پیٹر بوائل
لیلیٰ خالد ایک مشہور فلسطینی انقلابی کارکن ہیں۔ ان کی ایک مشہور دیوار پر کی گئی پینٹنگ(میورل) فلسطین میں مغربی کنارے کو الگ تھلگ کرنے والی اسرائیلی رنگ برنگی دیوار کی زینت ہے۔ وہ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (PFLP) کی قومی کمیٹی کی رکن اور فلسطین نیشنل کونسل میں نمائندہ ہیں۔ وہ آج کل اردن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
لیلیٰ خالد 28 سے 30 جون تک پرتھ میں ہونے والی ایکو سوشلزم 2024 کانفرنس میں ایک نمایاں بین الاقوامی مقرر ہوں گی۔ ایکو سوشلزم 2024 انڈو پیسیفک خطے کے ارد گرد سے ایکو سوشلسٹ کارکنوں کو اکٹھا کرتا ہے۔
انہوں نے 18 فروری کو گرین لیفٹ کو ایک خصوصی انٹرویو دیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
جیسے ہی اسرائیلی فوج نے رفح پر حملہ شروع کیا، بینجمن نیتن یاہو کی حکومت بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کے عبوری احکامات کی تعمیل کرنے کا ڈرامہ بھی نہیں کر رہی ہے۔ آئی سی جے کیس اور اس کے عبوری احکامات پر مختلف عالمی طاقتوں کے ردعمل اور غزہ میں جاری نسل کشی کے بارے میں آپ کا کیا اندازہ ہے؟
لیلیٰ خالد:جنوبی افریقہ اب اس کیس کی پیروی کر رہا ہے، جو آئی سی جے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، کیونک اسرائیل عدالت کے کسی اصول کی پابندی نہیں کر رہا ہے۔ اسرائیل پر اب بہت دباؤ ہے۔ 26فروری کو آئی سی جے کا دوسرا اجلاس ہو گا اور اب عدالت پر ملاقات کیلئے کافی دباؤ ہے، کیونکہ اسرائیل اعلان کر رہا ہے کہ وہ فح پر حملہ کرنے جا رہا ہے۔
رفح میں اس وقت 15 لاکھ لوگ موجود ہیں، کیونکہ انہوں نے لوگوں کو شمال سے اور غزہ شہر سے جنوب کی طرف نکالا ہے۔ وہ وہاں گئے لیکن اب اسرائیل انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا، چاہے ان پر بمباری ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔
اسرائیل بین الاقوامی قانون سے بالاتر ہے۔اسرائیل اب رفح پر حملہ کر رہا ہے۔ ابھی زمینی کارروائی نہیں شروع کی گئی لیکن ہوائی جہازوں کے ذریعے سے بمباری کی جا رہی ہے۔
اب تک امریکی انتظامیہ اسرائیل پر خاطر خواہ دباؤ نہیں ڈال رہی ہے۔ یہ واحد حکومت ہے جو رفح میں نسل کشی کو روکنے کے لیے ضروری دباؤ ڈال سکتی ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ رفح سے باہر ایک محفوظ راستہ کھولیں گے، لیکن یہ راستہ کہاں ہوگا، پوری غزہ کی پٹی میں کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں ہے۔
اسرائیلی فوج اب رفح کے قریب واقع شہر خان یونس میں موجود ہے اور جب لوگ ہسپتال سے باہر نکلے تو وہاں سنائپرز تھے، جنہوں نے چار ڈاکٹروں کو ہلاک کیا اور دیگر طبی کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔
اس لیے لوگ خان یونس کو چھوڑ کر رفح نہیں آ سکتے تھے۔ رفح بھی ایک بہت چھوٹا ضلع ہے جہاں بہت زیادہ لوگ ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ وہ لوگ،جنہوں نے فلسطینیوں کی حمایت کا اظہار کیا اور اسرائیل کی جانب سے کئے جانے والے مظالم کی مخالفت کی، اباپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں، جو آسٹریلیا کی طرح اسرائیل کی حمایت کر رہی ہیں۔
