صائمہ بتول
’سیروگیسی‘جسے عام لفظوں میں ’کرائے کی کوکھ‘بھی کہا جاتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں جہاں پہ ہر چیز کمرشلائز ہو چکی ہے،وہاں ماں کی کوکھ کو بیچنے اور خریدنے کا عمل بھی عروج پر ہے۔
سیروگیسی دراصل بچے کی پیدائش کا ایسا عمل ہے، جس میں ایک عورت کسی دوسرے جوڑے کے ایمبریو کو اپنے رحم میں رکھتی ہے،اس کی نشونما کرتی ہے اور اس بچے کو دنیا میں لانے کا سبب بنتی ہے۔زیادہ تر معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں جو والدین کسی بائیولوجیکل نقص کے سبب بچہ پیدا نہیں کر سکتے وہ کسی دوسری عورت کے بطن سے بچہ پیدا کرواتے ہیں۔ جو والدین کسی حیاتیاتی نقص کی وجہ سے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں،ان کے لیے IVF جیسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی ہے۔ایسے والدین اپنے ایمبریو یا جینین کو سیروگیٹ یا متبادل ماں کے بطن میں رکھواتے ہیں۔ یہ متبادل ماں بچے کو جنم دیتی ہے،اور بچے کو اس کے بائیولوجیکل ماں باپ کے حوالے کر دیتی ہے۔
بنگالی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے سیروگیسی جیسے اہم مسئلے پر آواز اٹھائی ہے۔مصنفہ کا کہنا ہے کہ ”سیروگیسی(کرائے کی کوکھ سے بچے حاصل کرنا) اسی لیے ممکن ہے کیونکہ عورتیں غریب ہیں۔امیر چاہتے ہیں کہ ان کے مفادات کے لیے معاشرے میں ہمیشہ غربت موجود رہے۔اگر آپ کوکسی بچے کی پرورش کی اشد ضرورت ہے تو کسی بے گھر بچے کو گود لے لیں۔بچوں کو آپ کی خصلتیں وراثت میں ملنی چاہئیں،یہ بس خود غرض انا کی تسکین ہے۔“
تسلیمہ نسرین کی ایک اور ٹویٹ سوشل میڈیا پر مقبول ہوئی،جس میں انھوں نے کہا کہ”میں تب تک سیروگیسی کو قبول نہیں کروں گی،جب تک امیر خواتین سیروگیٹ مائیں نہیں بنتیں۔سیروگیسی خواتین اور غریبوں کا استحصال ہے۔“
پوری دنیا میں سیروگیسی کا عمل جاری ہے۔کئی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے سیروگیٹ ماؤں کے لیے قانون کے مسودے تیار کیے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کے قوانین دراصل استحصال کی ایک ایسی شکل ہوتے ہیں جو غریب عوام کی سمجھ سے بالاتر ہی ہوتے ہیں۔ ایسے قوانین صرف کاغذ کے پلندوں تک محفوظ ہوتے ہیں اور صرف پڑھے لکھے اور دولت مند طبقے کی ان تک رسائی ہوتی ہے۔ ایسے تمام قوانین کو سرمایہ دار اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تھائی لینڈ میں کمرشل مقاصد کے لیے سیروگیٹ بچوں کی پیدائش کے عمل پر پابندی سے متعلق ایک مسودہ تیار کیا گیا۔برازیل میں بھی تجارتی سیروگیسی کے متعلق قوانین وضع کیے گئے ہیں۔
آرکنساس،جنوبی کوریا،کیلیفورنیا،ہالینڈ،برطانیہ،سکاٹ لینڈ،آسٹریلیا امریکہ،یوکرین،روس،جارجیا وغیرہ ایسے ممالک ہیں،جہاں تجارتی سیروگیسی پر پابندی کے قوانین موجود ہیں مگر ان قوانین کے باوجود کمرشل سیروگیسی ان ممالک میں عروج پر ہے۔کولمبیا میں سیروگیسی کے لیے کوئی قانون موجود نہیں وہاں 2023 سے سیروگیسی کے مستقبل پر بحث و مباحثے کیے جا رہے ہیں۔
