فاروق سلہریا
سامراج صرف معاشی اور فوجی غلبے کا نام نہیں۔ سامراج ثقافتی چڑھائی کا نام بھی ہے۔ سامراجی قوتیں اپنی کالونیوں پر ثقافتی غلبہ بھی قائم کرتی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ امریکہ کی عالمی طاقت میں نسبتی انداز میں کمی ہوئی ہے۔ چین اورروس کے ابھار سے امریکہ کو دھچکا لگا ہے لیکن پچھلے تیس سال سے جاری یہ پیش گوئیاں کہ امریکہ کا زوال شروع ہے، ابھی قبل از وقت ہیں [شائد کسی کو یاد ہو:چار سال پہلے تو پاکستانی میڈیا پر دھواں دھار ٹاک شو ہو رہے تھے کہ امریکہ ٹوٹ رہا ہے]۔
امریکی زوال بارے اگر کسی کو کوئی غلط فہمی ہے تو غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت سے یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہئے۔ چین اور روس کا کردار کہیں نظر نہیں آ رہا(ثقافتی شعبے میں بھی چین اور روس کہیں دکھائی نہیں دیتے)۔ سوشلسٹ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نئی سرد جنگ کا آغاز کوئی اچھی خبر ہے نہ امریکہ کا مسلسل سامراجی کردار۔ احسن انداز میں امریکی سامراج کا زوال نئی سرد جنگ سے نہیں،نئے سوشلسٹ انقلابات کی شکل میں ہی ہو سکے گا۔
سامراج سے متعلق بحث میں ایک نیا عنصر ابھرتی ہوئی معشیتیں (انڈیا،ترکی، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا،برازیل) بھی ہیں۔ ان معیشیتوں کی حقیقیت ذیلی سامراج (sub-imperialism) سے زیادہ نہیں۔ ذیلی سامراجی ممالک، لینن کے الفاظ میں، سرمایہ داری کے آخری مرحلے پر پہنچ چکی ہیں مگر علاقائی سطح پر۔
اہم نوٹ: لینن نے یہ نہیں کہا تھا کہ سامراج سرمایہ داری کا آخری مرحلہ (highest stage)ہے۔ لینن نے کہا تھا سامراج سرمایہ داری کا تازہ ترین مرحلہ (latest stage) ہے۔
نیم سامراجی ممالک کا کردار یہ ہے کہ وہ عالمی سامراجی نظام میں لوٹ مار کا ایک پرزہ ہوتے ہیں۔ علاقائی سطح پر ان کا کردار وہی ہوتا ہے جو عالمی سطح پر کسی سامراجی ملک کا ہوتا ہے لیکن سامراج کے اتھ ان کا تعلق جونئیر پارٹنر کا ہوتا ہے۔
اگر اس عالمی معاشی (اور سیاسی) نظام کی سمجھ آ جائے تو ہالی وڈ اور بالی وڈ کا رشتہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے جس کی چند تفصیلات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں تا کہ کلچرل امپیریلزم کی بحث کو آگے بڑھایا جا سکے۔
دنیا بھر میں میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کی صنعت کا معاشی حجم 326 ارب ڈالر ہے۔ اس میں امریکی مارکیٹ کی ویلیو 133 ارب ڈالر جبکہ بھارتی میڈیااور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی ویلیو 26 ارب ڈالر ہے۔ گویا امریکہ کا حصہ لگ بھگ چالیس فیصد جبکہ بھارت کا حصہ سات فیصد ہے(پاکستان کی مارکیٹ چند ملین ڈالر پر مبنی ہے،یہی حال باقی جنوب ایشیائی ممالک کا ہے۔یاد رہے، ذیلی سامراج علاقائی سطح پر ناہمواری میں اضافہ کرتا ہے)۔
اب آتے ہیں فلم کی جانب۔ بالی وڈ کا پوری دنیا میں شور ہے۔ بھارتی فلمیں یورپ، چین، شمالی امریکہ، خلیج، اور افریقہ کے علاوہ اب مشرقی ایشیا میں بھی جگہ بنا رہی ہیں۔ بلاشبہ ہندوستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ فلمیں بنانے والا ملک ہے۔
شمالی امریکہ اور چین کے بعد،بھارت دنیا کی سب سے بڑی فلمی منڈی ہے۔ کرونا کی وجہ سے دنیا بھر میں فلمی صنعت کو دھچکا لگا۔ آہستہ آہستہ یہ صنعت بحال ہو رہی ہے۔ اس کے باوجودگذشتہ سال عالمی فلمی صنعت کا مالی حجم 25 ارب ڈالر تھا۔ 2022 میں امریکی فلمی صنعت کا حجم 7.5 ارب ڈالر تھا۔ پانچ بڑے ہالی وڈ اسٹوڈیوز (ڈزنی،یونیورسل،پیراماونٹ،وارنر برادرز،سونی) نے 16 ارب ڈالر کا کاروبار کیا۔ امریکہ 14 ارب ڈالر کی فلمیں برآمد کرتا ہے جبکہ 7 ارب ڈالر کی فلمیں درآمد کرتا ہے۔گویا 7 ارب ڈالر کا ٹریڈ سرپلس ہے۔ اگر امریکی فلمی صنعت ایک ملک ہوتی تو جی ڈی پی کی بنیاد پر یہ دنیا کی 46 ویں بڑی معیشیت ہوتی۔