آسٹریلوی حکومت کا رویہ یہ ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، لیکن اسرائیل اپنا دفاع نہیں کر رہا، بلکہ چار ماہ سے حملہ کر رہا ہے۔بمباری اور گھروں کو تباہ کرنے سے زیادہ تر ہلاکتیں خواتین اور بچوں کی ہو رہی ہیں۔
آج جب تک رفح بارڈر نہیں کھولا جاتا لوگوں کے پاس جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے، لیکن اسے ابھی تک انسانی امداد جیسے ادویات اور خوراک حاصل کرنے کے لیے نہیں کھولا گیا، حالانکہ ICJ نے اسرائیل کو غزہ کی پٹی کے تمام حصوں، خاص طور پر شمال میں انسانی امداد کو جانے کی اجازت دینے کے احکامات دیئے لیکن عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ غزہ کراسنگ پر مصریوں کی خودمختاری ہے لیکن اسرائیل کسی کو باہر جانے یا اندر جانے کی اجازت نہیں دیتا اس لیے یہ محاصرہ ہے۔
حکومتوں کو قوانین کی پابندی کرنی چاہیے لیکن اسرائیل آئی سی جے کے عبوری احکامات پر عمل نہیں کر رہا ہے۔ اس لیے انہیں ایکشن لینا چاہیے۔ مثال کے طور پر، وہ اسرائیل پر اپنی نسل کشی روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے سفارتی تعلقات منقطع کر سکتے ہیں۔وہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ اس سے اسرائیل پر دباؤ بڑھے گا۔
اب تک امریکی حکومت کی پیروی کرنے والی حکومتیں وہ اقدامات نہیں کر رہی ہیں۔ وہ صرف اپنے لوگوں کو سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے سنتے ہیں۔صیہونی حکومت نے غزہ پر اپنے تازہ ترین نسل کشی کے حملے کو جواز فراہم کرنے کے لیے 7 اکتوبر کے بارے میں بہت سے جھوٹ بولے ہیں۔ آپریشن الاقصیٰ فلڈ کی وجہ کیا تھی اور حقیقت میں کیا ہوا،اس کے بارے میں PFLP کی سمجھ کیا ہے؟
لیلیٰ خالد: (7اکتوبر کو)آزادی پسندوں نے عام لوگوں پر حملہ نہیں کیا، انہوں نے فوجی بستیوں پر حملہ کیا۔ تاہم جب سرحدیں کھلیں تو کچھ اور لوگ شہریوں کو لے گئے۔اسرائیل اور مغربی میڈیا دونوں یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وہاں قتل عام ہوا ہے۔
ایک معاہدے کے تحت رہا ہونے والے شہری یرغمالیوں نے کہا کہ ان کے ساتھ انتہائی نرم رویہ رکھا گیا۔ تو وہ قتل عام کے بارے میں اس طرح کیوں بول رہے ہیں؟ صرف یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ آزادی پسند دہشت گرد ہیں۔
بین الاقوامی قانون میں، جو لوگ زیر قبضہ ہیں انہیں مسلح جدوجہد سمیت تمام ذرائع سے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، اور یہ مسلح جدوجہد تھی۔
ہمیں غزہ کے قبضے اور محاصرے سے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔اس لئے انہوں نے جھوٹ بولا کیونکہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ یہاں تک کہ جب (امریکی صدر جو بائیڈن) نے کچھ تصاویر دکھائیں تو سی این این نے کہا کہ ان کے پاس اس بات کو ثبوت نہیں ہے کہ 7اکتوبرکو ایسا ہی ہوا تھا۔
دنیا بھر میں لوگ مظاہرے کر رہے ہیں کیونکہ وہ غزہ کے محاصرے کے بارے میں جانتے ہیں،جو 17 سال سے جاری ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے لوگوں پر بہت سے حملے کیے ہیں۔ انہوں نے غزہ پر چار بار حملہ کیا اور بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا، پہلے حملے میں تقریباً 2000 بچے مارے گئے۔ دوسری بار انہوں نے 2000 سے زائد بچوں کو قتل کیا۔ اور پھر غزہ پر تیسرا اور چوتھا حملہ ہوا۔