سیروگیٹ مائیں وہ غریب عورتیں ہیں جن کے اپنے بچے موجود ہیں اور وہ ان بچوں کی کفالت کے لیے اپنی کوکھ بیچنے پر مجبور ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں بھی سیروگیٹ ماوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان حاملہ خواتین کی بھرپور نگہداشت کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جاتے۔ اگر سیروگیٹ ماں کو حاملہ ہونے کے دوران کوئی پیچیدگی ہو جاتی ہے،تو اس کی ذمہ دار بھی سیروگیٹ ماں ہی ہوتی ہے۔اگر بچے میں معذوری کے آثار ہوں یا بچہ پیدائش کے بعد معذور ہو تو سیروگیٹ ماں سے وہ بچہ نہیں لیا جاتا۔اپنے بچوں کے ساتھ سیروگیسی کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے کو بھی پالنا ایسی خواتین کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔گزشتہ عرصے میں کئی ایسے کیس رپورٹ ہوئے ہیں،جن میں سیروگیٹ ماں سے اس کے بچے کو نہیں لیا گیا، کیونکہ پیدائشی طور پر کوئی نقص موجود تھا۔
13 اگست 2014 ء میں روزنامہ پاکستان نے ایک رپورٹ شائع کی،جس کے مطابق تھائی لینڈ کی ایک سیروگیٹ ماں نے ایک آسٹریلوی جوڑے پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کے ہاں جنم لینے والے جڑواں بچوں میں سے ایک کو اس کے پاس ہی چھوڑ دیا اور دوسرے کو وہ اپنے ساتھ آسٹریلیا لے گئے۔اس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ ان جڑواں بچوں میں سے ایک لڑکا اورایک لڑکی پیدا ہوئی تھی۔لڑکی صحت مند تھی جبکہ لڑکا پیدائشی طور پر ڈاؤن سینڈروم کا شکار تھا۔
آسٹریلوی جوڑے نے لڑکے کو تھائی لینڈ کی متبادل ماں کے پاس ہی چھوڑ دیا اور صحت مند لڑکی کو اپنے ساتھ لے گئے۔یہ واقعہ عالمی توجہ کا مرکز بنا اوراس کی وجہ سے تھائی لینڈ کی کمرشل سیروگیسی پر تنقید بھی ہوئی۔بھارت،یوکرین،تھائی لینڈ میں سیروگیسی یا بچے کی متبادل پیدائش سے متعلق قوانین بہت نرم ہیں اور یہ ممالک امیر ممالک کے ان والدین کے لیے قابل توجہ ہیں جو کسی حیاتیاتی نقص کی وجہ سے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔بچے کی خواہش ایسے والدین کو ان ممالک میں کھینچ کر لاتی ہے۔ان پسماندہ ممالک میں ایسے والدین کو سستے داموں میں متبادل ماں مل جاتی ہے۔اپنے خاندان کی کفالت کرنے میں مشکلات سے دوچار ماؤں کو سستے داموں اپنی کوکھ بیچ کر خاندان کی روزی روٹی کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں معاشی مسلہ شدت کے ساتھ موجود ہے،ان پسماندہ ممالک میں خواتین کو ان کے جائز حقوق تک نہیں مل سکے۔ یہاں خواتین روایات کے بندھنوں میں آج تک جکڑی ہوئی ہیں۔ایسے خطوں میں سیروگیٹ ماؤں کے لیے مشکلات زیادہ ہیں۔سیروگیٹ ماں کو پورے معاشرے سے بغاوت کر کے یہ فیصلہ لینا پڑتا ہے۔بعض اوقات سیروگیٹ ماؤں سے قطع تعلقی کر لی جاتی ہے۔ان کے گھروں میں آنا جانا اور ان کے ساتھ بات چیت چھوڑ دی جاتی ہے۔
پاکستان میں سیروگیسی پر پابندی کے قوانین موجود ہونے کے باوجود مائیں اپنی کوکھ بیچتی ہیں اور کوکھ بیچنے کا عمل شادی شدہ خواتین کے علاوہ غیر شادی شدہ لڑکیوں میں بھی موجود ہے۔غیر شادی شدہ لڑکیاں اپنی جنسی ضروریات پوری کیے بنا مائیں بنتی ہیں۔کرائے کی کوکھ خواتین کے جذباتی استحصال کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔اپنے جذبات اور خواہشات کو دفن کر کے غریب خواتین اپنی کوکھ میں سرمایہ داروں کے بچے پالتی ہیں۔
