشتہ کیسے بنائے رکھنا ہے ۔اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ سوچ سکے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ،اخلاقی کیا ہے اور غیر اخلاقی کیا ۔یہی المیہ چمکیلا کا تھا جو پنجاب کی دلت کلاس  سے تھا ۔ فلم میں وہ  کہتا ہے کہ وہ بہت چھوٹا آدمی ہے اسے نہیں سوچنا کہ اچھا کیا ہے غلط کیا ہے بلکہ اسے زندگی کے ساتھ چلنا ہے ۔چمکیلا  کو ریاست نے اس وقت تک تنگ نہیں کیا جب تک اس نے غیر ریاستی عناصر کے کہنے پر گانے نہیں گا ئے  یا ایسے  گانے نہیں گائے جن سے خالصتان تحریک والے اپنا فائدہ حاصل کر سکتے ۔ریاست نے اس کے ذومعنی گانوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی کیونکہ ریاست بھی یہ جانتی تھی کہ فرد کی شکست و ریخت اور اس کے پریشر کو نکلنے کا ایک موقعہ چمکیلاکے ذریعے مل رہا ہے اس لیے اس نے اپنی آنکھیں بند کیے رکھی۔
 
سرحد کے اس پار ریاست کی پالیسی  بھی کچھ ایسی ہی رہی ۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دہشت گردی اور تشدد کی جو لہر آئی اس نے یہاں کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو متاثر کیا ۔خود کش حملوں،مہنگائی ، لوڈ شیڈدنگ ، بے روز گار ی اور سیاسی جبر کا شکار ہونے والا پاکستان کا نچلا طبقہ جب نڈھال ہوا تو اس نے  تفریح  اور فرار کے مواقعے  مجروں کی نیم برہنہ سی ڈیز ،سینما میں نصبیولال کے گائے ہوئے ذو معنی گانوں  ،سٹیج پر ہونے والے ڈانسز اور ذو معنی جگتوں میں تلاش کئے( چمکیلا کا گانا ’’ تیری ہک تے ملائی اور نصبیو کا گانا ’’ میری ہک اتے قطرہ کھلو گیا ایک ہی دھارے کا حصہ ہیں) ۔پاکستانی اشرفیہ نے اس نڈھال شدہ طبقے کی نفسیات کو سمجھنے یا اس کا تجزیہ کرنے کی بجائے  اخلاق اور اقدار کا علم بلند کیا اور سٹیج پر ہونے والے ڈراموں کے خلاف  آپریشن شروع کر دیا ۔ اس آپریشن کے خلاف آواز اٹھانے میں دھر م کے کار ی کرتا ہی آگے آگے تھے بالکل ایسے ہی جیسے سارے دھرمی چمکیلا جیسے ’’ادھرمی ‘‘کے خلاف متحد ہو گئے تھے۔
 
ایک ایسے ہی آپریشن میں اس وقت کے معروف سٹیج آرٹسٹ مستانہ کو ایک پولیس کے سپاہی نے سٹیج پر تھپڑ رسید کر دیا ۔روزنامہ ڈان نے  دوہزار گیارہ میں ان کی وفات پر جو خبر شائع کی اس میں ان کے قریبی دوستوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا  دو ہزار چار میں جب ناز تھیٹر پر پولیس نے چھاپہ مارا تو ایک پولیس والے نے مستانہ کو تھپڑ رسید کر دیا جس کے بعد حساس فنکار کی کایا کلپ ہو گئی اور انہوں نے سٹیج کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا ۔اور گمنامی کی حالت میں بہاولپور کے وکٹوریہ ہسپتال میں وفات پائی ۔
 
چمکیلا غیرریاستی عناصر کی گولی سے اور مستانہ ریاستی عناصر کے تھپڑ سے مارا گیا ۔چمکیلا کو امتیاز علی مل گیا لیکن مستانہ کو شاید کسی امتیاز علی کا انتظار ہے ۔اوربارڈر کے دونوں طرف ورکنگ کلاس کو ایک ایسے نظام کا انتظار ہے جو انہیں زندگی میں ایسے مواقعے مہیا کرے کہ وہ اپنا بہتر کلچر تشکیل دے سکیں۔
Amir Raza
+ posts

.عامر رضا ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر ہیں۔ مارکس سے خائف لوگ اور سیاست سنیما سماج کے مصنف ہیں.