امریکہ اور اس کے قریبی اتحادیوں سمیت شرمناک طور پر آسٹریلیاکے صہیونی ریاست کی حمایت کرنے کی اصل وجہ کیا ہے؟
لیلیٰ خالد: ان کا اصل منصوبہ تھاکہ 1948میں فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کر کے ایک نوآبادیاتی آباد کار ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جائے، کیونکہ یہ انکے مشترکہ مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کل بائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کی مدد کے لیے 15 ارب ڈالر بھیجیں گے۔
وہ ممالک جو امریکی انتظامیہ کے مفادات میں شریک ہیں وہ اس کی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں، جو حماس کے خلاف نہیں بلکہ فلسطینی عوام کے خلاف جنگ پر منتج ہوتی ہے۔
حماس فلسطینی مزاحمت کا حصہ ہے اور آزادی پسند بھی ہے۔
اوسلو معاہدے کے ساتھ شروع ہونے والے نام نہاد”دو ریاستی حل“ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ ناکام ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کا متبادل کیا ہوگا اور اسے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
لیلیٰ خالد:دو ریاستی حل کا یہ سراب 40 سال سے قائم ہے لیکن انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا، تاکہ ہمیں اپنے مقبوضہ ملک میں کوئی آزادی نہ ہو۔
اوسلو معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل پیچھے ہٹ جائے گا اور ایک فلسطینی ریاست کی اجازت دے گا، لیکن اسرائیل نے ان معاہدوں کی پاسداری نہیں کی جن پر دستخط ہوئے۔
1949 میں اقوام متحدہ نے اعلان کیا کہ دو ریاستیں ہوں گی، ایک یہودی ریاست اور ایک عربی ریاست، فلسطینی ریاست نہیں۔لیکن اسرائیل نے اقوام متحدہ کی ان تمام قراردادوں سے بھی منہ موڑ لیا، جو گزشتہ برسوں میں منظور کی گئی تھیں۔
ہمارے لیے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اول یہ کہ اسرائیل کو فلسطین پر قبضے کا حق حاصل نہیں اور دوسرا فلسطینیوں کی واپسی کا حق۔ یہ تنازعات کو حل کرنے کی کلید ہے۔اقوام متحدہ نے آج تک اپنی ہی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کیا۔
اسرائیل نے ہمارے حق واپسی سے انکار کیا ہے۔حالانکہ یہ اقوام متحدہ کی 1948 کی قرارداد میں شرط تھی کہ اسرائیل کو عالمی برادری کا حصہ تسلیم کیا جائے گا اور فلسطین میں اس شرط پر ایک ریاست ہوگی کہ فلسطینیوں کو واپسی کا حق حاصل ہو۔
اس وقت طاقتوں کے توازن کی وجہ سے اسرائیل کو ایک قوم کے طور پر قبول کر لیا گیا تھا جبکہ فلسطینی پناہ گزین رہے۔میں 1948 میں ہونے والے جرم کے نتیجے میں بننے والے ان پناہ گزینوں میں سے ایک ہوں۔
اب ہم فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے ساتھ ایک جمہوری ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پھر ہم مکمل طور پر فلسطین میں رہ سکتے ہیں اور فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں کس قسم کی ریاست کی ضرورت ہے۔
اس کے بغیر نسل در نسل جدوجہد جاری رہے گی۔آج جو فلسطینی لڑ رہے ہیں وہ چوتھی نسل ہیں۔
مغربی کنارے میں بھی جنین کی طرح پناہ گزینوں کے کیمپ ہیں اور ہم نے روزانہ کی بنیاد پر ان پر حملے ہوتے اور مکانات کو مسمار ہوتے دیکھا ہے۔