اسلام آباد میں سیروگیسی کے لیے مختلف کلینک موجود ہیں،جن میں سیروگیسی کے عمل کے ذریعے بچوں کی پیدائش کروائی جاتی ہے۔اسلام آباد کے علاوہ پورے پاکستان میں بے شمار ہسپتال موجود ہیں جو تجارتی سیروگیسی کا اہم ذریعہ ہیں۔
پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں خواتین اپنی کوکھ بیچنے کے لیے صرف 50 ہزار کی معمولی رقم سے شروعات کرتی ہیں۔سستے داموں میں کوکھ بیچنے کا عمل غریب خواتین اور ان کے خاندان کو اکثر اوقات مہنگا پڑتا ہے۔بعض خواتین کو کرائے کی کوکھ سے بچہ پیدا کرنے کے لیے جان کی بازی لگانی پڑتی ہے۔
پیرینٹیج ایکٹ 2004 ء نے غیر تجارتی سیروگیسی کو قانون بنا دیا تھا،لیکن پیدائشی والدہ اور اس کے شوہر کو والدین نہیں سمجھا جاتا،جب تک جینیاتی والدین بچے کو واپس نا اپنائیں۔سیروگیسی کی قانونی حیثیت پوری دنیا میں مختلف ہے۔سیروگیسی کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کی شہریت اور قانونی حیثیت بھی پریشانی کا سبب بنتی ہے۔
سیروگیسی کے ذریعے بچہ پیدا کروانے میں سر فہرست شوبز انڈسٹری کے لوگ ہیں۔خواتین اداکارائیں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود بچہ پیدا کروانے کے لیے متبادل ماں تلاش کرتی ہیں۔کیونکہ بچہ پیدا کرنے سے عورت کی جسمانی ہیت میں تبدیلیاں آتی ہیں اور وہ بچہ پیدا کرنے سے پہلے کی طرح پرکشش نہیں نظر آتی۔ خواتین اداکاراؤں کے انڈسٹری میں باقی رہنے کیلئے خوبصورتی ایک اہم شرط ہے۔ یہ بھی اس نظام کی بے ہودگی ہے کہ آرٹ کو مصنوعیت تک محدود کر دیا گیا ہے۔مشہور بھارتی اداکارہ پریانکا چوپڑا کے علاوہ سنی لیون نے بھی سیروگیسی کے عمل کے ذریعے بچوں کی پیدائش کروائی ہے۔
کرائے کی کوکھ کا مسئلہ بھی دراصل معاشی مسئلہ ہے۔مجبوری کے بغیر کوئی بھی عورت اپنی کوکھ نہیں بیچ سکتی۔سیروگیسی کی حمایت میں ہم جنس پرست جوڑوں کے علاوہ امیر طبقے کے مرد و خواتین بھی شامل ہیں۔فیمینسٹ سیروگیسی پہ تنقید کرتے ہیں۔ فیمنسٹوں کا ماننا ہے کہ ایسا صرف پدر شاہی کی وجہ سے ہے۔جبکہ مارکس وادی اس سے بھی بڑھ کر سیروگیسی کے مسئلے کو معاشی مسئلے کی ایک کڑی بھی قرار دیتے ہیں۔جب تک معاشی مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک غریب طبقے کے مرد و خواتین پہ حالات کا یہ جبر موجود رہے گا۔سرمایہ دارانہ نظام میں سیروگیٹ ماؤں کو ہمدردی کی دیوی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے،کیونکہ ایسے القابات سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔سرمایہ داروں کو ان سیروگیٹ ماؤں کی اموات کا دکھ نہیں ہوتا۔ایسی تمام سیروگیٹ مائیں جن کی اموات بچے کی پیدائش کے دوران ہوتی ہے۔ان کے بچوں کی کفالت کے لیے ریاست کی طرف سے کوئی مدد نہیں کی جاتی۔ نتیجہ کے طور پر انہیں چائلڈ لیبر سے لیکرسماج کی بے رحمیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
سیروگیسی ایک ملٹی ملین ڈالر کی صنعت ہے سرمایہ داری میں سیروگیسی کو کمرشل بنیادوں پر چلانا ہی اس نظام کے لیے فائدہ مند ہے۔اس نظام میں انسان دوست قوانین کم ہی بنائے جاتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کی یہ تمام تر غلاظتیں اس نظام کے خاتمے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