اس کے برعکس ہندوستان نے 2022 میں 100 ارب روپے کا کاروبار کیا،جو 2 ارب ڈالر بھی نہیں بنتا۔ ہم کرونا سے قبل کے اعدا و شمار دیکھ لیتے ہیں۔2019 میں بھارتی فلمی صنعت اپنے عروج پر تھی۔ 1833 فلمیں بنیں (ہالی وڈ سالانہ سات سو کے لگ بھگ فلمیں بناتا ہے)،191 ارب روپے (2ارب ڈالر) کا کاروبار ہوا،جبکہ صرف 27 ارب (تقریبا 300 ملین ڈالر) برآمدات سے کمائے گئے۔ بالی وڈ دس فیصد سے بھی کم اپنی فلم برآمد سے کماتا ہے۔ باہر کے ممالک میں بھی بھارتی فلمیں عموما ِہندوستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن دیکھتے ہیں۔ راقم نے کئی مرتبہ سٹاک ہولم اور لندن میں بھارتی فلمیں سینما میں دیکھیں۔ سینماہال ہمیشہ اردو پنجابی بولنے والوں سے بھرے ہوتے۔ برصغیر سے تعلق نہ رکھنے والے فلم بین کو شائد ہی کبھی دیکھا ہو۔
تازہ اعداد و شمار تو دستیاب نہیں لیکن یونیسکو کی ایک لگ بھگ بیس سال پرانی رپورٹ کے مطابق عالمی فلمی صنعت میں ہالی وڈ کا حصہ اسی فیصد جبکہ ہندوستان کا ایک فیصد سے بھی کم تھا۔
اب اس موازنے کے ایک دوسرے پہلو کی جانب آتے ہیں مگر پہلے ایک درخواست ہے۔ آئندہ جب بھارتی فلم دیکھیں یا نیٹ فلکس پر کوئی بھارتی سیریز دیکھیں کو شروع کے ٹائٹلز پر دھیان ضرور دیجئے گا۔ اکثر کسی امریکی اسٹوڈیو (فوکس، سونی، ڈزنی)کا نام نظر آئے گا۔ اگر زی فلمز کا نام دکھائی دے تو یاد رہے کہ زی گروپ کو بھی سونی خرید چکا ہے۔ زی جسے بھارتی میڈیا کی گلوبلائزیشن کے عہد میں سب سے بڑی کامیابی بنا کر پیش کیا جاتا تھا، اب بھارتی میڈیا گروپ نہیں رہا (بھارتی ٹیلی ویژن بھی امریکہ کے ہاتھ میں ہے بھلے چینلز ہندی زبان میں ہیں)۔
گویاہالی وڈ اب ہندی (اردو)میں فلمیں بنا کر بھارت میں دکھا رہا ہے۔ سانوریا) 2007) پہلی فلم تھی جو سونی نے ہندوستان میں بنائی۔ ’مائی نیم از خان‘ سے لے کر ’دنگل ‘ تک(جس نے ریکارڈ بزنس کیا)، ’پدما وت‘سے لے کر’غدر ٹو‘ تک،اکثر بلاک بلسٹر دراصل امریکی فلمیں تھیں جو ہندی (اردو)میں بنیں۔ یہ کہ ہالی وڈ سٹوڈیوز کی کتنی ہی فلمیں ہیں جو ہندتوا کا پرچار کرتی ہیں۔اس موضوع پر الگ سے تحقیق ہو سکتی ہے۔
اب آتے ہیں تیسرے پہلو کی جانب۔ اگر ’دنگل‘جس نے تیس ملین ڈالر کمائے،سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم تھی تو ہندوستان کے اندر سب سے زیادہ پیسہ کمانے کا ریکارڈ 2016 میں ’دی جنگل بک‘نے قائم کیا۔اگلے سال ’دی ایونجرز‘نے’دی جنگل بک‘ کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ لگ بھگ بیس سال پہلے، ہالی وڈ کا ہندوستانی سینما کی ٹکٹ سیل میں حصہ آٹھ فیصد تک تھا جو بڑھ کر،کرونا سے پہلے، پندرہ فیصد تک پہنچ گیا تھا۔
قصہ مختصر، پاکستان کا میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کے شعبے میں بھارتی فلم صنعت اور میڈیا سے کوئی مقابلہ نہیں۔ بھارت دنیا کی ایک بڑی فلمی اور انٹرٹینمنٹ کی صنعت ہے۔ اس کا عروج بھارت کے معاشی ابھار کے ساتھ ساتھ ہوا ہے۔ جوں جوں ہندوستان ایک ذیلی سامراج کے طور پر ابھرا،اس کا میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کا شعبہ بھی علاقائی طاقت بن کر ابھرا۔ ترکی اور جنوبی کوریا کی فلمیں اور ڈرامے بھی عالمی سطح پر جگہ بنا رہے ہیں۔ ہاں البتہ ان کا مقابلہ ہالی وڈ سے نہیں کیا جا سکتا۔
ہالی وڈ کلچرل امپیریلزم کی نئی شکلوں میں بالی وڈ پر بھی تسلط جما رہا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