اسرائیل نے مغربی کنارے میں تقریباً 6000 افراد کو گرفتار کیا ہے،جبکہ 7000 افراد پہلے سے ہی حراست میں تھے۔ اس لیے ہم حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کے بدلے ان سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو تمام اسرائیلی فوجی ہیں۔
1948 سے پہلے فلسطین میں کوئی اسرائیلی نہیں تھا، وہاں یہودی بھی تھے جو فلسطینی تھے لیکن ہم مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کرتے۔ صہیونی تحریک نے دوسری عالمی جنگ کے بعد لوگوں کو ایک اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے فلسطین میں لایا، جس کی ضمانت اس وقت کی برطانوی نوآبادیاتی حکومت نے دی تھی۔
ہمارے ساتھ رہنے والے یہودیوں سمیت ہماری شناخت فلسطینیوں کے طور پر تھی۔ ہم نے فلسطین سے یہودیوں کو نہیں نکالا۔ یہ تاریخ ہے کہ فلسطین فلسطین ہے
اب قوتوں کا توازن ہمارے حق میں کچھ زیادہ ہی آ رہا ہے۔ یہ ایک قدم آگے ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں نے آزاد فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ”آزاد فلسطین“ آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کے لوگوں کا نعرہ بن گیا ہے۔
لیکن آسٹریلوی حکومت، جو ابھی تک برطانوی تاج کے نیچے ہے، دوسری استعماری طاقتوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کی حمایت کر رہی ہے۔
غزہ پر تازہ ترین صہیونی نسل کشی کی جنگ نے بہت سے فلسطینیوں کی جانیں گنوائی ہیں لیکن فلسطین کے لیے ایک تاریخی عالمی اجتماعی یکجہتی اور اس جنگ کی مخالفت بھی ہوئی ہے، جس پیمانے پر ویتنام کی جنگ کے بعد سے نہیں دیکھا گیا۔ کارکنوں کی ایک پوری نئی نسل اس تحریک میں آگے بڑھی ہے۔ یکجہتی کے کارکنوں کی اس نئی نسل کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟ جدوجہد میں زندگی کے اپنے تجربے سے آپ کیا سبق بانٹ سکتی ہیں؟
لیلیٰ خالد:میں کہوں گی کہ ہم ان تمام لوگوں کے مشکور ہیں،جنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اور جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے اس کے حوالے سے اس رویے کا اظہار کیا ہے۔ دنیا کے لوگ اب اس جدوجہد کے بنیادی مسائل کو سمجھتے ہیں،کہ اس جنگ میں اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، اور ہم فلسطینی یہ نہیں بھولیں گے۔
میں نے ٹی وی پر اور کامریڈوں کی بھیجی گئی ویڈیوز میں دیکھا ہے کہ میلبورن اور سڈنی میں زبردست مظاہرے ہوئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو اس کی وجوہات کا احساس ہونے لگا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔
وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج فائر بندی کرے اور غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے انخلاء کرے۔
یہ وہی ہے جو میں دنیا کے لوگوں، خاص طور پر نئی نسل سے کہہ رہی ہوں: انصاف کیلئے لڑتے رہیں۔
فلسطین کاز ایک انسانی کاز ہے۔ اب ہم صرف غزہ کی پٹی کا نہیں بلکہ انسانیت کا دفاع کر رہے ہیں۔
ہم سامراجیوں بالخصوص امریکی سامراج کے خلاف خطے میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ وہی جنگیں شروع کرتے ہیں اور وہ ہر طرح سے اور نئے ہتھیاروں سے اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں،لیکن وہ فلسطینی بچوں کیلئے کچھ نہیں دے رہے ہیں۔
(بشکریہ: گرین لیفٹ، ترجمہ: حارث قدیر)